کہانی جاری تھی۔
صورت حال بدل رہی تھی۔
زمین انگڑائی لے رہی تھی۔
آسمان کسمسا رہا تھا
ہواؤں کا رُخ بدل رہا تھا
فضائیں سنبھل رہی تھیں
چاند کی سرد مزاجی میں گرمی گھلنے لگی تھی
سورج کی گرم طبیعت نرم پڑنے لگی تھی
سکوت ٹوٹ رہا تھا
جمود پگھل رہا تھا۔
—————
بدلتی ہوئی صورتِ حال پر دور دراز کی خفیہ ایجنسیوں کی بھی نظریں جمی ہوئی تھیں۔ دور بیٹھی ایجنسیوں کی عقابی نگاہیں صورتِ حال کے خد و خال کو دیکھ رہی تھیں۔
تغیرات اور اس کے اثرات کے ایک ایک پہلو کو تاڑ رہی تھیں۔
مضمرات کے نتائج کو بھانپ رہی تھیں۔
ان کو کبوتر جیسی باریک بیں آنکھیں دیکھ رہی تھیں۔
کہانی سننے والی پہلی کھیپ کی سوچیں برگد کی جڑوں کی طرح پھیلنے لگی ہیں۔
یکلپٹس کی مانند گہرائی میں اترنے لگی ہیں۔
باریک بیں نگاہیں دیکھ رہی تھیں:
فکر کی انگلیاں حواس کی کھڑکیاں کھولنے لگی ہیں،
ذہنوں میں کہانیوں کی تہیں کھلنے لگی ہیں۔ تہوں سے طرح طرح کی تصویریں ابھرنے لگی ہیں۔
تصویریں بولنے لگی ہیں۔
کرداروں کے چہروں سے پردے ہٹنے لگے ہیں
منظروں کا رنگ صاف ہونے لگا ہے۔
بولتی تصویروں، بے نقاب چہروں اور شفّاف منظروں کا ردّ عمل رگوں میں بہنے لگا ہے۔
رگوں کی گرمی جسم کے مختلف حصوں سے نکلنے لگی ہے۔
دور بین صفت نگاہیں یہ بھی دیکھ رہی تھیں:
کہانیوں سے زمینیں زرخیز ہونے لگی ہیں
کچے ذہنوں میں بھی سوالوں کے کلّے پھوٹنے لگے ہیں
کلّے جوابوں کی طرف ہاتھ پاؤں بڑھانے لگے ہیں
وہ یہ بھی دیکھ رہی تھیں:
کہانی سنانے والے کا تیور بدل رہا تھا
کہانی کاٹ دار ہوتی جا رہی تھی
————
یہ دیکھ کر ایجنسیوں کے جسموں میں کھلبلی مچ گئی۔ ان کے دماغوں کی چولیں ہلنے لگیں، رگ و ریشے میں تناؤ بڑھنے لگا۔
اس لیے بھی
کہ ان کے ذہنوں پر یہ حقیقتیں بھی مسلط تھیں
کہ کہانی راکھ سے چنگاری کرید لیتی ہے
سرد اَلاؤ میں گرمی پھونک دیتی ہے
بستروں سے اٹھا کر آگ کے پاس بٹھا دیتی ہے
رات کو دن بنا دیتی ہے
کہانی رامائن کہتی ہے
الف لیلیٰ سناتی ہے
شاہنامہ بیان کرتی ہے
مہابھارت چھیڑتی ہے
کہانی وہ بھی کہتی ہے
جو کہا نہیں گیا
وہ بھی سناتی ہے
جو سنا نہیں گیا
وہ بھی دکھاتی ہے
جو دکھائی نہیں دیتا
وہ بھی سناتی ہے
جو سنائی نہیں دیتا
————
تناؤ اتنا بڑھا
کہ اُدھر کا دباؤ اِدھر پڑنے لگا:
زور لگنے لگا
کہ کسی طرح سنانے والا چپ ہو جائے
کہانی رک جائے
سننے والے کا رشتہ کہانی سے کٹ جائے
مگر معاملہ عدالت میں پہنچ چکا تھا
اور عدالتیں خود مختار ہوتی ہیں
ان پر کسی بھی دباؤ کا اثر نہیں پڑتا
ان کے فیصلوں میں وقت بھی لگتا ہے
اور عدالت کا فیصلہ کہانی انکل کے حق میں بھی ہو سکتا تھا
کہ عدالتیں اپنا فیصلہ ٹھوس بنیادوں پر سناتی ہیں
اس لیے دوسرا راستہ اختیار کیا گیا
اور ایک دن
رات کے اندھیرے میں
کہانی سنانے والے کی زبان کاٹ ڈالی گئی
—————
اس کی زبان کٹنے کی خبر آگ کی لپٹوں کی طرح چاروں طرف چپّے چپّے میں پھیل گئی۔
شہر اور گاؤں سنّاٹے میں آ گئے۔ ایک ایک شخص چونک پڑا۔
بچے آگ بگولا ہو اٹھے۔
بھڑکے ہوئے بچوں کا سیل رواں گلی کوچوں میں سیلاب کی طرح امنڈنے لگا۔
آناً فاناً میں سیلاب کی ساری دھارائیں ایک ساتھ مل گئیں۔ سیل رواں بڑوں کو بھی اپنے اندر بہا لے آیا۔
سیلاب سمندر میں تبدیل ہو گیا
سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا
جوار بھاٹا اٹھنے لگا
—————
کہانی انکل منہ کھولے کھڑا تھا
بے شمار آنکھیں اس کی کٹی ہوئی خون آلود زبان پر مرکوز تھیں
اس کی آنکھیں بجھ گئی تھیں۔
—————
کہانی سننے والی پہلی کھیپ کی دھار دار سوچوں نے واردات کے محرکات کے دبیز پردے کو چیر پھاڑ کرتا رتار کر دیا
چھوٹے بچوں کی آنکھیں بھی کھل گئیں
ان کے دیدوں میں انگارے بھر گئے
نگاہیں شرر بار ہو گئیں
تیوریاں چڑھ گئیں
بھنویں تن گئیں
مٹھیاں بھنچ گئیں
خون کھول اٹھا
رگیں پھولنے لگیں
مشتعل مجمعے سے زخمی شیر کی دہاڑ کی طرح چیخ ابھری
’’کہانی انکل کی زبان کاٹنے والے
کان کھول کر سن لیں
اور اگر آنکھیں ہیں تو دیکھ لیں
کہانی انکل کی زبان کٹی نہیں
بلکہ ہمارے منہ میں آ گئی ہے۔‘‘
یکبارگی ایک ساتھ لاتعداد زبانیں دہانوں سے باہر نکل آئیں
چیخ کی گونج سے زمین و آسمان کی فضا دہل اٹھی
دور دور تک درو دیوار ہلنے لگے
کہانی انکل کی آنکھیں
یکایک روشن ہو گئیں
جیسے بجھا ہوا اَلاؤ
پھر سے جل اُٹھا ہو۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان ہپج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید