(Last Updated On: )
بابِ طبرق
۱۸ مئی ۱۹۸۱ء سے
کرب سے شیشۂ ساعت کی ہوئی ریگ کثیف
ایک اک پَل کئی صدیوں میں جیا ہے میں نے
آئینہ بن کر تجھے منظر بنا دینا پڑا
تجھ کو یوں سوچا کہ پھر خود کو بھُلا دینا پڑا
یوں ہَوا کے ساتھ در آنے لگی وحشت کی ریت
سانس کے نیلے دریچے کو بُجھا دینا پڑا
اِک تیرے آنے سے بدلی خانۂ دل کی فضا
کِتنی تصویروں کو چپکے سے ہَٹا دینا پڑا
شدّتِ غم سے ہوئی موجِ نفس یوں ملتہب
شہر کی بوجھل ہواؤں کو جَلا دینا پڑا
تو مِلی شارع پہ لیکن اَن کہے جذبے کی طرح
اک اشارہ اپنی آنکھوں میں چھُپا دینا پڑا
وہ سمجھتا ہے کہ مِٹنا عاشقی کی رسم ہے
جس کی خاطر خود کو اسے اسلمؔ مِٹا دینا پڑا
٭٭٭