میں اس غم سے مفرور ہو کر
کسی دور کی کنج مستور میں جا بسا تھا
جہاں سیم تن لعبتیں لمس کی قربتوں کے
چھلکتے ہوئے جام ترغیب کی عشرتیں بانٹتی تھیں
جہاں دن کے آنگن میں پھیلی ہوئی جھنڈ کی
جھنڈ دھوپیں
بڑی دور تک اونگھ میں جسم و جاں کو
شرابور رکھتی تھیں بے نام سے شربتی بوجھ
کے ذائقے سے
جہاں انگلیوں پر
گلابی چٹکتی تھی، شیشے کی کنج معطر میں عکسوں
کے جھرمٹ
اترے تھے آنکھوں کے رستے
جہاں ٹمٹماتے ہوئے قمقموں میں
گھری شام کی جھیل پر پھڑپھڑاتی ہوا، وقفہ وقفہ
صدا۔۔۔۔ گیت بن کر
ہویدا سے مستور تک، دور تک آتے جاتے
ہوئے موسموں سے
پرے تیسرے رت میں آوارگی کی کسک، دل
کے پنجرے سے چھوڑے ہوئے طائروں سے
بھرے آسماں کو
بناتی تھی رنگیں
گماں کو
گماں جو۔۔۔۔ ہمیشہ سے عمروں کے دیکھے ہوئے سارے خوابوں سے بھی بے کراں ہو
مگر ایک بے مہر لمحے کے کھائے ہوئے عام سے ایک غم نے
مجھے ایسے بے بس کیا، میری مٹی کے پاؤں سے باندھا
ہوا بوجھ برتی ہوئی زندگی کا
ہوا سا لگا اور میں اس غنودہ فضا، اس رہائی
کی جنت کے پردیس سے لوٹ کر آ گیا
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...