(Last Updated On: )
کہانی چوک پر سامعین کے جمع ہوتے ہی بچوں کا سوال گونج پڑا۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔
’’آج کونسی کہانی سنائیں گے انکل؟‘‘
’’گدھوں کی‘‘
’’ہی ہی ہی۔۔ ۔۔ ۔‘‘ بچے کھلکھلا کر ہنس پڑے۔
’’ہنس کیوں رہے ہو؟‘‘
’’آپ مذاق جوکر رہے ہیں۔‘‘
’’میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ آج میں سچ مچ گدھوں کی کہانی سناؤں گا۔‘‘
کہانی انکل کی سنجیدگی کو دیکھ کر بچے بھی سنجیدہ ہو گئے۔ کہانی شروع ہو گئی:
کہتے ہیں سنسار کے سارے جانور پہلے دو پیروں کے ہوتے تھے بعد میں
ایک رشی نے اپنے منتر سے انہیں چار پیروں کا بنا دیا۔
جس رشی نے انہیں چوپایا بنایا۔ وہ بڑا گیانی تھا۔ اس نے اپنے منتروں سے جانوروں کے روپ بھی بدل دیئے اور ان کی عادتیں بھی۔ کچھ جانوروں کو پہاڑ جیسا بنا دیا اور کچھ کو گیلی مٹی کے تودے جیسا۔ کسی کی کھال موٹی کر دی اور کسی کی آنکھ چھوٹی۔ کچھ جانوروں کے سروں پراس نے سینگ اُگا دیے اور کچھ کو یوں ہی چھوڑ دیا۔ کچھ کے منہ میں نیزوں جیسے دانت اور پنجوں میں برچھیوں کی طرح ناخن پیدا کر کے شکاری بنا دیا اور وہ اپنے ہی جون کے جانوروں کا شکار کرنے لگے۔
کچھ جانوروں کو اس نے اتنا اہم بنا دیا کہ ان کے پیروں پر پھول چڑھنے لگے اور کچھ کو اتنا بے وقعت کر دیا کہ ان کی پیٹھ پر بھاری بوجھ لد گئے۔
جن جانوروں کے سر اور پیٹھ پر بوجھ لادے گئے ان میں سب سے آگے بے چارہ گدھا تھا۔
گدھے کا نام سن کر بچوں کے ہو نٹوں پر پھر سے کھلکھلا ہٹ اُبھر پڑی۔
رشی نے اس بے چارے کو اتنا سیدھا اور بھولا بھالا بنا دیا کہ وہ بھاری سے بھاری بوجھ کو بھی چپ چاپ ڈھونے لگا۔ کمزوری دکھانے اور لڑکھڑانے پر بوجھ لادنے والوں کی لات اور چابکیں بھی کھانے لگا۔
لگاتار بوجھ ڈھونے سے اس کی کمر ٹیڑھی ہو گئی۔ گردن جھک گئی۔ چا بکوں کی چوٹ سے کھال اُدھڑ اُدھڑ گئی پیٹھ کی چمڑی داغدار ہو گئی۔ اس کی حالت رحم کے قابل ہو گئی مگر کسی کو اس پر ترس نہیں آیا۔ کسی نے اس پر رحم نہیں کھایا۔
کئی صدیاں گزر جانے کے بعد دھرتی کے نیچے کھڑی گائے نے جب اپنا سر ہلا یا تو دھرتی پر ایک بار بھونچال آیا۔
’’دھرتی کے نیچے کھڑی گائے نے سر ہلایا، اس کا کیا مطلب ہوا انکل؟‘‘
’’اچھا! تو یہ بات تمہیں معلوم نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں انکل۔‘‘
’’یہ دھرتی جس پر ہم تم رہتے ہیں ایک گائے کے سینگ پر ٹکی ہوئی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ اس دھرتی کے نیچے ایک بہت بڑی گائے کھڑی ہے۔ اور اس نے اپنے سینگ پراس دھرتی کی بوجھ کو روک رکھا ہے، اس دھرتی پر جو زلزلہ آتا ہے اسی بھولی بھالی گائے کے تھک جانے اور ہلنے ڈُلنے سے آتا ہے۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ ایک بچہ بول پڑا،
اس بھونچال میں زبردست اتھل پتھل ہوئی۔ اوپر کی چیز نیچے گئی، نیچے کی چیز باہر آئی۔ اس بھونچال میں دھرتی کی کوکھ سے ایک ایسا ا نسان پیدا ہوا جس نے اپنے آپ کو ڈاکٹر بتایا۔
اس ڈاکٹر نے اپنے آس پاس کے ماحول کو دیکھا۔ اس پر غور کیا اور دواؤں کا ایک کارخانہ کھول دیا۔
ایک دن اس نے گدھوں کو جمع کیا اور افسوس جتاتے ہوئے بولا:
’’آپ بے چاروں پر بہت ظلم ہوتا ہے اور آپ اتنے سیدھے شریف ہیں کہ چابک اور لات کھا کر بھی کچھ نہیں بولتے۔ بالکل چُپ رہتے ہیں۔ آپ کی طرح بوجھ ڈھونے والے یہاں دوسرے جانور بھی ہیں مگر ان کی حالت آپ جیسی نہیں ہے۔ مار پڑنے پروہ چپ نہیں رہتے۔ وہ غصہ دکھاتے ہیں اور وقت پڑنے پر سینگ بھی مارتے ہیں۔
