(Last Updated On: )
اگر وہ خونخوار اپنے سر سے نکال سکتا
سڑاند مردار حافظے کی
اگر وہ اپنی ہوس کی اس عارضی کمائی میں
دیکھ پاتا
زیاں۔۔۔۔ جو ناپاک کرتا رہتا ہے حوض کے تازہ پانیوں کو
اگر وہ جسموں کی اس کھدائی میں دل کے معدن کا
وہ زر خام ڈھونڈ لیتا
جو خلیہ خلیہ بنا ہے پیمائشوں سے باہر کے وقت میں
اور جس پہ ظلمات کے ستارہ جبیں شناور کے
عکس کی جھلملاہٹیں ہیں
تو پھر یہ ابنائے جہل صیہون و سربیا کے
سری نگر پہ جھپٹنے والے سپوت بے چشم کورؤں کے
جنوب دنیا کی بستیوں میں
کرائے پر قتل کرنے والے
کبھی نہ ہم جنس روشنی کو ہلاک کرتے
کبھی نہ لا وقت کی کشیدوں سے بننے والے لہو کو
یوں رزقِ خاک کرتے
***