یہ فنا کے گھاٹ اتارتے ہوئے
تجربے
یہ الم سلائی کی نوک سے جو لکھے گئے
میری آنکھ پر
یہ ہمیشہ سے
کسی شے پرست کی دسترس
کسی خواب پھونکتی آرزو کے طلسم پر
یہ دل و دماغ کی بے نتیجہ سی کاوشیں
فن و فلسفہ کی مشاورت
جو نہ ظلمتوں کو گھٹا سکی، جو نہ روشنی کو بڑھا سکی
یہ ضرورتوں کے معاہدے
جو سدھائے فہم کی فرض کردہ صداقتوں سے،
بنے بنائے مجردات سے
ناپتے ہیں مرے وجود کے بھید کو
یہ رجا و بیم کے جھپٹنے کی مسافتیں
یہ ہجوم
ایک ہی دائرے میں گھسیٹتے ہوئے چل رہے ہیں
حدوں کی بیڑیاں پاؤں میں
ہے گمان کیا؟ ہے یقین کیا؟ مجھے کیا خبر
رکھیں اپنی اپنی گرفت میں میرے ذہن کو
یہ وسیلے ہندسہ و حرف کے
یہ دلیلیں، منطقیں اور زاویے سوچ کے
جنہیں مثل سکۂ رائجہ کیا معتبر
زر و زور نے،
یہ نفاق نیت و فعل، معنی و لفظ میں،
یہ سدا سے بہری عدالتوں میں
سدا کی گونگی گواہیوں کی سماعتیں،
کئی اور ایسے ہی یاس خیز تلازمے۔۔۔۔
مجھے کیا برا تھا کہ ایسے جینے کے کرب سے
میں فرار ڈھونڈتا موت میں
مگر ایک رابطہ قرب کا
مری چاہتوں میں کسک سی ایک
جدائی کی
مری شاخ دل کو بھری خزاں میں ہرا رکھے
نہیں بھولتا
وہ لڑکپنے کی زباں پہ ذائقہ پان کا
سرِ راہ
بھیگے ہوئے سمے کی چنبیلیوں پہ
سماں عجیب سا جگنوؤں کی اڑان کا
وہ جو شفقتیں
میرے بچپنے میں ملیں مجھے
میں اسی سخاوت جاریہ سے نہال ہوں
وہ عجیب و سادہ سی چاہ جو
مری دھڑکنوں میں خلل سا ڈال دے
دفعتاً
رخ دل نواز کو دیکھ کر
وہ چٹکتے نشے کی باس دیتے ہوئے
لبوں کی گلابیاں
وہ فسوں سا چشمِ سیاہ کا
غمِ روزگار سے مہلتوں کی گھڑی گھڑی
میں رچا ہوا
وہ دنوں کی بھیڑ سے بچ کے
کنج گریز میں مرا بیٹھنا
بڑی دیر تک
میری اپنے آپ سے گفتگو
کسی آشنائی کے درد کی ہو شفق سی
جیسے کھلی ہوئی
میرے گرد و پیش کے کاسنی سے سکوت میں
یہی گرمیوں کا وہ موڑ ہے
جہاں سبز جھاڑ سے جھانکتے ہوئے موتیے کی
شگفت سی
میری صبح و شام کی راہ میں، مجھے ایک ثانیہ روک کر
کرے عطر بیز سواگتیں
وہ وفور شکر کہ آنکھ میں امڈ آئے
اشک سپاس کا
وہ کھلے کنول کا سکون رات کی جھیل میں
وہ تھکن کے لمبے سفر سے واپسی
صفر وقت کی سمت پر
سر بام کوچہ شرر فشاں
وہ سلگتا گیت جسے جنوب کی بے مثال مغنیہ نے
عطا کیا
مجھے اپنے مخزن سوز سے
دل در کشادہ کی بیٹھکوں میں وہ صحبتیں،
وہ نیاز یار فرید کے
وہی آستانۂ یاد روز کی شام کا
مرا تخت ہے
جہاں دوستوں سے نشست ہوتی ہے چائے پر
یہ سپردگی کا خمیر میری سرشت میں
یہ محبتوں کی روایتیں
جو وراثتوں میں ملیں مجھے
جو مرے لہو میں تھکے بغیر سبک سبک سی
رواں رہیں
مرے حوصلے کی امین ہیں
میں ذرا سا پیکر خاک ہوں
مگر عندیہ کوئی غیب کا میرے سلسلے میں
ضرور ہے
کہ ہزیمتوں پہ ہزیمتیں
مجھے بار بار ہرا کے بھی نہ ہرا سکیں
یہ حصار ویسے تو دیکھنے میں ہے پست
قد غنیم سے
اسے کل جہان کے حزن و یاس کی یورشیں نہ گرا سکیں
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...