اس لیے ان پر بات بات میں مار نہیں پڑتی۔ اور مارنے والے ان سے ڈرتے بھی ہیں جانتے ہیں آپ کو مارنے والے آپ سے کیوں نہیں ڈرتے؟
،، کیوں نہیں ڈرتے؟،،
ایک ساتھ سبھی گدھوں نے پوچھا
’’اس لئے کہ آپ کے سروں پر سینگ نہیں ہیں،،
یہ سن کر گدھوں کی آنکھیں ایک دوسرے کے سروں کی طرف اُٹھ گئیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے سروں پر سینگ نہیں ہیں، وہ اپنے سروں کو غور سے دیکھنے لگے۔ ان کی آنکھوں میں مایوسی اور ان کے چہروں پر اداسی چھانے لگی۔ آہستہ آہستہ ان کے سر نیچے جھک گئے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر ڈاکٹر بولا:
’’مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اب میں آ گیا ہوں۔ آپ چاہیں تو میں آپ کے سروں پر سینگ اُگا دوں گا،،
’’کیا؟‘‘ گدھوں کے جھکے ہوئے اسپرنگ کی طرح اچھل کر اوپر اٹھ گئے۔ ان کی آنکھیں ڈاکٹر کو حیرت سے دیکھنے لگیں۔
’’میں سچ کہہ رہا ہوں‘‘ ڈاکٹر نے ان کی حیرانی دور کرنے کی کوشش کی۔ اس یقین بھرے جملے کو سن کر گدھوں کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ خوشی سے ان کی سر ڈولنے لگے۔ گلے سے ڈھینچوں ڈھینچوں نکلنے لگا۔
بچوں کے ہونٹ ایک بار پھر کھلکھلا پڑے۔
گدھوں کو خوش ہوتا دیکھ کر ڈاکٹر بولا:
’’مگر اس کے لئے فیس میں آپ مجھے کیا دیں گے؟‘‘
اپنے ڈھینچوں ڈھینچوں کو روک کر گدھوں نے جواب دیا:
’’آپ جو چاہیں گے‘‘
’’میں جو چاہوں گا آپ دیں گے؟‘‘
’’ہاں، دیں گے۔‘‘ ایک ساتھ سب نے سر ہلایا۔
’’مکر تو نہیں جائیں گے؟‘‘ ڈاکٹر نے اپنا شبہ ظاہر کیا۔
’’نہیں‘‘ ۔ ’’بالکل نہیں‘‘ ۔ گدھوں نے یقین دلایا۔
’’تو ٹھیک ہے۔ کل سے میں آپ کا علاج شروع کر دوں گا۔ آج آپ جائیے۔ کل اسی وقت آ جایئے گا۔‘‘
گدھے جھومتے ہوئے اپنے ٹھکانوں کی طرف چل دیئے اور معمول کے مطابق بوجھ ڈھونے لگے۔ اس دن وہ بوجھ کے درد کو بھی بھول گئے۔
دوسرے دن گدھے ڈاکٹر کے پاس جمع ہوئے اور ان کا علاج شروع ہو گیا۔ ڈاکٹر نے باری باری سے سب کے سروں میں انجکشن لگایا اور انہیں دوا کی ایک ایک گولی کھلا کر ان سے کہا:
’’ کل پھر اسی وقت آ جائیے گا۔ کل بھی انجکشن لگے گا۔ بلکہ لگاتار کئی دنوں تک انجکشن لگوانے پڑیں گے اور گولیاں بھی کھانی ہوں گی۔‘‘
ڈاکٹر کی بات پر حامی بھر کر گدھے چلے گئے اور ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق بلا ناغہ وہ انجکشن لگواتے اور دوا کھاتے رہے۔
دھیرے دھیرے انجکشن اور دوا نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا۔ گدھوں کے سروں پر دونوں کانوں کے پاس سینگوں کی کونپلیں پھوٹنے لگیں۔
کونپلیں روز بروز بڑھنے اور موٹی ہونے لگیں۔ ان میں سختی بھی آتی گئی۔
گدھے اپنے سروں پر سینگوں کی پھوٹتی ہوئی کونپلوں کو دیکھ کر اور بھی خوش ہو گئے۔
بوجھ لادنے والوں نے گدھوں کے سروں پر اگتے ہوئے سینگوں کو دیکھا
تو وہ گھبرا کر چونک پڑے۔ ان کی حیرانی بڑھ گئی۔ ایک انجانا سا خوف ان کے اندر سما گیا۔
کچھ دنوں کے بعد گدھوں کے سروں پر پورے سینگ نکل آئے۔ سینکوں کے نکل آنے سے ان کی شکل بھی بدل گئی۔ اب وہ اپنے پرانے روپ سے الگ تھلک دکھائی دینے لگے۔
اپنے سروں پر سینگوں کو دیکھ کر انہوں نے اپنے اندر ایک عجیب سی تھرِلنگ محسوس کی۔ ان کے جسم میں تناؤ پیدا ہو گیا۔ رگوں میں خون کی روانی تیز ہو گئی۔ وہ اپنے پٹھوں میں طاقت اور توانائی بھی محسوس کرنے لگے۔
