اس نے بھونپو پھینک دیا۔ اس کی ضرورت نہیں رہی — اب تو اس کا انتظار رہنے لگا جسم حلے میں بھی جاتا بچوں کو موجود پاتا۔ دیر ہو جانے پر اُن میں بے چینیاں بھی محسوس کرتا۔ بچے آج بھی بے چین تھے۔
’’سوری بچو! دیر ہو گئی۔‘‘ معافی مانگ کر اس نے کہانی شروع کر دی۔
ایک دن ایک گاؤں میں بین بجاتا ہوا ایک سپیرا آیا اور گاؤں کا چکّر لگا کر ایک بڑے سے مکان کے آگے کھڑا ہو گیا۔ بین اور زور زور سے بجنے لگی۔
بین کی آواز پر گاؤں کے بچّے جوان، بوڑھے سبھی سپیرے کے ارد گرد جمع ہونے لگے۔
بین روک کر حیرت زدہ لہجے میں سپیرے نے پوچھا ’’یہ گھر کس کا ہے؟ یہ گھر ہمارا ہے۔‘‘ ایک ادھیڑ عمر کے آدمی نے چونکتے ہوئے جواب دیا۔
’’صاحب! آپ کے گھر میں سانپ ہے۔‘‘
’’سانپ!‘‘ سانپ کا نام سن کر گھر کا مالک گھبرا گیا۔
’’جی ہاں سانپ! جو بہت خطرناک بھی ہے۔‘‘
’’مگر ہمیں تو کبھی دکھائی نہیں دیا۔‘‘
’’یہ سانپ بہت پہلے سے نہیں ہے۔ کچھ ہی دنوں پہلے اس گھر میں گھسا ہے۔ ابھی دکھائی اس لیے نہیں دیتا کہ اس کے اوپر کینچل چڑھی ہوئی ہے۔ جس دن کینچل اترجائے گی سانپ دکھائی دینے لگے گا اور اُس وقت اس گھر کے لیے قہر بن جائے گا۔‘‘
’’تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘ گھر کے گھبرائے ہوئے مالک نے سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
مکان مالک کی گھبراہٹ دیکھ کر سپیرا ڈھارس بندھاتے ہوئے بولا:
’’گھبرانے کی بات نہیں ہے۔ اس کالے کال کو گھر سے نکالا جا سکتا ہے۔ آپ کہیں تو میں آج ہی بلکہ ابھی اس کو نکال باہر کرتا ہوں۔‘‘
’’سانپ نکل سکتا ہے؟‘‘ مالک نے چونکتے ہوئے پوچھا
’’ہاں، ہاں، ضرور نکل سکتا ہے۔‘‘ سپیرے نے پورے اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔
’’تو نکال دیجیے نا۔‘‘
’’اس کام کے سو روپے لگیں گے۔‘‘
’’میں دینے کے لیے تیار ہوں۔ آپ جلد سے جلد اسے میرے مکان سے نکال باہر کیجیے۔‘‘
’’میں ابھی پکڑ کر لاتا ہوں۔ ذرا ایک سیڑھی تو منگوا دیجیے۔‘‘
سیڑھی آ گئی۔ سپیرا سیڑھی اور اپنی پٹاری لے کر مکان کے اندر داخل ہو گیا۔ پیچھے پیچھے کچھ لوگ بھی جن میں بچے زیادہ تھے مکان میں گھسنے لگے۔ اپنے پیچھے لوگوں کو آتا دیکھ کر سپیرا بولا:
’’اگر آپ لوگ اندر آئیں گے تو پیروں کی آہٹ سن کر سانپ بھاگ جائے گایا۔‘‘
یا کسی ایسی جگہ چھُپ جائے گا جہاں سے اس کو نکالنا میرے لیے مشکل ہو جائے گا۔‘‘ اگر آپ چاہتے ہیں کہ سانپ گھر سے نکل جائے اور خطرہ ٹل جائے تو باہری ہی رُکیے۔ اندر مت آئیے۔ ہاں یہ میری پٹاری ضرور دیکھ لیجیے۔ کہیں آپ یہ نہ سوچیں کہ میں اس میں کوئی سانپ وانپ لیے جا رہا ہوں۔
سپیرے نے پٹاری کا ڈھکن کھول دیا۔ پٹاری میں کچھ نہیں تھا۔
