چلو ہو جائیں کچھ باتیں
اسائیڈ، تخلیے یا خود کلامی میں
زلیخا، نائے لویاؤ، میا میرا
تمہارے ہونٹ کیسے ارغوانی ہیں
مگر سانسوں سے کیسی باس آئے بے خیالی کی
بہت نا مطمئن ہو کیا؟
کمانوں پر انا کی تانت ڈھیلی پڑ گئی ہے
انگلیوں میں انگلیاں باندھے
میں اپنے جسم کی گٹھڑی کے میلے پاپ کو گرنے نہیں دیتی
مجھے یہ فاختائی رنگ کا انڈر ویر اچھا نہیں لگتا
مجھے تو نیم عریانی کی باتیں
گالیاں اور چست پہناوے
مساموں میں ذرا سی گدگدی کرتے ہوئے، کولون کی خوشبو
لبوں کی قرمزی رنگت
بدن کے صرف ہو جانے کی راتوں کا تصور اچھا لگتا ہے
مگر یہ حکم کے دربار والے بھی قیامت ہیں
ہوا سے کیا خبر کس روز استعفیٰ طلب کر لیں
گلوں میں رنگ بھرنے کا
زلیخا! تو نے جیسے میرے دل کی بات کہ دی ہے
یہ خبریں، روز کی خبریں مجھے تو زہر لگتی ہیں
مجھے کیا ان غباروں سے
جو شام ہوتے ہی
گھٹتی پھونک، بڑھتے ضعف سے لمبوترے ہو جائیں
نامردی کی حالت میں
یہ سارے رہس دھاری ہیں ڈرامے کی مثلث کے
ہماری مائیں کہتی ہیں
وہاں پورب کے امبر سے کوئی اوتار اترا تھا
چٹانیں بن گئیں تھیں
دودھ دیتی گائیں جس کے لمس کرنے سے
اسی کے شبد کی تاثیر نے
مجھ کو بنا ڈالا ہے گائے بھی گوالن بھی
یہ کیسا روگ ہے ہنسنے میں رونے کا
میں دھرتی ہوں
میں سب بھوکیں بھگت لیتی ہوں
لیکن سانولے ساون کی باہوں میں سمٹ کر پھیلنے کی پیاس
کیسے فرش کے نیچے
مرے آئے ہوئے اعضا مٹائیں گے
کروں کیا حکم کی سرکار
میرے جسم کی مٹی سے ترکاری اگاتی ہے
میں کیسے چڑ مڑا کر بھربھری سی ہو گئی ہوں
گرم خانوں میں
اری او نائے لو یاؤ!
ذرا یہ دیکھ! کیسے چوڑیوں جیسے یہ حلقے
نقرئی وینس کے حلقے ثبت ہیں میری کلائی پر
میں نمفومینیک ہوں
اور لعنت، باہ ہم بگ بھیجتی ہوں
جسم کے کنجوس لوگوں پر
میں گٹھڑی سی بنی ڈرتی ہی رہتی ہوں
یہاں کی سنگساری سے
کسی دن آئے گا اسپ ہوا پر
شاہزادہ اور بھگا کر ساتھ لے جائے گا مجھ کو
عشرتوں کی راج دھانی میں
ختن کی مشک اور لعل یمن کی آبداری سے
تمنا کے شبستان میں
دمشق و قاہرہ، یونان و روما کے پری زادوں کی
سب راتیں
میری غارت گری کی ایک شب میں منعکس ہوں گی
مجھے تم دیکھنا میری ہی آنکھوں سے
میں جب فانوس آویزوں میں، اونچی ہیل پہنے
اپنے ابریشم کے سارے چاک کھولے، کاسنی ساعت میں
نکلوں گی
تو آنکھیں شوق سے باہر نکل آئیں گی آنکھوں سے
کسی دن آب پر چلتے ہوئے تم دیکھنا مجھ کو
ہوائی کے جزیرے میں
میں بے پروائیوں کے سیل میں بہتی ہوئی
صندل کی لعبت ہوں
کبھی گدلاہٹیں پانی کی چکھتی ہوں
کبھی خطِ افق پر شیڈ کی مانند رکھے آسماں کے
لیمپ میں ایام کی تحریر پڑھتی ہوں
کہ اس وسعت سے میرا واسطہ کیا ہے
زن بے حد ہوں
امراؤ، بواری اور ہیلن کے قبیلے کی
***
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...