طاقت کا احساس پیدا ہوتے ہی گدھوں کا برتاؤ کچھ اَیب نارمل (ABNORMAL) سا ہو گیا۔ وہ اپنے سروں کو جھٹکنے لگے۔ مارنے والوں کی مار پڑے بنا بھی ان کے سینگ ہلنے اور گنڈاسوں کی طرح لہرا لہرا کر مارنے والوں کی آنکھوں میں گھپنے لگے۔
سینگوں کی بدولت ان کی چال میں بھی تبدیلی آ گئی۔ وہ اترا ترا کر چلنے لگے۔ راہ چلتے سروں کو جھٹکا دینے لگے۔ اِدھر اُدھر بھی سینگ مارنے لگے۔
بنا بات اور بے موقع سینگوں کو زور سے ہلانے ڈُلانے میں گدھوں کے آس پاس رہنے، اٹھنے بیٹھنے اور ان کے ساتھ گھاس چرنے والے دوسرے معصوم اور بھولے بھالے جانور بھی گھائل ہونے لگے۔ ان کے سینگوں کی نوک سے کسی کی ناک زخمی ہونے لگی تو کسی کی آنکھ دُکھنے لگی۔ اُنکی چوٹ سے کسی کے پیٹ میں تکلیف پیدا ہو گئی تو کسی کی پیٹھ درد کرنے لگی۔
ایک دن ڈاکٹر ان کے پاس آیا اور بولا:
’’میں نے تو اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ آپ کے سروں پر سینگ اُگا دیے اور آپ نے اپنے سینگوں کا کمال بھی دیکھ لیا کہ اب آپ کی طرف اٹھنے والی چابک کس طرح گھبراتی ہے؟ مارنے والوں کے ہاتھ کس طرح کانپتے ہیں؟ صرف یہی نہیں کہ آپ کے ان سینگوں سے آپ کے اوپر بوجھ لادنے والے اور آپ کو بے دردی سے پیٹنے والے گھبرا رہے ہیں بلکہ آپ سے دوسرے جانور بھی ڈرنے لگے ہیں اور آپ کی طرح دوسرے بہت سے کمزور جانور آپ پر رشک بھی کرنے لگے ہیں -اب آپ کی باری ہے۔ میں آج اسی لیے آیا ہوں کہ آپ بھی اپنا وعدہ پورا کیجیے۔‘‘
ڈاکٹر کی بات سن کر گدھے سینگ ہلاتے ہوئے بولے :
’’ضرور ہم اپنا وعدہ پورا کریں گے۔ بولیے، ہمیں کیا کرنا ہو گا؟‘‘
ڈاکٹر نے نہایت نرمی سے کہا:
’’اتنے بڑے کام کے لیے میں آپ سے ایک چھوٹا سا کام چاہتا ہوں۔ دوسروں کے دکھوں کو دور کرنے کے لیے میں نے دواؤں کا ایک کارخانہ لگایا ہے۔ مگر میری دوائیں دُکھیوں تک وقت پر نہیں پہنچ پاتیں۔ جس سے میرے دماغ پر بہت بوجھ رہتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے اس بوجھ کو کم کر دیں۔‘‘
ٖڈاکٹر کے بوجھ کی بات سن کر گدھے سنجیدگی سے بولے :
’’آپ کے دماغ کے بوجھ کو ہم کس طرح کم کر سکتے ہیں۔ ہم اس میں گھسیں گے کیسے؟ ہم اتنے بڑے اور آپ کا دماغ اتنا چھوٹا‘‘
’’ہی ہی ہی …‘‘ بچے پھر ہنس پڑے۔
ڈاکٹر مسکراتے ہوے بولا:
’’آپ شاید میری بات نہیں سمجھے۔ اصل میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ میرے کارخانے کی دوائیں دکھیوں تک پہونچا دیں۔‘‘
’’بس اتنی سی بات ہے۔ آپ فکر مت کیجیے۔ آپ کی دوائیں دُکھیوں تک ہم ضرور پہنچائیں گے‘‘ گدھوں نے خوب جوش دکھایا۔
’’تو ٹھیک ہے کل سے تیار ہو کر کارخانے آ جائیے۔ آئیے آج میں آپ کو اپنا کار خانہ دکھا دوں۔‘‘ ڈاکٹر آگے بڑھ گیا۔ گدھے اس کے پیچھے چل پڑے۔ راستے میں ایک جگہ ڈاکٹر نے انہیں روک کر کہا:
’’مگر یاد رکھیے اس کام کے لیے میں آپ کو کچھ نہیں دوں گا کیونکہ میرا یہ کام آپ سینگوں کے بدلے میں کریں گے جن کو اُگانے میں میں بہت خرچ کر چکا ہوں‘‘
گدھے بولے :
’’ہمیں آپ سے کچھ چاہیے بھی نہیں۔ آپ نے جو کچھ دیا ہے وہ ہمارے لیے بہت ہے آپ نے ہمیں صرف سینگ ہی نہیں دیے ہیں بلکہ صدیوں کی ذلت سے ہمیں چھٹکارا بھی دلایا ہے۔ آپ کا ہم پر یہ اتنا بڑا احسان ہے کہ ہم زندگی بھر بھی اگر آپ کی دوائیں ڈھوتے رہیں تب بھی آپ کے اس احسان کا بدلہ نہیں چکا پائیں گے -آپ بے فکر رہیے اس کے لیے ہم آپ سے کچھ نہیں مانگیں گے۔