لوگ باہر ہی رک گئے اور سپیرا گھر میں گھس کر کمروں کی تلاشی لینے لگا۔ کونے کھدروں میں جھانکنے لگا۔ سیڑھی کے سہارے منڈیروں پر چڑھ کر شہتیروں اور بلّیوں کے آس پاس سانپ کو ڈھونڈنے لگا۔
کوئی ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد جب وہ مکان سے باہر نکلا تو اس کے چہرے پر چمک تھی۔ وہ مکان مالک کی طرف میدان مار لینے والے کھلاڑی کی طرح دیکھتے ہوئے بولا۔
’’لیجیے صاحب! آپ کی مصیبت کو میں نکال لایا۔ اب آرام سے رہیے اور چین کی نیند سوئیے۔‘‘
اس نے پٹاری کو کندھے سے اتار کر اس کا ڈھکّن اٹھایا دیا۔ پٹاری کی پیندی میں کالے رنگ کا ایک سانپ کنڈلی مارے گم صم بیٹھا تھا۔
سانپ کے اوپر چڑھی ہوئی کینچل کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے ایک نو جوان نے گمبھیر لہجے میں پوچھا۔
’’سپیرا انکل! اس سانپ کے اوپر تو سچ مچ کینچل چڑھی ہوئی ہے آپ نے کیسے جانا کہ اس پر کینچل چڑھی ہوئی ہے؟‘‘
سپیرے نے بڑے پیار سے جواب دیا۔
’’بیٹے! آخر میں ایک سپیرا ہوں۔ سانپوں کے بیچ رہتا ہوں۔ ایک ایک سانپ کی خوشبو پہچانتا ہوں۔ مجھے مہک سے پتہ چل جاتا ہے کہ سانپ کیسا ہے؟ کون سا ہے؟ کس رنگ کا ہے؟ اور کہاں چھپا ہوا ہے؟‘‘
سپیرے نے نوجوان کے سوال کا جواب دے کر پٹاری کے ڈھکن کو بند کیا۔ اس گھر کے مالک سے اپنی محنت کے سو روپے وصول کیے اور اپنا ساز و سامان اٹھا کر آگے بڑھ گیا۔
بین بجاتے ہوئے اس نے گاؤں کا ایک اور پھیرا لگایا اور ایک مکان کے سامنے جا کر رک گیا۔ بھیڑ وہاں بھی جمع ہو گئی۔ کچھ اور لوگ بھی شامل ہو گئے۔ وہاں بھی اس نے گھرکے مالک سے کہا
’’جنا ب! آپ کے مکان میں سانپ گھس آیا ہے۔‘‘
گھر کا مالک چونکتا ہوا بولا
’’ہمارے گھر میں سانپ گھس آیا ہے! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ہم نے تو آج تک اس گھر میں سانپ کا نام بھی نہیں سنا ہے۔ نہیں نہیں، یہاں کوئی سانپ و انپ نہیں ہے۔ اس پر سپیرے نے کہا۔
’’آپ کو یقین نہیں آ رہا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ میرا کام آپ کو خبردار کرنا تھا۔ سو میں نے کر دیا۔ اب آگے آپ جانیں اور آپ کی قسمت۔ البتہ اتنا اور بتادوں کہ آپ ہی کی طرح ان صاحب کو بھی یقین نہیں آ رہا تھا جن کے گھر سے ابھی ابھی سانپ نکال کر آ رہا ہوں۔
’’ہاں، چاچا! سپیرا ٹھیک کہہ رہا ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اس نے اقبال چاچا کے گھر سے اِتّا بڑا سانپ نکالا تھا وہ سانپ اب بھی اس کی پٹاری میں بند ہے۔‘‘
’’بچّے کے منہ سے سانپ کی سچائی کی بات سن کر اس گھر کے مالک کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ اس کی آنکھوں میں خوف کی پرچھائیاں لہرانے لگیں۔
گھرکے مالک کا ڈر اہوا چہرہ دیکھ کر سپیرا بولا
