بچے اس کے آنے سے پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ آتے ہی وہ شروع ہو گیا۔
’’آج میں تمہیں کوّا اور کلہاڑا کی کہانی سناؤں گا۔‘‘
’’کلہاڑا وہی نا انکل! جس سے لکڑی کاٹتے ہیں؟‘‘
’’ہاں وہی کلہاڑا جس سے پیڑ بھی کاٹتے ہیں اور ——
’’انکل! کہانی؟‘‘
ہاں ————ایک بہت پرانی بستی تھی۔ اس بستی کے لوگوں کے پاس پھلوں کے بہت سارے پیڑ تھے۔ پیڑوں پر پھل بھی آ گئے تھے مگر بستی والے اپنے اِن پیڑوں کو کاٹنے کلہاڑے لے کر نکل پڑے تھے۔ غصّے سے کلہاڑوں کی موٹھیں ان کی مٹھیوں میں بھِنچی ہوئی تھیں۔ دماغی تناؤ اور اُنگلیوں کے دباؤ سے بھنچی ہوئی مٹھیوں والے ہاتھ کی نیلی رگیں زہر سے بھری نلکیوں کی طرح پھول کر باہر آ گئی تھیں ————پاؤں آپے سے باہر ہو رہے تھے۔ اُن کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ جبڑے سخت ہو گئے تھے۔ بھنویں تن کر کمان بن گئی تھیں۔ چہروں سے وحشت ٹپک رہی تھی۔
جن پیڑوں کو وہ کاٹنے نکلے تھے وہ پیڑ اُنہیں بہت پیارے تھے۔ اُن سے اُن کوبے حد لگاؤ تھا۔ اُنہوں نے اُن پیڑوں کو بڑے چاؤ سے لگایا تھا اور اُنہیں پال پوس کر بڑا کرنے میں ایک ماں کی طرح دُکھ جھیلا تھا۔ اُن کو ہرا بھرا کرنے میں اپنا خون جلایا تھا۔ اُن کوبڑا کرنے میں بے چارے خود گھِس گئے تھے۔
’’بستی والوں کو جب اپنے پیڑوں سے اتنا پیار تھا تو وہ انھیں کاٹنے کیوں نکلے تھے انکل؟‘‘
’’اس کے پیچھے بھی ایک لمبا قصہ ہے۔‘‘
’’تو اُسے بھی سنائیے نا۔‘‘
جس زمین پروہ پیڑ کھڑے تھے، پہلے اس میں کھیتی ہوتی تھی۔ بستی والوں کے دادا پر دادا اس زمین پر بہت محنت کرتے تھے۔ صبح سے شام تک اُسے اُپجاؤ بنانے میں لگے رہتے تھے۔ چلچلاتی ہوئی دھوپ اور کڑاکے کی سردی میں بھی ہَل چَلاتے۔ دن دن بھر کمر جھُکائے کھڑے رہتے۔ خود بھوکے پیاسے رہ کر مٹّی کو کھاد اور پانی دیتے۔ اپنا خون پسینہ بہا کر پودوں کو سینچتے مگر جب فصلیں پک کر تیار ہو جاتیں تو نہ جانے کہاں کہاں سے چَتُر چالاک جانور چپکے سے آ کر اُنھیں نوچ کھسوٹ ڈالتے۔
بار بار فصلوں کی بربادی اور اپنی بدحالی دیکھتے دیکھتے اُن کے باپ دادا تو بوڑھے ہو گئے مگر بستی والوں سے اپنے فصلوں کی بربادی بہت دنوں تک دیکھی نہیں گئی۔
وہ اُن جنگلی جانوروں سے فصلوں کو بچانے کے اُپائے سوچنے لگے۔ اُن کا دماغ دن رات اسی کام میں مشغول رہنے لگا۔ بستی کا ایک ایک آدمی اپنا ذہن دوڑانے لگا۔ ایک دن اُن میں سے کسی کو ایک اُپائے سوجھ گیا۔ اس نے بستی والوں کو جمع کیا اور بتایا:
’’بھائیو! جنگلی جانوروں سے فصلوں کو بچانے کا ایک اُپائے میرے ہاتھ آ گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ اُپائے بہت ہی کارگر ثابت ہو گا———