دوسرے دن سے گدھوں نے ڈاکٹر کے کارخانے جا کر اس کی دوائیں ڈھونے کا کام شروع کر دیا۔
شروع شروع میں دواؤں کے بہت ہلکے بکس ان کی پیٹھوں پر لادے گئے اور وہ بنا کسی بوجھ کے احساس کے ہنسی خوشی انہیں ان کے ٹھکانوں تک پہچانے لگے۔ بعد میں دھیرے دھیرے بکس بھاری ہونے لگے۔ ٹھکانوں کی دوریاں بھی بڑھتی گئیں جس میں گدھوں کا وقت زیادہ لگنے لگا اور اس کام کے لیے وقت کم پڑنے لگا جس کے کرنے سے انہیں چارہ و پانی ملا کرتا تھا۔ کام کم ہونے سے ان کے چارے پانی میں بھی کمی آتی چلی گئی اور چارے پانی کی کمی کے سبب وہ روز بروز کمزور ہونے لگے۔ ان کے پیٹ اندر کی طرف دھنس گئے۔ ہڈیاں باہر نکل آئیں۔
انکے لیے ان جانوروں کی ہمدردیاں بھی کم ہوتی چلی گئیں جو انہیں بے چارہ سمجھ کر ان سے ہمدردی رکھتے تھے کیوں کہ جانے انجانے میں ان کے سینگ ان کو بھی تکلیف پہچانے لگے۔
گدھے بے چارے اکیلے پڑ گئے۔ ان کی حالت مار کھائے بنا بھی پہلے سے زیادہ خراب ہو گئی۔ وہ بہت پریشان رہنے لگے۔ تنگ آ کر ایک دن وہ ڈاکٹر سے بولے :
’’سینگ پا کر تو ہماری حالت اور بھی بدتر ہو گئی۔ ان سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا۔‘‘
ڈاکٹر ان کی گھبراہٹ کو دیکھ کر سمجھاتے ہوئے بولا:
’’کیوں؟ فائدہ کیوں نہیں ہوا؟ کیا تمہاری پیٹھیں بوجھ لادنے والوں کی مار سے بچ نہیں گئیں؟‘‘
گدھے روہانسی آواز میں بولے :
’’بچ تو گئیں۔ مگر ہمارا چارہ پانی کم ہو گیا۔ اور ہم اکیلے بھی پڑ گئے۔ جو جانور ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے، انہوں نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا۔ جن کو ہم سے ہمدردی تھی اور جو ہماری حالت پر ترس کھاتے تھے، ان کی ہمدردیاں بھی ختم ہو گئیں۔‘‘
ڈاکٹر نے پھر سمجھایا
’’انہوں نے تم سے منہ اس لیے موڑ لیا اور اپنی ہمدردیاں ختم کر دیں کہ سینگ پا کر تم نے ان پر بھی سینگ مارنا شروع کر دیا۔ میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ ان سینگوں سے تم ہر ایک پر حملہ کرنے لگو- بولو، اب کیا چاہتے ہو؟
گدھے ڈاکٹر سے التجا کرتے ہوئے بولے :
’’آپ یہ سینگ ہمارے سروں سے الگ کر دیجیے۔‘‘
ڈاکٹر نے کہا
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ گدھوں نے گڑگڑ اکر کہا
’’ڈاکٹر صاحب! آپ تو بڑے گیانی ہیں۔ آپ اپنے انجکشن سے سینگ اگا سکتے ہیں تو انہیں گِرا بھی سکتے ہیں۔ کچھ کیجیے ڈاکٹر صاحب! ہم بہت تنگ آ گئے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر بولا
’’اب کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ میرے پاس سچ مچ ایسا کوئی انجکشن نہیں جس سے تمہارے یہ سینگ غائب ہو سکیں۔ بہتر یہ ہے کہ تم اپنے سینگوں کو قابو میں رکھو اور اپنا کام کرتے جاؤ!‘‘
گدھے مایوس ہو کر چپ ہو گئے اور اپنا اپنا بوجھ لیے لڑکھڑاتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
ایک دن جب گدھے ہانپتے اور لڑکھڑا تے ہوئے دواؤں کی پیٹیاں کارخانے سے لے کر کہیں جا رہے تھے تو راستے میں کسی نے انہیں روکتے ہوئے کہا ’’ڈال دیا نا ڈاکٹر نے مصیبت میں؟‘‘
چونک کر گدھے اس اجنبی کی طرف دیکھنے لگے۔ اجنبی کے ماتھے پر چندن کا بڑا سا ٹیکہ چمک رہا تھا۔ اپنے بھیس بھوشا سے وہ کوئی مہان پرُش لگ رہا تھا۔ گدھوں میں سے ایک نے پوچھا
’’مہاراج! آپ کون ہیں؟‘‘
اجنبی بولا