’’ڈریے نہیں صاحب! میں اسی لیے آیا ہوں کہ آپ لوگوں کا ڈر دور کر دوں۔ میں ابھی آپ کی پریشانی دور کیے دیتا ہوں۔ ہاں، یہ بتا دوں کہ اس کے لیے آپ کو ڈیڑھ سو روپے دینے پڑیں گے۔‘‘
محنتانہ کے ریٹ میں ایک دم سے پچاس روپے کی بڑھوتری سن کر بھیڑ کے اندر سے ایک آدمی بول پڑا۔
’’تم نے ابھی ابھی یہ کام سو روپے میں کیا ہے اور اب ایک سو پچاس مانگ رہے ہو؟‘‘
’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں صاحب! میں نے پہلے گھر سے سانپ نکالنے کے سو ہی روپے لیے تھے مگر وہ سانپ نشے میں تھا۔ اس کے اوپر کینچل چڑھی ہوئی تھی۔ اس لیے اس کو پکڑنا آسان تھا مگر اس گھر میں جو سانپ ہے اس پر کینچل نہیں ہے۔ اس کو پکڑنے میں کافی خطرہ ہے۔ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر یہ کام کروں گا۔ اس لیے اس خطرناک کام کے لیے ڈیڑھ سو روپے کچھ زیادہ نہیں ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ میں ڈیڑھ سو روپے دوں گا۔ تم فوراً اس بَلا کو میرے گھر سے دفع کرو۔‘‘
’’ابھی ہٹاتا ہوں صاحب! ذرا ایک سیڑھی منگوا دیجیے۔‘‘
سپیرے کو سیڑھی دے دی گئی۔ سپیرا سیڑھی اور ایک دوسری خالی پٹاری لے کر اس مکان میں گھس گیا۔
کئی گھنٹے کی دوڑ دھوپ کے بعد جب وہ باہر نکلا تو اس کی خالی پٹاری میں سانپ تھا۔ اس نے پٹاری سے ڈھکّن اوپر اٹھایا تو سانپ اپنا پھن پھیلا کر کھڑا ہو گیا۔
’’بھائیوں اور بہنوں!‘‘ سپیرے نے لوگوں کو مخاطب کیا۔ لوگ چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔
’’میں نے گاؤں کا چکّر لگاتے ہوئے محسوس کیا کہ یہاں اور بھی بہت سے ایسے گھر ہیں جن میں اسی طرح کے خوفناک سانپ گھس کر بیٹھ چکے ہیں۔ آج میرے پاس وقت نہیں۔ ورنہ آج ہی کئی اور گھروں کو اس مصیبت سے چھٹکارا دلا دیتا۔ اس لیے باقی کل۔ اچھّا اب چلتا ہوں۔‘‘ وہ جانے لگا۔
’’سنو!‘‘ ایک آدمی نے اسے پیچھے سے پکارا۔ اس کے پاؤں رک گئے۔
’’بھیّا! جانے سے پہلے یہ تو بتا جاؤ کہ اتنے سارے سانپ ہمارے گاؤں میں آئے کہاں سے؟ یہاں تو کسی ایک گھر میں بھی کوئی سانپ نہیں تھا اور تم بتا رہے ہو کہ بہت سارے گھروں میں سانپ ہیں!‘‘
سپیرا اس آدمی کی طرف عجیب نظروں سے گھورتے ہوئے بولا
’’صرف آپ ہی گے گاؤں میں سانپ نہیں گھسے ہیں صاحب! بلکہ آس پاس کے گاؤں میں بھی سانپ گھس آئے ہیں۔ آپ کو شاید پتہ نہیں کہ یہاں سے کچھ دور بانسوں کا جو جنگل تھا اب کٹ چکا ہے اور اس کے اندر رہنے والے سانپ وہاں سے سرک کر آس پاس کی بستیوں میں گھس گئے ہیں۔‘‘ جواب دے کر سپیرا جانے لگا تو پیچھے سے گھبرائی ہوئی ایک آواز ابھری
’’سپیرا بھیّا! کل ضرور آنا۔ ہم تمھارا انتظار کریں گے۔‘‘
