(Last Updated On: )
ہوا یوں تھا
کہ وہ دانستہ، نا دانستہ اس دن
کار گاہ مصلحت کے ساختہ، آنکھوں کے عدسے
اپنے گھر پر بھول آیا تھا
وہ وسط شہر سے گزرا تو شاید
راج گھر میں اس سمے اجلاس جاری تھا
اسے ایسے نظر آیا کہ جیسے کوئی منظر ہو
ڈرامے کا
ہنسا وہ مسخرہ پن دیکھ کر سنجیدہ چہروں پر
محبت کی کہانی میں
اسے گرما دیا تکرار کی تکرار کرتے عشق بازوں نے
تصادم خیز تھا ماحول برجستہ کلامی کا
فضا میں سنسنی ٹلتے ہوئے سسپنس کی سی تھی
دھوئیں اور دھول کے سیناریو میں
یہ ابھرواں اور اجلایا ہوا منظر
اسے ایسے پسند آیا
کہ بے قابو سا ہو کر داد دی دل کھول کے
اس نے ڈرامے کے مصنف کو
اسی پاداش میں جیسے کہ ہوتا ہے ہمیشہ سے
اسے اس عامیانہ پن پہ ٹھہرایا گیا
مجرم، متین و برگزیدہ کی اہانت کا
***