(ٹیبلو)
(ایک کمرہ ، کمرے میں ایک لڑکا شرفو عمر ۸ ، ۹ سال۔ بہت خوبصورت مگر پھٹے پرانے لباس میں بہت تھکا ہوا۔ بار بار جماہیاں لیتا ہے۔
(دھیما میوزک)
بہت تھک گیا ہوں
بہت تھک گیا ہوں
تھکن سے بدن چور ہے
اور سر دکھ رہا ہے
بہت تھک گیا ہوں
وہ بچے جنھیں میں نے دیکھا تھا کل پار ک میں
وہ سب کتنے خوش تھے
ان کی ہنسی
جیسے کلیاں چٹکتی ہیں اور پھول کھلتے ہیں
مقدر کے اچھے
وہ بچے!
اور ایک میں ہوں
میں ہنسنے کو اور کھیلنے کو ترستا ہوں
میرے مقدر میں شاید ہنسی یا خوشی نام کو بھی نہیں ہے
پھر وہ سب اپنے اپنے گھروں کو گئے
ان سب کے گھر ہیں
وہاں ان کی مائیں ہیں اور ماؤں کی مامتا ہے
مگر میں!
میرا کوئی بھی گھر نہیں
نہ جانے میں اس حال میں کب سے ہوں
ہمیشہ سے شاید اسی حال میں
ان دکھوں میں
انھیں آنسوؤں میں
بہت تھک گیا ہوں
گھڑی دو گھڑی کے لئے
یہاں لیٹ جاؤں
کچھ دیر آرام کر لوں
آرام کر لوں
آرام کر لوں (شرفو سو جاتا ہے ۔ پریاں آتی ہیں اور نغمہ چھیڑ تی ہیں)
چل۔۔۔۔۔۔۔مہکتی بہاروں میں چل
چل۔۔۔۔۔۔۔حسیں آبشاروں میں چل
مہکتی بہاریں بہت ہی حسیں ہیں
حسیں آبشاروں میں آنسو نہیں ہیں
چمکتے ستاروں میں چل
تجھے تیرے خوابوں کی دنیا دکھا دیں
انوکھے نظاروں میں تجھ کو بسا دیں
انوکھے نظاروں میں چل
یہ تاریک شب ہے سویرا نہیں ہے
بھرے شہر میں کوئی تیرا نہیں ہے
کہیں اپنے پیاروں میں چل
(گانا ختم ہوتے ہی پریاں جانے لگتی ہیں اور میڈم داخل ہوتی ہے)
میڈم: او مائی گاڈ
یہ یہاں سو رہا ہے۔
کتنے آرام سے سو رہا ہے۔
ارے اٹھ کے بیٹھ
(شرفو جاگتا ہے)
تو کون ہے؟
شاہزادہ ہے
نواب زادہ ہے
جاگیرداروں کی اولاد ہے
کسی سیٹھ کے گھر پیدا ہوا ہے
ترا باپ سردار یا میر ہے؟
بول!
