(Last Updated On: )
نرودا اور میں بیٹھے ہوئے ہیں
پانچ دریاؤں کے سنگم پر
ہمارے سامنے اپنے بدن کو توڑ کر
باہر نکلتے رقص میں سپنے کی لڑکی ہے
مہکتی شام جس پر مٹھیاں بھر بھر کے
شانوں سے پھسلتی چاندنی میں، جگنوؤں کا زر لٹاتی ہے
بڑی خوشبو، نہایت لمس سے بھیگی حسوں کی بھیڑ ہے
بستی کے میلے میں
جہاں پر
موم سی رنگت کے اٹھتے شور کے ریشم پہ
انگشتِ شہادت کے قلم سے گیت لکھا جا رہا ہے
رنگ کے بے رنگ ہونے کا
حناؤں کی معطر تال پر دف کی طرح بجتی ہوئی
ہر کنپٹی میں ایک ہی آواز لرزاں ہے
کہ ہم اہلِ زمیں۔۔۔۔ زنجیر کی مانند پھیلی سرحدوں کو
نسخ کرتے ہیں
معافی چاہتا ہوں
کیا کروں، عادت جو سپنے دیکھنے کی ہے
٭٭٭