(Last Updated On: )
رہ گزر نشیب کی اور سفر فراز کا
دونوں پہ ایک وقت میں
چلنے کا اذن ہے اسے
عمروں کا روپ اوڑھ کر
کرتا رہے مسافتیں وادیِ ماہ و سال میں
دور کے اوج کوہ سے
آتی رہے نظر اسے چادر آب نیلگوں
سپنے کے آسمان کی،
گرتی ہوئی زمین پر
شوق کی وسعتوں میں وہ بال و پر وجود پر
اڑتا رہے صعود پر
پنجۂ باد گرد سے جانے ہے کیا بندھا ہوا
دیکھیں ذرا قریب سے
دیکھیں کسی حسین کا، کوئی پیام ہی نہ ہو
پھینکا ہوا زمین کا حلقۂ دام ہی نہ ہو
***