(Last Updated On: )
یہ جوہڑ عضو بریدہ ہے اس دریا کا
جس کے شفاف بہاؤ میں ہر ٹھہرا منظر بہتا تھا
جو گزرا کل کی بستی سے
اور چھوڑ گیا اپنے پیچھے پرچھائیں اپنے گھاؤ کی
اور چھوڑ گیا اپنے پیچھے
کچھ خار و خس، کچھ ٹوٹے پر، طائر ایامِ گذشتہ کا
ٹہنی کے خمیدہ شانے پر
اس خالی سرد بسیرے میں
اور چھوڑ گیا اپنے پیچھے مٹھی میں بند عفونت سی ٹھہراؤ کی
اور چھوڑ گیا اپنے پیچھے
مسند پہ کلاہ خود داری کی، وہ شاہ سوار جو گزرا تھا
اس رستے سے
جو فرش یہ اوندھی رکھ دی ہے
ان آج کے عزت داروں نے
اب کاسۂ دست گدایاں ہے
اور اپنے آپ پہ حیراں ہے
***