’’ضرور آؤں گا۔‘‘ سپیرا یقین دلا کر بین بجاتا ہوا گاؤں سے باہر نکل گیا۔
اس رات پورے گاؤں پر خوف کے بادل چھائے رہے۔ لوگوں کی آنکھوں میں رات بھر طرح طرح کے ڈراؤنے سانپ پھن پھیلا تے رہے۔ ان کی کینچلیاں لہراتی رہیں۔ دہشت ناک پھنکاریں کانوں میں پھوں پھوں کرتی رہیں۔ گاؤں والے ساری رات کروٹیں بدلتے رہے۔ کسی کو نیند نہ آ سکی۔
سپیرا دوسرے دن پھر گاؤں کا چکّر کاٹ کر ایک مکان کے دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ اس مکان کے لوگوں نے بھی ایک سو پچاس روپے ادا کیے۔ بدلے میں سپیرے نے اس گھر کو بھی سانپ سے چھٹکارا دلا دیا۔ اُس دن اُس نے دو اور گھروں سے بھی سانپ نکالے۔
سانپوں کی تعداد میں اضافہ دیکھ کر گاؤں والوں کی دہشت اور بڑھ گئی۔ اب سپیرا ہر دوسرے تیسرے دن اُس بستی میں آنے لگا۔ دو تین سانپ ہر بار گاؤں سے نکلنے لگے۔ گاؤں میں سپیرے کا انتظار بے چینی سے ہونے لگا۔ سانپوں کی زیادتی اور گاؤں والوں کی بے چینی کو دیکھ کر سپیرے نے اپنا بھاؤ بڑھا دیا۔ اس کی فیس ایک سو پچاس سے بڑھ کر دو سو ہو گئی۔
دھیرے دھیرے گاؤں سے کافی سانپ نکل گئے مگر گاؤں کی دہشت کم نہیں ہوئی۔ جو گھر بچے تھے وہ اس لیے خوف زدہ تھے کہ کیا پتہ ان میں بھی سانپ گھسے پڑے ہوں اور جن مکانوں سے سانپ نکالے جا چکے تھے وہ اس ڈر سے سہمے ہوئے تھے کہ کہیں سانپ کسی اور گھر سے نکل کر دوبارہ ان کے اندر نہ گھس آئیں۔
خوف و ہراس کا زہریلا سانپ گاؤں والوں کے دل و دماغ سے لپٹ گیا تھا۔ لوگ اس کے شکنجے میں کستے چلے جا رہے تھے۔
ایک دن ایک گھر سے ’’سانپ! سانپ!‘‘ کا شور بلند ہوا۔ آواز سن کر اڑوس پڑوس کے لوگ اپنے اپنے گھروں سے لاٹھی بھالے لے کر دوڑے۔ دیکھا تو سانپ چھت کی شہتیر کے اندر چھپا بیٹھا تھا۔ صرف اس کی دُم کا آخری حصّہ باہر تھا۔ دُم کو دیکھ کر بھالے ٹھٹھک گئے۔ لاٹھیاں کپکپانے لگیں۔ چہروں کا رنگ اُڑ گیا۔ کچھ دیر بعد ایک بہادر نوجوان اپنا بھالا لیے آگے بڑھا۔ اس نے بھالا چھت کی طرف بڑھا دیا۔ لوگ پیچھے کھسکنے لگے۔
نوجوان نے بڑی ہشیاری سے نشانہ لگا کر بھالے کی نوک کو لٹکی ہوئی دُم میں پیوست کر دیا۔ دم ہلنے لگی۔ بہادر نوجوان نے ساؤدھانی کے ساتھ اپنا بھال نیچے کھینچا تو ڈری ہوئی آنکھوں نے دیکھا کہ بھالے کی نوک پر سانپ کے بجائے چھپکلی ٹنگی تھی۔
ایک دن ایک گھر میں رات کے وقت دروازے کے پاس ایک آدمی سانپ کو دیکھ کر بے ہوش ہو گیا۔ دھڑام سے گرنے کی آواز سکن کر گھر والے جب اس کی طرف دوڑے تو دیکھا کہ اس کے پاس بل کھائی ہوئی رسّی پڑی تھی۔
ایک رات تو ایک آدمی اپنی بیوی کی گندھی ہوئی چوٹی کو سانپ سمجھ کر چیخ اٹھا اور اس رات وہ کالی چوٹی رات بھر اس کی آنکھوں میں کالی ناگن کی طرح لہراتی رہی۔
