(Last Updated On: )
درد ملتا ہے تو مٹھی میں چھپا لیتا ہوں
شعلے اُٹھتے ہیں تو آنکھوں میں چرا لیتا ہوں
سانس لیتا ہوں تو کچھ آگ نکلتی بھی تو ہے
کیسا شکوہ ہے یہ، میں کس کی ہوا لیتا ہوں
ضد، مرے جسم سے؟ میں جنگ تک آؤں بے فیض
خیر چہرے پہ ترا رنگ لگا لیتا ہوں
سنگ سکھلائے مجھے ذوقِ شرارہ سازی
میں تو بارود ہوں میں سب کا مزہ لیتا ہوں
میری رگ رگ میں چھپی ہے مری حرفت سازی
نقطہ و دائرہ و خط کو لڑا لیتا ہوں
کھڑکیاں سنتی ہیں جب مری نرالی نظمیں
کھلکھلا اُٹھتی ہیں، دیوانہ بنا لیتا ہوں
اب کبھی برق نہ آئے مرے گھر میں اسلمؔ
آج میں دونوں ہی تاروں کو ملا لیتا ہوں
٭٭٭