(Last Updated On: )
اے کاشفِ رازِ دروں
میں بھی تو تیرا راز ہوں
لیکن
مرا اک قہقہہ___ تو بھی جنوں، میں بھی جنوں
ٹوٹتے پتھر لیے جزیروں میں
ہوا کی لہر نے
کچھ بھیانک گنجلک چہرے اُبھارے تھے
ہم ان میں ڈھونڈتے تھے تیری رنگت
تو مگر بے رُوح تھا___!
اے کا شف رازِ دُروں
پر سر جھکاتی شام
عریاں جسم ہوتی صبح میں
ہم نے اپنے جال بن کر
بے فنا گہرے سمندر میں
تجھے جھانکا___
مگر تو بے بدن تھا
اے کا شفِ رازِ دُرون
یا تو ہے کچھ___ یا میں نہیں
لے آج اپنے جسم کے دریافت کردہ شہر میں
تیری خبر کا ایک سایہ ڈھونڈتا ہوں
آ مرے نزدیک آ
آ مرے ہوئے ماتھے کو چوم
٭٭٭