(Last Updated On: )
آب و آتش کی قسم، دل میں وہی چاہ تری
بیٹھے ہیں تکتے ہوئے ہم تو یوں ہی راہ تری
سوکھتے سائے میں ہے جس کے چھُپا تو اے دوست
وہی بد شکل سی دنیا تو ہے بدخواہ تری
سیر و تفریح سے فرصت ہو تو اس رہ سے گزر
ہم پہ بھی آنکھ پڑے چونک کے ناگاہ تری
چاند نکلا ہے کسی شب، نہ کسی دن سورج
ہم نے تحریر ہی دیکھی نہیں اس ماہ تری
شہر مٹ جائیں، زباں جل اُٹھے، آنکھیں سوکھیں
مدح لازم ہمیں ہر حال میں اے شاہ تری
نیند کھو جائے، نفس چیخے، لہو لہرائے
آرزو، خواب میں آمد کی، وہی آہ ! تری
جسم کا بھیس تو پہنا ہے یہ تو نے اسلمؔ
تیری ہستی نظر آتی نہیں آگاہ تری
٭٭٭