(Last Updated On: )
جب بگولے کے کژدم کی کاٹی ہوئی رت نے
تریاق مانگا تو اس نے کہا
میں مسیحا نہیں
دیکھتے ہو وہ بوڑھا جو سورج کی دستار باندھے ہوئے
ظلمتوں میں رواں ہے اسے
زید داؤد، نیلامبر اور وہ کتنے وقتوں میں
کتنے مقاموں پہ ملتے رہے
اور شاید کہ اس کا بتایا ہوا برگ نایاب
چڑھتی اترتی خزاں کے گڈریے کی لمبی عصا کے
خم تیز کی دسترس میں نہیں
دیکھتے ہو، نہیں دیکھتے ہو کہ فردا کے آئے ہوئے
چاہ ماضی کی دیوار پر کیسے پیوند ہیں
پن سے ٹان کی ہوئی تتلیوں کی طرح
دیکھتے ہو، نہیں دیکھتے ہو کہ نیون سائن سے
ڈھانپے ہوئے کوڑھ کے زخم میں کلبلاتی ہوئی آگ ہے
اور تقسیم کی آنکھ ماتھے پہ رکھے ہوئے
وہ سمجھتا ہے اس کا بنایا ہوا دھات کا آدمی
معجزہ کر دکھائے گا اس آگ میں کود کر
بس اسی وہم میں، آس کی آس پر سب زمانے چلیں
آ چلیں، پان کھانے چلیں
***