(Last Updated On: )
شہر ظلمت میں ہے
جس کے ہر راستے میں برہنہ ملے
نیم خفتہ گلی، کنکروں کے بچھونے پہ لیٹے ہوئے
ستر پر میلے پانی کی بد رو لپیٹے ہوئے
ڈیوڑھیاں، تنگ دلان، آلودۂ دود بودار
باورچی خانوں میں صدیوں سے رہتی ہوئی بیبیاں
مرد سورج کی آنکھوں سے جن کو بچائے رکھے
سقف کا سائباں
شہر ظلمت میں ہے
دل کی سجدہ گہ لامکاں
بے اماں
لحن یکساں، مضامین تکرار کی گونج سے
خاک نائے مقدس کا منبر نشیں
اپنی دانست میں لفظ کے غیب سے آشنا
اس طرح شرح معنی کرے
چار خانوں میں تقسیم ہوں نیم خفتہ گلی کے مکیں
ایک جیسے جو ہیں ایک جیسے نہیں
نام کا پیرہن
جس کے نزدیک پہچان ہے ابن انسان کے اصل کی
پوچھتا ہوں میں خود سے کہ میں
ہوں خزاں کشت تاریخ کی کون سی فصل کی
***