(Last Updated On: )
میرے لہو میں احتراق ایک شرر ہے ہو گیا
پھر یہ بتا کہ روشنی آ کے کہاں ٹھہر گئی؟
چشم جنوں کی اُنگلیاں رینگتی ہیں بدن پہ اب
ہونٹوں کی بات دوڑ کر آنکھوں کے در پر آ گئی
سگرٹوں میں جلے ہوئے سارے خیال کے طیور
کاغذوں پر پڑی ہوئی اک صدائے خوف سی
اس نے پکار کر کہا۔ پھول گرے شب وفا
میں رہا چُپ کہ میں نے تو بات کی آگ چوم لی
ہے مرے شہر کی ہوا، خود میرے جسم سے جدا
صبحوں میں رات کا خمار، شاموں میں دن کی تشنگی
پھیل گئی لہو کی لہر، تیر گیا زمیں پہ رنگ
اسلمؔ خود پسند کی باتوں میں ایک بات تھی
٭٭٭