(Last Updated On: )
یہی وہ دن ہے
کہ آسماں، چاند اور ستارا لیے ہوئے
خود زمیں پہ اترا تھا
شب گزاروں کو پیش کرنے ثمر مقدر کی روشنی کا
یہی وہ دن ہے
کہ لعل و یاقوت جرأتوں کے
درونِ دل کی تپش سے سیال ہو کے ٹپکے تھے
اور اس صفحہ زمیں پر
ہرے ہرے لفظ بن گئے تھے
یہی وہ دن ہے
کہ دشت و میدان و کوہ و وادی
رکی ہوئی سانس کھل کے لینے لگے تھے
دریاؤں اور جھیلوں میں عکس سرسبز ہو گئے تھے
یہی وہ دن ہے
کہ ہم نے جزدان فیصلہ میں
رکھا تھا لکھ کر وفا کا پیمان اس زمیں سے
چلو کہ اس دن کے فیصلے نے
ہمیں جو نور شعور بخشا
ہمیں جو نقد ضمیر سونپا
اسے ہم اپنی وفا کا شاہد بنا کے دیکھیں
کہ ہم امینوں سے یہ زمیں کتنی مطمئن ہے
یہی وہ دن ہے
***