اس ناگہانی مصیبت نے گاؤں والوں کا جینا دوبھر کر دیا۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ ایک بچّہ بول پڑا۔
ایک دن سپیرا جب ایک مکان سے سانپ نکال چکا اور اسے لوگوں کو دکھا کر پٹاری کا ڈھکن گرانے لگا تو ایک نوجوان گمبھیر لہجے میں بولا۔
’’سپیرا انکل! لائیے، یہ سانپ مجھے دے دیجیے۔‘‘ نوجوان کی اس مانگ پر چونک کر سبھی اس کی طرف دیکھنے لگے۔ یہ وہی نوجوان تھا جس نے ایک بار سپیرے سے پوچھا تھا کہ کینچل کا پتہ اسے کیسے چلا اور جواب میں سپیرے نے بتایا تھا کہ مہک سے۔ سپیرا کچھ زیادہ ہی حیران ہوتا ہوا بولا
’’تمھیں دے دوں! تم کیا کرو گے؟‘‘
نوجوان نے سپیرے کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے جواب دیا
’’آپ ان کا کیا کرتے ہیں؟ پہلے آپ بتائیے۔‘‘
’’میں تو ان کا زہر نکال کر انھیں جنگل میں چھوڑ آتا ہوں۔‘‘
’’انھیں مارکیوں نہیں دیتے؟‘‘
’’کیسی بات کرتے ہو۔ سپیرا اگر سانپ کو مارے گا تو اسے پاپ نہیں چڑھے گا؟ بیٹے! ہم سپیرے ہیں۔ مارنے کی بات تو دور ہم سانپ کو چوٹ بھی نہیں پہنچا سکتے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ نوجوان حیرت سے سپیرے کو دیکھنے لگا۔
’’ایسا کرنے سے ہم اپنا منتر بھول جائیں گے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ آپ اسے مت ماریے۔ لائیے ہمیں دے دیجیے۔ ہم اسے ماریں گے۔‘‘
لوگوں کی حیرانی اور بڑھ گئی۔ کتنوں کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ سپیرے کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ وہ بہت ہی نرمی سے بولا
’’بیٹے! کیوں اپنے اوپر پاپ چڑھانا چاہتے ہو؟‘‘
نوجوان نے جواب دیا
’’پاپ چڑھتا ہے تو چڑھنے دیجیے۔ لائیے پٹاری ہمیں دے دیجیے۔‘‘
’’بھیّا! پٹاری تو میں تمھیں دے دوں گا مگر اس سانپ نے کہیں کاٹ لیا تو اس کا ذمّے دار کون ہو گا؟‘‘
’’میں خود ہوں گا۔ لائیے اب پٹاری دے دیجیے۔‘‘
’’کیوں ضد کرتے ہو بابو! یہ سانپ ہے کوئی کیچوا نہیں۔ کہیں اس نے ڈس لیا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔‘‘
’’کوئی بات نہیں، مگر سانپ کو آج میں لے جانے نہیں دوں گا۔‘‘
’’ضد چھوڑ دو بیٹے! سپیرا سچ کہہ رہا ہے۔ سانپ بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔ اس کالے کال کو اسے ہی لے جانے دو۔‘‘ ایک بزرگ نے نوجوان کو سمجھایا۔
’’نہیں دادا! آج میں سانپ کو انھیں لے جانے نہیں دوں گا۔ آج میں خود اسے اپنے ہاتھوں سے ختم کر دوں گا۔ آپ بالکل مت گھبرائیے۔ میرا کچھ نہیں بگڑے گا۔ لائیے سپیرا انکل پٹاری مجھے دے دیجیے۔‘‘
’’ٹھیک ہے جیسی تمھاری مرضی۔‘‘ سپیرے نے سانپ والی پٹاری نوجوان کی طرف بڑھا دی۔ بہادر نوجوان نے پٹاری اپنے ہاتھ میں لے لی اور اپنے ساتھی سے کہا ’’شمشیر! بھاگ کر ایک لاٹھی لاؤ۔‘‘
