(Last Updated On: )
اپنی انفاس سے خود بھڑکتے رہے
ہم دِیا بن گئے اور سہمے رہے
کیا کہیں کس طرح ہم ترے ہجر میں
فاحشہ سوچا کے ظلم سہتے رہے
کل کے مجہول امکاں کی تائید میں
رات بھر ہم ستاروں سے لڑتے رہے
خوشبوئیں ہم کو بے تاب کرتی رہیں
اس حسیں جسم میں پھول ہنستے رہے
آگ سے خواب مدغم ہوا لب بہ لب
دیر تک پَر یُونہی پھَڑپھڑاتے رہے
یک بہ یک شہر کی روشنی اُڑ گئی
اور ترے نور سے ہم اُلجھتے رہے
کِس طرح ریگِ صحرا میں اسلمؔ ہمیں
گل جزیرے نگاہوں میں آتے رہے
٭٭٭