(Last Updated On: )
ہر نظر اس رخِ روشن پہ پسینے کی طرح
منجمد ہو کے چمک اُٹھی نگینے کی طرح
کیسے جذبات تھے، الفاظ جنھیں چھُو نہ سکے
تیرتے رہ گئے بے سمت سفینے کی طرح
چاہتا ہوں کہ بھُلا دوں تجھے لیکن ظالم
جاگزیں دل میں تری یاد ہے کینے کی طرح
سیرِ گُل سخت ضروری ہے کہ ہم ڈھونڈ نہ پائیں
اِستعارہ شجرِ حسن کے سینے کی طرح
جس میں رہ رہ کے اُبھرتی ہے اُترتی ہوئی چاپ
ہے مرے ذہن میں گوشہ کوئی زینے کی طرح
راہ ڈھونڈا کئے اک راہ کو کھونے کے لئے
خواب دیکھا کئے اک خواب کو جینے کی طرح
نہ دھڑکتا ہے، نہ پیتا ہے لہو کو، اب تو
دل پڑا رہتا ہے سینے میں کمینے کی طرح
ہجر کے شہر میں اسلمؔ وہی وحشت وہی شور
کیسے جی پائیں گے ہم ہوش میں جینے کی طرح
٭٭٭