’’میں رشی پُتر ہوں۔ میرے پوروج بڑے بڑے رشی مُنی تھے۔ میں انہیں رشیوں کی سنتان ہوں جن میں سے ایک نے اپنے منتر سے تمہیں چار پیر پردان کیے تھے۔ جانتے ہو، تمہیں میرے سکڑ داداجی نے چار پیر کیوں دیے تھے۔؟ ’’رشی پُتر جواب جاننے کے لیے گدھوں کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔ گدھے اِدھر اُدھر بغلیں جھانکنے کے بعد بولے :
’’نہیں، ہمیں نہیں معلوم‘‘
گدھوں کی ’’نہیں‘‘ سن کر رشی بولا
میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تم جانوروں کو چار پیر کیوں دیے گئے۔ واستَو میں تمہیں چار پاؤں اس لیے دیے گئے کہ تم ٹھیک سے دھرتی پر کھڑے ہو سکو۔ تمہارا سنتُلن بنا رہ سکے۔‘‘
سنتُلن بنا رہ سکے؟ ہم آپ کی بات سمجھ نہیں سکے۔‘‘ گدھے حیران ہو کر رشی پُتر کی طرف دیکھنے لگے۔
رشی پُتر ان کی حیرانی دور کرنے کے لیے بولا:
’’تم نے سائکل دیکھی ہے؟‘‘
گدھوں نے جواب دیا
’’ہاں دیکھی ہے۔‘‘
’’تو تم نے یہ بھی دیکھا ہو گا کہ جب وہ چلتی ہے تو ذرا سی اَساؤدھانی سنبھال نہیں پاتی اور ڈگمگا کر گِر جاتی ہے۔ اور جب کھڑی ہوتی ہے تو ایک طرف کو جھک جاتی ہے۔‘‘
گدھے رشی کی بات دھیان سے سننے کے بعد بولے
’’ہاں سائکل کے ساتھ ایسا ہوتا تو ہے۔‘‘
ان کا جواب جان کر رشی پھر بولا
’’اور تم نے چار پہیوں والی موٹر کار بھی دیکھی ہو گی؟‘‘
گدھوں نے جواب دیا
’’ہاں، وہ بھی دیکھی ہے۔‘‘
’’تو یہ بھی دیکھا ہو گا کہ چار پہیوں والی گاڑی چلتے وقت کبھی نہیں لڑکھڑاتی اور جب کھڑی ہوتی ہے تو بالکل سیدھی کھڑی رہتی ہے۔ دائیں بائیں، آگے پیچھے کسی اُور نہیں جھکتی۔‘‘
’’ہاں، نہیں جھکتی۔‘‘
’’ہمارے رشی نے تمہیں چار پیر اسی لیے دیے کہ سائیکل کی طرح ڈگمگانے یا اِدھر اُدھر جھکنے کے بجائے تم موٹر کی طرح لڑکھڑائے بِنا چلتے رہو اور رُکو تو سیدھے کھڑے رہ سکو۔ اسی طرح انہوں نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی کسی کو سینگ دیے ہوں گے اور کسی کو ان سے ونچت رکھا ہو گا جانوروں کے کاموں بٹوارے میں بھی کوئی نہ کوئی اُدّیش رہا ہو گا۔ اس میں سب کی بھلائی کی بات چھپی ہو گی۔ تمہاری جو یہ مصیبت ہے، اس لیے ہے کہ تم نے اپنے رشیوں کا وِدھان توڑا۔ ان کا اپمان کیا اور کسی کے بہکاوے میں آ کر اپنے سروں پر سینگ اُگا لیے۔ میں پوچھتا ہوں، کیا یہ سینگ تمہارے لیے مصیبت اور جی کا جنجال نہیں بن گئے؟‘‘
’’ہاں، سینگ سچ مچ ہمارے لیے جنجال بن گئے ہیں۔‘‘ گدھوں نے سر ہلا کر اقرار کیا۔
رشی پُتر نے ان کا جواب سن کر بڑے ہی نرم لہجے میں پوچھا۔
’’کیا تم چاہتے ہو کہ اس جنجال اور سنکٹ سے تمہیں چھٹکارا مل جائے؟‘‘
’’ہاں، مہاراج چاہتے ہیں۔ جی جان سے چاہتے ہیں۔ بھگوان کے لیے ہمیں اس سے مُکتی دلا دیجیے۔‘‘ گدھے رشی پُترسے پرَارتھنا کرنے لگے۔
’’مکتی تو تمہیں مل سکتی ہے پَرَنتو-‘‘ اچانک رشی پتر چپ ہو گیا۔
’’پرنتو کیا مہاراج؟‘‘ گدھے پوری بات سننے کے لیے بے چین ہو اٹھے۔
’’تھوڑا بہت تمہیں کشٹ اٹھانا پڑے گا۔‘‘
‘‘ اٹھا لیں گے مہاراج! کشٹ بھی اُٹھا لیں گے۔ علاج تو بتایئے۔ رشی پتر کچھ دیر تک چھپ رہا۔ پھر گدھوں کی طرف دیکھتے ہوئے گمبھیر لہجے میں بولا۔
’’دیوار سے ٹکرا کر ان سینگوں کو توڑ ڈالو۔ آرمبھ میں تمہیں پپڑا اَوَشیَہ ہو گی پرنتو بعد میں تم کو سدا کے لیے اس سنکٹ سے مُکتی مل جائے گی۔ تمہاری حالت پہلے جیسی ہو جائے گی۔ تم پر بوجھ لادنے والے تمہیں چارہ پانی دینے لگیں گے۔ جنہوں نے تم سے منہ موڑ لیا ہے وہ تمہیں اپنا سمجھنے لگیں گے۔ ان کی ہمدردیاں پھر سے تمہیں ملنے لگیں گی اور رشیوں کا کرودھ بھی شانت ہو جائے گا۔‘‘