’’جلدی بتاؤ نا وہ اُپائے کیا ہے؟‘‘ بستی کے لوگ اُپائے جاننے کے لیے اُتاؤلے ہو گئے۔
’’ابھی بتاتا ہوں ذرا دھیرج تو رکھیے ————اُپائے یہ ہے کہ ہم بہت سارے ڈنڈے جمع کریں۔ ڈنڈوں کے ایک سرے پر کپڑا لپیٹ دیں اور اُن سروں کو مٹی کے تیل میں بھگو کر رکھ دیں۔‘‘
’’اُن سے کیا ہو گا؟‘‘ لوگوں کا تجسّس بڑھ گیا۔
’’اُن سے یہ ہو گا کہ جب جنگلی جانور ہمارے کھیتوں میں گھُسیں گے توہم اُن ڈنڈوں کو آگ دکھا دیں گے۔ یہ آن کی آن میں مشعل بن جائیں گے اور ہم اُن مشعلوں کولے کر اپنے کھیتوں کی طرف دوڑ پڑیں گے۔ جانور آگ کے شعلوں کو دیکھ کر بھاگ جائیں گے اور پھر کبھی اِدھر آنے کی ہمّت نہ کر سکیں گے۔ کیونکہ ہم نے سنا ہے کہ جانور آگ سے بہت ڈرتے ہیں۔‘‘
اُپائے بتا کروہ فخر سے بستی والوں کی طرف دیکھنے لگا۔ بستی کے لوگوں کی آنکھیں روشن ہو گئی تھیں اور اُن کے چہروں پر چمک آ گئی تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ بستی والوں کو یہ اُپائے اچھّا لگا۔ اُپائے پر عمل شروع ہو گیا۔
ڈھونڈ ڈھونڈ کر ڈنڈے جمع کیے گئے۔ ڈنڈوں کے سروں پر کپڑا لپیٹا گیا۔ اور کپڑے والے سِروں کو مٹی کے تیل کے کنستروں میں ڈبو دیا گیا۔
جیسے ہی جانور کھیتوں میں داخل ہوئے بستی والوں نے ڈنڈوں کو آگ دکھا کر اُنہیں مشعلوں میں بدل دیا۔ اور آگ اُگلتی ہوئی مشعلوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کھیتوں کی طرف دوڑ پڑے۔
جنگلی جانوروں کی آنکھیں بھڑکے ہوئے شعلوں کی لپلپاہٹ سے سچ مچ چوندھیا گئیں۔ مشعلوں کی لہراتی ہوئی لال لال لپٹیں برچھیوں کی طرح اُن کے دماغوں میں چُبھ گئیں۔ آگ کی تیز گرمی کی تاب نہ لا کر جانور تلملا اُٹھے۔ وہ گھبرا کر کھیتوں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔
خوفناک جانوروں کو بھاگتے ہوئے دیکھ کر بستی والے خوشی میں جھوم اُٹھے۔ اُن کے ہاتھوں کی مشعلیں لہرانے لگیں۔ اُن کی مُرجھائی ہوئی شکلیں مسکرانے لگیں۔ اس دن خوب جشن منایا گیا۔ ناچ رنگ کی محفلیں سجائی گئیں۔ دل کھول کر دولت لٹائی گئی۔ رات بھر موج مستی کا بازار گرم رہا۔
اس اُپائے سے جانوروں کا آنا تو کم ہو گیا مگر فصلوں کا بچاؤ پوری طرح نہ ہو سکا۔ کیوں کہ بھوکے جانور بھی چپ بیٹھنے والے نہیں تھے۔ آگ کے شعلوں سے اُن کی آنکھیں ضرور چوندھیا گئی تھیں۔ مشعلوں نے اُنہیں چوٹیں بھی پہنچائی تھیں مگر اُن کی چالا کیاں ابھی چوپٹ نہیں ہوئی تھیں۔ وہ اور چوکنّے ہو گئے اور موقع کی تلاش میں پھرنے لگے۔ اُنہیں جب کبھی موقع ملتا اور بستی والوں کو غفلت میں پڑے دیکھتے فصلوں پر ٹوٹ پڑتے۔ اُنہیں موقع اس لیے مل جاتا کہ بستی والوں کے لیے مشعلوں کو ہر وقت جلائے رکھنا اور اُن کے ساتھ ساتھ خود بھی جاگتے رہنا ممکن نہ تھا۔