شمشیر دوڑا ہوا گیا اور جلدی سے ایک لاٹھی لے کر آ گیا۔ نوجوان نے ساؤدھانی کے ساتھ ڈھکّن اٹھا کر سانپ کو پٹاری سے باہر کر دیا۔ باہر آتے ہی سانپ نے اپنا پھن پھیلا دیا۔ لوگ خوف سے پیچھے ہٹ گئے۔ بہتوں کے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے مگر اس نوجوان کے ماتھے پر بل تک نہیں پڑا۔ اس نے تول کر لاٹھی کا بھر پور وار سانپ کے اوپر کیا۔ ایک ہی وار میں سانپ زمین پر لوٹنے لگا۔ نوجوان نے لاٹھی کے ایک اور وار سے سانپ کا منہ بھی کچل دیا۔ دوسرے بچوں نے پتھر مار مار کر سانپ کی ہلتی ہوئی دُم کو بھی بے دَم کر دیا۔
نوجوان کی بہادری دیکھ کر گاؤں والے دنگ رہ گئے۔ سانپ کی موت پر ان کے مُرجھائے ہوئے چہرے مسکرا اُٹھے مگر سپیرے کا رنگ کالا پڑ گیا جیسے لاٹھی سانپ پر نہیں اس پر پڑی ہو۔
اس دن سپیرا کافی مایوس اور اُداس ہو کر گاؤں سے واپس گیا۔ اس کے جانے کے بعد ایک بوڑھے نے نوجوان کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’بیٹے! آج تم نے بڑی بہادری دکھائی ہے اور شاباشی کا کام کیا ہے مگر جو کارنامہ تم نے انجام دیا ہے اس میں خطرہ ہو سکتا تھا۔ سپیرے سچ مچ منتر جانتے ہیں۔ اگر اس نے کوئی منتر پڑھ کر پھونک دیا ہوتا تو جو کچھ ہوا اس کا الٹا ہو سکتا تھا۔ تم ایسی حرکت دوبارہ نہ کرنا۔ اس میں جان کا خطرہ ہے بیٹے!‘‘
بوڑھے کی بات سن کر نوجوان نے اطمینان کے ساتھ جواب دیا۔
’’دادا! سپیرے کے پاس کوئی منتر ونتر نہیں ہے۔ میں آپ کو پھر یقین دلاتا ہوں کہ میرا کچھ نہیں بگڑ سکتا اور میں آپ کو یہ بھی یقین دلاتا ہوں کہ بہت جلد گھروں سے سانپوں کا نکلنا بھی بند ہو جائے گا۔
’’وہ کیسے بیٹے؟‘‘ بوڑھے کے ساتھ جواب جاننے کے لیے دوسرے لوگ بھی بے چین ہو اُٹھے۔
’’ابھی نہیں بتاؤں گا۔ اچھّا میں چلتا ہوں، مجھے ایک ضروری کام کرنا ہے۔‘‘
نوجوان تیزی سے آگے بڑھ گیا۔ گاؤں والے نوجوان کی بات پر سوچتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کی طرف چل دیے۔
’’پھر کیا ہوا انکل؟‘‘
اس دن کے بعد سپیرا جب بھی سانپ نکالتا۔ وہ نوجوان اس سے سانپ لے لیتا اور اسے مارکر ختم کر دیتا۔ دھیرے دھیرے سانپ مرتے چلے گئے اور کچھ دنوں بعد گھروں سے سانپوں کا نکلنا واقعی بند ہو گیا۔
سپیرے نے بھی گاؤں میں آنا بند کر دیا۔
گاؤں والے سانپ کے چنگل سے چھٹکارا تو پا گئے مگر ایک ڈنک ان کے دماغ میں اٹکا رہ گیا۔ ایک دن انھوں نے نوجوان سے پوچھا۔
’’بیٹے! تمھاری بات بالکل سچ نکلی مگر ابھی تک ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ سب کچھ اتنی جلدی کیسے ممکن ہوا؟‘‘