رشی پتر کا مشورہ سن کر بے چارے گدھے اپنا سر دیواروں سے ٹکرانے لگے۔
———
گھر آ کر وہ اگلی کہانی سوچنے بیٹھا تو پچھلی کہانی کا ایک گدھا اس کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ گدھے کی زخمی پیٹھ، چھلی ہوئی کھال، خالی کوکھ، اُبھری ہوئی ہڈیاں، جھکی ہوئی کمر، بھولی بھالی بے چاری صورت اور مایوسیوں سے بھری آنکھیں اس کی نگاہوں کو اپنی طرف کھنچنے لگیں۔
کچھ دیر بعد اچانک اس نے گدھے میں تبدیلی محسوس کی۔ دھیرے دھیرے گدھا پھولنے لگا۔ اس کی جسامت بڑھنے لگی۔ پیٹ کے گڈّھے بھر گئے۔ جھکی ہوئی کمر سیدھی ہو گئی۔ قد اونچا ہو گیا۔ لمبائی بڑھ گئی۔ بدن کس گیا۔ کھال چکنی ہو کر چمکنے لگی۔
اس تبدیلی کے ساتھ ہی اس نے ایک زوردار انگڑائی لی اور ہنہنا کر اپنے اگلے دونوں پاؤں اوپر اٹھا لیے۔
اٹھے ہوئے پاؤں پنجے کی طرف پلٹے تو زمین سے چیخ نکل پڑی۔ دیکھا تو اس کے آگے رشی چاروں خانے چت تھا۔
ہنہناہٹ پھر گونجی، اس بار پچھلے پیر کی جانب اُچھلے۔ دھڑام کے ساتھ دہشت ناک چیخ اُبھری۔ غور کیا تو ڈاکٹر زمین پکڑے پڑا تھا۔
دونوں منظروں کو دیر تک دیکھتے رہنے کے بعد اس کی آنکھیں اگلی کہانی کی تلاش میں آگے بڑھ گئیں۔
چٹھا باب
کوا اور کلہاڑا
بچے اس کے آنے سے پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ آتے ہی وہ شروع ہو گیا۔
’’آج میں تمہیں کوّا اور کلہاڑا کی کہانی سناؤں گا۔‘‘
’’کلہاڑا وہی نا انکل! جس سے لکڑی کاٹتے ہیں؟‘‘
’’ہاں وہی کلہاڑا جس سے پیڑ بھی کاٹتے ہیں اور ——
’’انکل! کہانی؟‘‘
ہاں ————ایک بہت پرانی بستی تھی۔ اس بستی کے لوگوں کے پاس پھلوں کے بہت سارے پیڑ تھے۔ پیڑوں پر پھل بھی آ گئے تھے مگر بستی والے اپنے اِن پیڑوں کو کاٹنے کلہاڑے لے کر نکل پڑے تھے۔ غصّے سے کلہاڑوں کی موٹھیں ان کی مٹھیوں میں بھِنچی ہوئی تھیں۔ دماغی تناؤ اور اُنگلیوں کے دباؤ سے بھنچی ہوئی مٹھیوں والے ہاتھ کی نیلی رگیں زہر سے بھری نلکیوں کی طرح پھول کر باہر آ گئی تھیں ———— پاؤں آپے سے باہر ہو رہے تھے۔ اُن کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ جبڑے سخت ہو گئے تھے۔ بھنویں تن کر کمان بن گئی تھیں۔ چہروں سے وحشت ٹپک رہی تھی۔
جن پیڑوں کو وہ کاٹنے نکلے تھے وہ پیڑ اُنہیں بہت پیارے تھے۔ اُن سے اُن کو بے حد لگاؤ تھا۔ اُنہوں نے اُن پیڑوں کو بڑے چاؤ سے لگایا تھا اور اُنہیں پال پوس کر بڑا کرنے میں ایک ماں کی طرح دُکھ جھیلا تھا۔ اُن کو ہرا بھرا کرنے میں اپنا خون جلایا تھا۔ اُن کوبڑا کرنے میں بے چارے خود گھِس گئے تھے۔
’’بستی والوں کو جب اپنے پیڑوں سے اتنا پیار تھا تو وہ انھیں کاٹنے کیوں نکلے تھے انکل؟‘‘
’’اس کے پیچھے بھی ایک لمبا قصہ ہے۔‘‘
’’تو اُسے بھی سنائیے نا۔‘‘
جس زمین پروہ پیڑ کھڑے تھے، پہلے اس میں کھیتی ہوتی تھی۔ بستی والوں کے دادا پر دادا اس زمین پر بہت محنت کرتے تھے۔ صبح سے شام تک اُسے اُپجاؤ بنانے میں لگے رہتے تھے۔ چلچلاتی ہوئی دھوپ اور کڑاکے کی سردی میں بھی ہَل چَلاتے۔ دن دن بھر کمر جھُکائے کھڑے رہتے۔ خود بھوکے پیاسے رہ کر مٹّی کو کھاد اور پانی دیتے۔ اپنا خون پسینہ بہا کر پودوں کو سینچتے مگر جب فصلیں پک کر تیار ہو جاتیں تو نہ جانے کہاں کہاں سے چَتُر چالاک جانور چپکے سے آ کر اُنھیں نوچ کھسوٹ ڈالتے۔
بار بار فصلوں کی بربادی اور اپنی بدحالی دیکھتے دیکھتے اُن کے باپ دادا تو بوڑھے ہو گئے مگر بستی والوں سے اپنے فصلوں کی بربادی بہت دنوں تک دیکھی نہیں گئی۔