کچھ دنوں بعد کسی کے دماغ میں ایک اُپائے یہ آیا کہ کھیتوں کے چاروں طرف اونچی اونچی دیواریں کھڑی کر دی جائیں جس سے جانور کھیتوں میں نہ گھُس سکیں۔ یہ اُپائے بھی لوگوں کو پسند آ گیا۔
اس پربھی عمل شروع ہوا۔ زمین کھود کر نرم ملائم مٹی نکالی گئی۔ اس مٹّی کو گوندھ کراس سے اینٹیں بنائی گئیں کچی اینٹوں کوبڑی بڑی بھٹّیوں میں پکایا گیا اور پکّی اینٹوں سے کھیتوں کے چاروں طرف اونچی اونچی دیواریں اُٹھا دی گئیں۔ یہ اُپائے کامیاب ثابت ہوا۔ جنگلی جانوروں سے چھُٹکارا مل گیا۔ فصلوں کا بچاؤ ہو گیا۔
بستی والوں کی بدحالی دور ہو گئی تو اُنہوں نے اپنی خوشحالی کے بارے میں سوچا اور خوشحالی لانے کے لیے اس زمین میں پیڑ بھی لگا دیئے۔ فصلوں سے زیادہ پیڑوں پر دھیان دیا جانے لگا۔ پیڑوں کے لالن پالن میں بستی والے جان توڑ محنت کرنے لگے۔ وہ تپتی ہوئی دھوپ میں جھلسنے لگے۔ پیڑوں کی ہریالی کے لیے اپنے چہروں کی ہریالی کھونے لگے۔ اپنا خون پسینہ بہانے لگے۔
برسوں کی محنت کے بعد اُن کے تن من دھن کی قربانی کام آئی۔ اُن کا خون رنگ لے آیا۔ پیڑ بڑے ہو گئے۔ اُن پر پھل بھی آ گئے۔
پھلوں کو دیکھتے ہی بستی والوں کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ اُن کے جھُلسے ہوئے جسموں پر ہریالی واپس آ گئی۔ اُن کے مُرجھائے ہوئے پیلے چہرے ہرے بھرے سبزوں کی طرح لہلہا اُٹھے۔ اُن کے دلوں میں پھول کھل اُٹھے۔ رگوں میں رس گھُلنے لگا۔ سانسوں میں میٹھی اور من موہک مہک رچ بس گئی۔
وہ اپنی آنکھوں میں خوش حال زندگی کے خوبصورت خواب سجا کر چین کی نیند سو گئے۔
مگر ایک دن جب وہ گہری نیند سو رہے تھے تو اچانک اُن کے کانوں میں کچھ کرخت آوازیں داخل ہوئیں اور وہ چونک پڑے۔ اُن کی آنکھوں سے نیند اُڑ گئی۔ ہڑبڑا کر اُنہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا تو پیڑوں کی ڈالیوں پر بیٹھے بہت سارے کالے کالے کوّے کائیں کائیں کر رہے تھے۔
کوّوں کی کائیں کائیں سے اُن کے کان کے پردے جھنجھنانے لگے۔ بستی کے لوگوں کی گھبرائی ہوئی آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ تمام کوّوں کی نظریں پیڑوں کے اوپر لگے پھلوں پر ٹکی ہوئی تھیں اور کچھ کوّے تو پھلوں میں ٹھونگیں بھی مار رہے تھے۔ کوّوں کی چونچ کی چوٹ پر پھلوں سے گودا باہر نکل کر بہہ رہا تھا۔
یہ دیکھ کر بستی والوں کا دل کراہ اُٹھا۔ اُن کی آنکھیں رو پڑیں۔ اُنہیں محسوس ہوا جیسے کوّوں کی ٹھونگیں پھلوں پر نہیں بلکہ اُن کے اپنے جسموں پر پڑ رہی ہوں اور پھلوں سے گودا نہیں بلکہ خُون میں لتھڑا ہوا اُن کے اپنے گوشت کا ریشہ بہہ رہا ہو۔
