(Last Updated On: )
ہم سائے میں چھُپ رہتے تھے جسں تشنہ شجر کے
اس رات پہ جل اٹھی ہَوا آج ابھر کے
اِک ٹوٹتی آواز رواں موجِ ہَوا میں
اِک اجنبی سرگوشی اُبھرتی ہوئی ڈر کے
آ۔ لَوٹ چلیں اَے مرے سائے، مرے ہم زاد
تنہائی مرے کمرے میں بیٹھی ہے سنور کے
شعلے سی بھڑکتی ہوئی نظارے کی خوشبو
آئینے چکا چوندھ مِری خوابِ نظر کے
وہ بچھڑا ہوا شہر نہ گھُس آئے کہیں پھر
سب روزن و در بند ہیں اب یوں مرے گھر کے
کہتی تھی کہ اِک عمر مرے ساتھ رہے گی
وہ آگ کئی سال ہوئے جس سے گزر کے
صحرا میں بھٹکتا ہوا سایہ تو بنے ہو
آگے کہو اسلمؔ اب ارادے ہیں کدھر کے
٭٭٭