(Last Updated On: )
اونچی اونچی شہنائی ہے
پاگل کو نیند آئی ہے
ایک برہنہ پیڑ کے نیچے
میں ہوں یا پُروائی ہے
میری ہنسی جنگل میں کسی نے
دیر تلک دہرائی ہے
روشنیوں کے جال سے باہر
کوئی کرن لہرائی ہے
خاموشی کی جھیل پہ شیاما
کنکر لے کر آئی ہے
دھیان کی ندیا بہتے بہتے
ایک دفعہ تھرّائی ہے
کھیت پہ کس نے سبز لہو کی
چادر سی پھیلائی ہے
میرے اوپر جالا بُننے
پھر کوئی بدلی چھائی ہے
ایک انگوٹھی کے پتّھر میں
آنکھوں کی گہرائی ہے
دیواروں پر داغ لہو کے
پتھریلی انگنائی ہے
میں نے اپنے تنہا گھر کو
آدھی بات بتائی ہے
میں تو اس کا سنّاٹا ہوں
وہ میری تنہائی ہے
صبح ہوئی تو دل میں جیسے
تھکی تھکی انگڑائی ہے
ٹھنڈی چائے کی پیالی پی کے
رات کی پیاس بجھائی ہے
اپنے بادل کی کٹیا کو
میں نے آگ لگائی ہے
٭٭٭