غصّے میں آ کر بستی والوں نے زور زور سے تالیاں پیٹنی شروع کر دیں تاکہ کوّے آواز سن کر پیڑوں سے بھاگ جائیں۔ اُن کی زور دار تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے آس پاس کا ماحول تو دہل اُٹھا مگر اُن کوّوں کے پر تک نہیں ہلے۔
بستی والے کوّوں کی ڈھٹائی پر حیران ہو اُٹھے اور اس نئی مصیبت سے بچنے کے لیے ایک جگہ جمع ہوئے۔ سبھی سر جوڑ کر بیٹھے اور اپنا اپنا دماغ دوڑانے لگے۔
اُن سب کی سوچوں نے اس تدبیر کو مناسب پایا کہ پتھّر پوری طاقت سے کوّوں کی طرف اُچھالے جائیں۔
پتھّروں کے ڈھیر کے ڈھیر ختم ہو گئے۔ بستی والوں کے بازو بھی تھک کر چور ہو گئے مگر کوّے نہیں بھاگے۔ وہ اتنے ڈھیٹ اور چالاک تھے کہ جب پیڑوں کی طرف پتھر اُچھلتے تووہ ڈالیوں سے تھوڑا اوپر اُڑ کر ہوا میں منڈلانے لگتے۔ اور جیسے ہی پتھّروں کا اُچھلنا بند ہوتا، پھر سے ڈالیوں پر آ کر بیٹھ جاتے اور پھلوں کو ٹھونگیں مارنے لگتے۔
پتھّروں سے اُن کا تو کچھ نہیں بگڑتا البتہ ہر بار کچھ نہ کچھ پھل ضرور زخمی ہو جاتے۔
پتھّروں والی ترکیب جب پوری طرح ناکام ہو گئی تو بستی والے کسی اور اُپائے کی تلاش میں پھر جمع ہوئے۔ اس بار اُن کے دماغ نے اُنہیں یہ اُپائے سُجھایا کہ وہ کوّوں پر بندوقوں سے وار کریں۔
اِس اُپائے کو عمل میں لانے کے لیے بستی والوں نے اپنی بہت سی ضروری چیزیں بیچ کر بندوقیں خریدیں۔ اُن میں کارتوس بھرے اور اُن بھری ہوئی بندوقوں کی نالیں کوّوں کی طرف تان کر کھڑے ہو گئے۔
بندوقوں کی لبلبی دَبی اور دنا دن گولیاں چلیں تو کچھ کوّے پھڑپھڑا کر زمین پر گر پڑے۔ جب کوّوں نے دیکھا کہ ان کے کچھ ساتھی گولیوں کے نشانہ بن گئے تو وہ ڈالیوں سے اُڑ کر غائب ہو گئے۔
بستی والوں نے مطمئن ہو کر اپنی تنی ہوئی بندوقیں نیچے جھُکا لیں اور چین کی سانس لینے لگے۔ مگر کوّے نہ جانے کہاں سے پھر ڈالیوں پر آ دھمکے۔ ہلکی ہو کر ہوا میں لہراتی ہوئی ڈالیاں کوّوں کے بوجھ سے ایک بار پھر جھُک گئیں۔ ہرے پتّے کالے کالے پروں سے ڈھک گئے۔ کوّوں کی کائیں کائیں دوبارہ شروع ہو گئی۔
بستی والوں کے غصّے کا پارہ چڑھ گیا۔ اُنہوں نے بندوقیں پھر تان لیں۔ بندوقوں کی نالیں ٹھائیں ٹھائیں کرنے لگیں۔ مگر چوکنّے کوّے دھماکوں کو سنتے ہی پھر اُڑن چھو ہو گئے۔
اب بندوقوں اور کوّوں کی آنکھ مچولی ہونے لگی۔ اور اِس آنکھ مچولی کے کھیل میں بندوقوں کے کارتوس بارودوں سے خالی ہو گئے۔
کارتوسوں کے ختم ہوتے ہی ڈھیٹ اور چالاک کوّے جم کر پیڑوں پر بیٹھ گئے۔ پکّے پھلوں پر اُن کی کالی نکیلی ٹھونگیں بے خوف ہو کر پڑنے لگیں۔ پھل زخمی ہونے لگے۔ پھلوں کا چھلکا جگہ جگہ سے چھلنے اور پھٹنے لگا۔ رس ٹپکنے لگا۔ پکا ہوا پیلا پیلا پیارا پیارا گودا کوّوں کے کالے کالے بھدّے پیٹوں میں سمانے لگا۔
