(Last Updated On: )
کافی بار کا دروازہ مغرب کی جانب کھلتا ہے
گوری اپنے سائے میں
ناچ رہی ہے ڈسکو کی ہچکولے کھاتی لہروں پر
کھلتی چمپا
پنکھڑیوں کی اوٹ سے رنگ دکھاتی ہے
آنکھیں، گل چیں آنکھیں نیم شرابی سی
چھلک رہی ہیں مس مس کرتی خواہش سے
تیز سروں میں اکساہٹ سے جھاگ اڑاتی بوتل کی
صبح اٹھانے آئے گی
اڑے ہوئے رنگوں کے دھبے
گزری رات کے درپن سے
اور یہی وہ جائے منظرِ رفتہ ہے
جس میں کوئی آٹھ برس پہلے ہم نے
جھرمٹ جھرمٹ رقص میں پر کھولے،
گاؤں کی پریوں کو
مشرق میں چڑھتے سورج کی جانب اڑتے دیکھا تھا
***