(Last Updated On: )
میں وہ نخل رواں ہوں
جو نمود و نیستی کی گردشوں میں گھومتا رہتا ہے
بستی کے ذخیرے میں
جہاں پر آب رو دنیا کی بہتی ہے
بقائے روزمرہ کی ضمانت میں
جہاں پر وقت
دن بھر گرم کرنیں گوندھنا رہتا ہے
میری سرد مٹی کی قدامت میں
وہ کرنیں، جو سماع و رقص میں انبوہ خورشیداں
کے آوارہ خراباتی
لٹاتے پھر رہے ہیں لا مکانوں کے اندھیرے میں
یہ سیم و زر ذکاوت اور جذبوں کے
رضائے وقت نے شاید نکالے ہیں
انہی کرنوں، اسی مٹی، اسی پانی کے معدن سے
یہ سیم و زر۔۔۔۔یہ میرے بھید کے اثمار جو
لگتے ہیں اوج شاخ ہستی پر
انہیں میں دیکھتا ہوں نیم بینندہ نگاہوں سے
انہیں میں دور سے چھوتا ہوں
اپنے لمس کی کوتاہ دستی سے
سمجھتا ہوں کہ ان کو جانچنا شاید مرے پیمانۂ لفظ و عدد میں ہو
یہ لامحدود میری جستجو، میری تمناؤں کی حد میں ہو
***