(Last Updated On: )
اب میں پھروں تو شہر میں کیا اہتمام ہو
قاتل کو کوئی دیکھے تو کچھ شاد کام ہو
اچھا تمہیں فروغِ شبِ غم کا خوف ہے
کھڑکی سے کود جاؤ کہ قصہ تمام ہو
میں مجرمانِ خود طلبی کا ہوں رہنا۔!
محتاط باد ہونٹوں پہ میرا نہ نام ہو۔!
اخبار میں نہیں کوئی آواز زندہ دار
ہنگامہ ہو کہیں پہ۔ کہیں قتلِ عام ہو
اسلمؔ لہو کی تیرتی آواز ہے شر ر
حرفِ سفید قطرۂ آہستہ گام ہو
٭٭٭