یہ وقت سونے کا ہے
نکھٹّو
بہت کام سے جی چراتا ہے تو کام چور
کم بخت
گستاخ
بور
(چھوٹی بچی نازلی داخل ہوتی ہے)
میڈم؛ گھر کا سب کام پھیلا پڑا ہے۔
اور تو سو گیا
نہ گھر کی صفائی ہوئی اور نہ اب تک مسالہ پسا ہے
اور تو سو گیا اور
بتا تو نے کیوں آج اب تک مسالہ نہ پیسا ، صفائی نہ کی
نازلی: ممی ڈئیر ، ممی ڈئیر
صبح کے دس بجے
آپ جب سو رہی تھیں
تو شرفو نے اک ایک کمرے میں جھاڑو بھی دی
اور ہر اک چیز سے گرد بھی صاف کی
اور مسالہ جو شرفو نے پیسا تھا اندر کچن میں رکھا ہے
میڈم: تم چپ رہو نازلی
تم نہیں جانتیں
تم نہیں جانتیں
میں یہ پوچھتی ہوں کہ کیوں اس نے برتن نہ مانجھے ابھی تک
نازلی: ممی ڈئیر
ممی ڈئیر
اس نے برتن تو بالکل سویرے ہی مانجھے تھے ، چمکائے تھے
پھر ان کو الماریوں میں سجایا تھا
میڈم: تم چپ رہو نازلی
تم نہیں جانتیں
تم نہیں جانتیں
یہ بہت کام سے جی چراتا ہے
اس کا دل گھر کے کاموں میں لگتا نہیں
کبھی یہ تمھارے کھلونوں کو للچائی نظروں سے تکتا ہے اور چاہتا ہے
کہ ان کو چرا لے
اور انور کا جو قیمتی سوٹ ہے
اسے اپنے ان گندے ہاتھوں سے اس نے چھوا تھا
۔۔۔۔۔سوٹ پر یاد آیا
ارے میلے کپڑوں کی گٹھری جو کمرے کے کونے میں کل سے پڑی ہے
وہ تجھ کو دکھائی نہ دی
ارے بولتا کیوں نہیں
بے حیا تو نے کپڑے نہ دھوئے
کام کرتا نہیں اور کھانے کو موجود ہے
اتنا سا بچہ ہے، پر اس کی خوراک! اللہ توبہ
اگر اس کا بس ہو تو بکرے کو منٹوں میں چٹ کر کے یہ ہضم کر جائے
اور پھر بھی بھوکا رہے
نازلی: ممی ڈئیر، ممی ڈئیر
اس بیچارے نے کل رات سے کچھ بھی کھایا نہیں
اس کو HEADACHE سے FEVER ہے اورCOLD ہے
پھر بھی سب کام اس نے کیے
واقعی یہ بڑا BOLD ہے۔
میڈم: تم چپ رہو نازلی
تم نہیں جانتیں
تم نہیں جانتیں
یقیناً ہیں کچھ کام ایسے
جو اس وقت تو یاد مجھ کو نہیں آرہے
مگر پھر بھی مجھ کو یقیں ہے کہ وہ سیکڑوں کام جن کو میں اس وقت
بھولی ہوئی ہوں وہ اس نے کیے ہی نہیں
ان کے نہ کرنے کی اس کو سزا تو ملے گی ضرور
تھم تو جا بے شعور
(میڈم اسے مارنے کو دوڑتی ہے ۔ لڑکا بچنے کو بھاگتا ہے ۔ دونوں اسٹیج کے چکّر لگاتے ہیں۔ نازلی بچانے کی کوشش کرتی ہے)۔
میڈم: ٹھہر تو سہی
شرفو: ہائے مر جاؤں گا
نازلی: نہیں ممی ڈئیر
میڈم: آج کی مار کو عمر بھر یاد رکھے گا تو
شرفو: کوئی مجھ کو بچائے
نازلی: نہیں ممی ڈئیر، نہیں ممی ڈئیر
میڈم: میں تجھے آج کچا چبا جاؤں گی۔ وہ جو سب کام ہیں۔ سیکڑوں کام
جن کو میں اس وقت بھولی ہوئی ہوں
اگر تو نہ ان کو کرے گا
تو کیا ان کو ۔۔۔۔آ کر تری ماں کرے گی۔
شرفو: (طیش میں آ کر) مری ماں کو کچھ مت کہو
خبر دار دیکھو مری ماں کو کچھ مت کہو
ماں تو کہاں ہے
میں کہاں تجھ کو ڈھونڈوں
تو جنت میں ہے
میں جہنم میں ہوں
ماں!
تو آ بھی جا
تو جنت سے آ جا
مجھے اپنی باہوں میں لے، اپنی چادر میں مجھے کو چھپا
آ جا
ماں
ماں!
(شرفو بے ہوش ہو جاتا ہے)
٭٭٭