بستی والوں کے دل ڈوب گئے۔ اُن کی آنکھوں میں نا امیدی کی گھٹائیں گھِر آئیں۔ اُن کے چہروں پر مایوسی کے بادل چھا گئے مگر اُن کے دماغوں نے سوچنا بند نہیں کیا اُن کی سوچوں نے ایک اور اُپائے تلاش کر کے اُن کے آگے رکھ دیا۔ اُپائے بہت ہی معقول تھا۔ اُسے دیکھتے ہی اُن کی نا اُمیدی کی گھٹاؤں سے بھری آنکھوں میں اُمید کی بجلیاں کوند پڑیں۔ مایوسی کے بادل چھٹ گئے۔ ماتھے پر سورج کی کرنیں جگمگانے لگیں۔
’’اُپائے یہ تھا کہ کہیں سے باز بلائے جائیں۔‘‘
بستی والوں نے اپنے گھر کے بچے کھُچے سامان بھی بیچ دیئے۔ اُن سے جو پیسے حاصل ہوئے اُس سے تربیت یافتہ یعنی ٹرینڈ باز منگوائے گئے۔
شکاری بازوں نے آتے ہی اپنا کام شروع کر دیا۔ وہ کوّوں پر جھپٹنے لگے۔ کوّے اُن کے پنجوں میں آنے لگے۔ پنجوں کی مضبوط پکڑ سے کوّوں کے ڈینے ٹوٹنے لگے۔ پنکھ پھڑپھڑانے لگے۔ کالے کالے پر ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرنے لگے۔ کائیں کائیں کی آوازوں کا دم گھٹنے لگا۔
شکاری بازوں کا کمال دیکھ کر بستی والوں کے دل اُچھل اُٹھے۔ اُن کے اَنگ اَنگ پھڑکنے لگے۔ پھر سے پھلوں کی مستانی مہک اُن کی سانسوں میں بسنے لگی۔ رگوں میں مٹھاس گھلنے لگا۔
مگر ایک دن بستی والوں سے یہ خوشگوار تبدیلی چھِن گئی۔ پیڑوں پر ایک نیا منظر دیکھ کر اُن کے ہوش اُڑ گئے۔ حواس گم ہو گئے۔
’’اُنہوں نے پیڑوں پر دیکھا کہ جو شکاری بازکل تک کوّوں پر جھپٹّا مار رہے تھے۔ اُنہیں اپنے پنجوں میں دبوچ کر توڑ مروڑ رہے تھے۔ جھپٹ جھپٹ کر اُنہیں مار گرا رہے تھے، وہ کوّوں کے پہلوؤں میں بیٹھے تھے اور کوّوں کے سنگ وہ بھی پھلوں کو چونچ مارنے میں مشغول تھے۔‘‘
یہ دیکھ کر اُن کے پیروں کے نیچے سے زمین کھِسک گئی۔ آنکھیں غصّے سے دہک اُٹھیں۔ اُن کے جبڑے سخت ہو گئے۔ اور اُن کے غضبناک دماغ نے ایک آخری اُپائے ڈھونڈ کر تیزی سے اُن کے ہاتھوں میں پکڑا دیا۔
’’وہ آخری اُپائے کیا تھا انکل؟‘‘
’’وہ آخری اُپائے تھا کلہاڑا جسے بستی والے اپنے ہاتھوں میں اٹھائے پیڑوں کی طرف نکل پڑے تھے۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
بستی والے جب پیڑوں کے قریب پہنچے اور کوؤں نے ان کے ہاتھوں میں کلہاڑوں کو دیکھا تو اچانک ان کی ٹھونگیں رک گئیں۔ ان کی چونچ سے پھل چھوٹ گئے اور ان کے پر پھڑپھڑانے لگے۔
————
یکایک تالیاں بج اٹھیں۔ تالیوں کی گڑگڑاہٹ پر اس کے کان کھڑے ہو گئے۔ اس کی آنکھوں میں تالیاں بجاتے ہوئے ننّھے مّنے ہاتھوں کے علاوہ بہت سارے منظر اُبھرتے چلے گئے:
جن میں بھنچی ہوئی مٹھیاں بھی تھیں
اور کھنچی ہوئی بھنویں بھی
سکڑی ہوئی جبینیں
اور بگڑے ہوئے تیور بھی
بِپھری ہوئی آنکھیں
اور تمتمائے رخسار بھی
سخت ہوئے جبڑے
اور دانتوں میں دبے ہونٹ بھی
٭٭٭