’’اصل میں یہ ایک بزرگ کی نصیحت کا کمال ہے۔ ایک دن میں نے ایک بزرگ سے سنا کہ دنیا کا سب سے بڑا مفکّر اپنے بندوں سے بار بار سوچنے کے لیے کہتا ہے۔
کیوں کہ
سوچنے سے آنکھیں کھُلتی ہیں
نظر تیز ہوتی ہے
پردے ہٹتے ہیں
بھید کھلتے ہیں
سب کچھ سمجھ میں آنے لگتا ہے
یہ بات میرے دل میں بیٹھ گئی۔ میں ایک ایک بات اور ایک ایک چیز پر سوچنے لگا۔ دھیرے دھیرے سوچنے کی رفتار بڑھتی گئی اور پھر سوچنا میری عادت بن گئی۔
پہلی بار سانپ نکالنے سے پہلے جب سپیرے نے کہا کہ سانپ کے اوپر کینچل چڑھی ہوئی ہے تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ فوراً ذہن میں سوال اُبھرا سانپ کو دیکھے بغیر سپیرے کو کینچل کا علم کیسے ہوا؟
سوچنے پر جواب ملا۔ ’’مہک سے‘‘
دماغ مہک سے مطمئن نہیں ہوا۔ مہک پر غور کرتا ہو امیں اپنے زولوجی کے ٹیچر کے پاس پہنچا۔
’’زولوجی کیا ہوتی ہے انکل؟‘‘ ایک چھوٹے سے بچّے نے سوال کیا۔
’’زولوجی ایک طرح کی پڑھائی ہوتی ہے جس میں جانوروں کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔‘‘
’’آگے کیا ہوا؟‘‘
’’نوجوان بولا‘‘ میں نے جب اپنے ٹیچر سے سانپوں کے بارے میں معلوم کیا تو سپیرے کا جواب غلط نکلا۔ میری سوچ کا عمل اور تیز ہو گیا۔ آنکھیں گھروں سے نکلنے والے سانپوں کو باریکی سے دیکھنے لگیں۔ ہر مرتبہ ایک ہی طرح کے سانپوں کو نکلتے دیکھ کر شک پیدا ہوا۔ ایک دن میں نے سپیرے کا پیچھا کیا اور گاؤں سے کچھ دور جا کر ایک سنسان جگہ پر اسے روک کر بولا۔
’’سپیرا انکل! مجھے پتہ چل گیا ہے کہ گاؤں میں سانپ کہیں باہر سے نہیں آئے ہیں بلکہ انھیں آپ خود لاتے ہیں۔ مجھے بتا دیجیے کہ آپ کس ترکیب سے اپنے سانپوں کو ہمارے گھروں میں داخل کرتے ہیں ورنہ میں گاؤں والوں سے آپ کی اصلیت بتا دوں گا اور آپ سوچ سکتے ہیں کہ یہ جان کر گاؤں والے آپ کا کیا حال بنائیں گے؟‘‘
یہ سنتے ہی وہ کانپ اٹھا اور اپنی جان جانے کے خوف سے اپنا وہ راز مجھے بتا دیا جس نے مجھ کو، آپ کو، ہم سب کو خوف کے شکنجے میں کس دیا تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب آپ کے سامنے ہے۔
نوجوان کی ہشیاری کا قصّہ سن کر گاؤں والوں کے دماغ سے ڈنک نکل گیا اور وہ اس نوجوان کو اس طرح دیکھنے لگے جیسے ان کے گاؤں میں کوئی فقیر آ گیا ہو۔
کہانی سنا کر اس نے بچوں کی طرف دیکھا۔
ان کی آنکھوں میں چمک تھی
مگر چہروں سے محسوس ہوا
جیسے ان کے ذہنوں میں کوئی کانٹا رہ گیا ہو۔
ایک بچہ بول پڑا
’’انکل! آپ نے وہ ترکیب تو بتائی ہی نہیں کہ سپیرا سانپوں کو گھروں میں کس طرح پہنچاتا تھا؟
’’یہ میں نہیں بتاؤںگا۔‘‘
اس کا جواب سن کر بچوں کے چہرے سنجیدہ ہو گئے۔
ان کی سنجیدگی اسے اچھی لگی۔
٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...