وہ اُن جنگلی جانوروں سے فصلوں کو بچانے کے اوپائے سوچنے لگے۔ اُن کا دماغ دن رات اسی کام میں مشغول رہنے لگا۔ بستی کا ایک ایک آدمی اپنا ذہن دوڑانے لگا۔ ایک دن اُن میں سے کسی کو ایک اوپائے سوجھ گیا۔ اس نے بستی والوں کو جمع کیا اور بتایا:
’’بھائیو! جنگلی جانوروں سے فصلوں کو بچانے کا ایک اوپائے میرے ہاتھ آ گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ اوپائے بہت ہی کارگر ثابت ہو گا———
’’جلدی بتاؤ نا وہ اوپائے کیا ہے؟‘‘ بستی کے لوگ اوپائے جاننے کے لیے اُتاؤلے ہو گئے۔
’’ابھی بتاتا ہوں ذرا دھیرج تو رکھیے ————اوپائے یہ ہے کہ ہم بہت سارے ڈنڈے جمع کریں۔ ڈنڈوں کے ایک سرے پرکپڑا لپیٹ دیں اور اُن سروں کو مٹی کے تیل میں بھگو کر رکھ دیں۔‘‘
’’اُن سے کیا ہو گا؟‘‘ لوگوں کا تجسّس بڑھ گیا۔
’’اُن سے یہ ہو گا کہ جب جنگلی جانور ہمارے کھیتوں میں گھُسیں گے توہم اُن ڈنڈوں کو آگ دکھا دیں گے۔ یہ آن کی آن میں مشعل بن جائیں گے اور ہم اُن مشعلوں کولے کر اپنے کھیتوں کی طرف دوڑ پڑیں گے۔ جانور آگ کے شعلوں کو دیکھ کر بھاگ جائیں گے اور پھر کبھی اِدھر آنے کی ہمّت نہ کر سکیں گے۔ کیونکہ ہم نے سنا ہے کہ جانور آگ سے بہت ڈرتے ہیں۔‘‘
اوپائے بتا کروہ فخر سے بستی والوں کی طرف دیکھنے لگا۔ بستی کے لوگوں کی آنکھیں روشن ہو گئی تھیں اور اُن کے چہروں پر چمک آ گئی تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ بستی والوں کو یہ اوپائے اچھّا لگا۔ اوپائے پر عمل شروع ہو گیا۔
ڈھونڈ ڈھونڈ کر ڈنڈے جمع کیے گئے۔ ڈنڈوں کے سروں پر کپڑا لپیٹا گیا۔ اور کپڑے والے سِروں کو مٹی کے تیل کے کنستروں میں ڈبو دیا گیا۔
جیسے ہی جانور کھیتوں میں داخل ہوئے بستی والوں نے ڈنڈوں کو آگ دکھا کر اُنہیں مشعلوں میں بدل دیا۔ اور آگ اُگلتی ہوئی مشعلوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر کھیتوں کی طرف دوڑ پڑے۔
جنگلی جانوروں کی آنکھیں بھڑکے ہوئے شعلوں کی لپلپاہٹ سے سچ مچ چوندھیا گئیں۔ مشعلوں کی لہراتی ہوئی لال لال لپٹیں برچھیوں کی طرح اُن کے دماغوں میں چُبھ گئیں۔ آگ کی تیز گرمی کی تاب نہ لا کر جانور تلملا اُٹھے۔ وہ گھبرا کر کھیتوں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔
خوفناک جانوروں کو بھاگتے ہوئے دیکھ کر بستی والے خوشی میں جھوم اُٹھے۔ اُن کے ہاتھوں کی مشعلیں لہرانے لگیں۔ اُن کی مُرجھائی ہوئی شکلیں مسکرانے لگیں۔ اس دن خوب جشن منایا گیا۔ ناچ رنگ کی محفلیں سجائی گئیں۔ دل کھول کر دولت لٹائی گئی۔ رات بھر موج مستی کا بازار گرم رہا۔
اس اوپائے سے جانوروں کا آنا تو کم ہو گیا مگر فصلوں کا بچاؤ پوری طرح نہ ہو سکا۔ کیوں کہ بھوکے جانور بھی چپ بیٹھنے والے نہیں تھے۔ آگ کے شعلوں سے اُن کی آنکھیں ضرور چوندھیا گئی تھیں۔ مشعلوں نے اُنہیں چوٹیں بھی پہنچائی تھیں مگر اُن کی چالا کیاں ابھی چوپٹ نہیں ہوئی تھیں۔ وہ اور چوکنّے ہو گئے اور موقع کی تلاش میں پھرنے لگے۔ اُنہیں جب کبھی موقع ملتا اور بستی والوں کو غفلت میں پڑے دیکھتے فصلوں پر ٹوٹ پڑتے۔ اُنہیں موقع اس لیے مل جاتا کہ بستی والوں کے لیے مشعلوں کو ہر وقت جلائے رکھنا اور اُن کے ساتھ ساتھ خود بھی جاگتے رہنا ممکن نہ تھا۔
کچھ دنوں بعد کسی کے دماغ میں ایک اوپائے یہ آیا کہ کھیتوں کے چاروں طرف اونچی اونچی دیواریں کھڑی کر دی جائیں جس سے جانور کھیتوں میں نہ گھُس سکیں۔ یہ اوپائے بھی لوگوں کو پسند آ گیا۔
