(Last Updated On: )
باہر شام کے جنگل کا سناٹا ہے
روپ بدل کر
لمحوں کا چرواہا اپنے
پتلے پھرتیلے پنجوں پر
خون کی بچھڑی بو کی ٹوہ میں آتا ہے
سوکھے پتوں پر چلنے کی چاپ سنائی دیتی ہے
باڑیں، دیواریں، دروازے
جوں کے توں رہ جائیں گے
کوئی اندر سے جھپٹے گا
اور اچانک خود کو چھو کر دیکھو گے
تو اپنے آپ کو جھاگ لگو گے
جس کے اندر سے جھانکے گی
ایک سفیدی خون کے عادی دانتوں کی
***