اس پربھی عمل شروع ہوا۔ زمین کھود کر نرم ملائم مٹی نکالی گئی۔ اس مٹّی کو گوندھ کراس سے اینٹیں بنائی گئیں کچی اینٹوں کوبڑی بڑی بھٹّیوں میں پکایا گیا اور پکّی اینٹوں سے کھیتوں کے چاروں طرف اونچی اونچی دیواریں اُٹھا دی گئیں۔ یہ اوپائے کامیاب ثابت ہوا۔ جنگلی جانوروں سے چھُٹکارا مل گیا۔ فصلوں کا بچاؤ ہو گیا۔
بستی والوں کی بدحالی دور ہو گئی تو اُنہوں نے اپنی خوشحالی کے بارے میں سوچا اور خوشحالی لانے کے لیے اس زمین میں پیڑ بھی لگا دیئے۔ فصلوں سے زیادہ پیڑوں پر دھیان دیا جانے لگا۔ پیڑوں کے لالن پالن میں بستی والے جان توڑ محنت کرنے لگے۔ وہ تپتی ہوئی دھوپ میں جھلسنے لگے۔ پیڑوں کی ہریالی کے لیے اپنے چہروں کی ہریالی کھونے لگے۔ اپنا خون پسینہ بہانے لگے۔
برسوں کی محنت کے بعد اُن کے تن من دھن کی قربانی کام آئی۔ اُن کا خون رنگ لے آیا۔ پیڑ بڑے ہو گئے۔ اُن پر پھل بھی آ گئے۔
پھلوں کو دیکھتے ہی بستی والوں کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ اُن کے جھُلسے ہوئے جسموں پر ہریالی واپس آ گئی۔ اُن کے مُرجھائے ہوئے پیلے چہرے ہرے بھرے سبزوں کی طرح لہلہا اُٹھے۔ اُن کے دلوں میں پھول کھل اُٹھے۔ رگوں میں رس گھُلنے لگا۔ سانسوں میں میٹھی اور من موہک مہک رچ بس گئی۔
وہ اپنی آنکھوں میں خوش حال زندگی کے خوبصورت خواب سجا کر چین کی نیند سو گئے۔
مگر ایک دن جب وہ گہری نیند سو رہے تھے تو اچانک اُن کے کانوں میں کچھ کرخت آوازیں داخل ہوئیں اور وہ چونک پڑے۔ اُن کی آنکھوں سے نیند اُڑ گئی۔ ہڑبڑا کر اُنہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا تو پیڑوں کی ڈالیوں پر بیٹھے بہت سارے کالے کالے کوّے کائیں کائیں کر رہے تھے۔
کوّوں کی کائیں کائیں سے اُن کے کان کے پردے جھنجھنانے لگے۔ بستی کے لوگوں کی گھبرائی ہوئی آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ تمام کوّوں کی نظریں پیڑوں کے اوپر لگے پھلوں پر ٹکی ہوئی تھیں اور کچھ کوّے تو پھلوں میں ٹھونگیں بھی مار رہے تھے۔ کوّوں کی چونچ کی چوٹ پر پھلوں سے گودا باہر نکل کر بہہ رہا تھا۔
یہ دیکھ کر بستی والوں کا دل کراہ اُٹھا۔ اُن کی آنکھیں رو پڑیں۔ اُنہیں محسوس ہوا جیسے کوّوں کی ٹھونگیں پھلوں پر نہیں بلکہ اُن کے اپنے جسموں پر پڑ رہی ہوں اور پھلوں سے گودا نہیں بلکہ خُون میں لتھڑا ہوا اُن کے اپنے گوشت کا ریشہ بہہ رہا ہو۔
غصّے میں آ کر بستی والوں نے زور زور سے تالیاں پیٹنی شروع کر دیں تاکہ کوّے آواز سن کر پیڑوں سے بھاگ جائیں۔ اُن کی زور دار تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے آس پاس کا ماحول تو دہل اُٹھا مگر اُن کوّوں کے پر تک نہیں ہلے۔
بستی والے کوّوں کی ڈھٹائی پر حیران ہو اُٹھے اور اس نئی مصیبت سے بچنے کے لیے ایک جگہ جمع ہوئے۔ سبھی سر جوڑ کر بیٹھے اور اپنا اپنا دماغ دوڑانے لگے۔
اُن سب کی سوچوں نے اس تدبیر کو مناسب پایا کہ پتھّر پوری طاقت سے کوّوں کی طرف اُچھالے جائیں۔
پتھّروں کے ڈھیر کے ڈھیر ختم ہو گئے۔ بستی والوں کے بازو بھی تھک کر چور ہو گئے مگر کوّے نہیں بھاگے۔ وہ اتنے ڈھیٹ اور چالاک تھے کہ جب پیڑوں کی طرف پتھر اُچھلتے تووہ ڈالیوں سے تھوڑا اوپر اُڑ کر ہوا میں منڈلانے لگتے۔ اور جیسے ہی پتھّروں کا اُچھلنا بند ہوتا، پھر سے ڈالیوں پر آ کر بیٹھ جاتے اور پھلوں کو ٹھونگیں مارنے لگتے۔
پتھّروں سے اُن کا تو کچھ نہیں بگڑتا البتہ ہر بار کچھ نہ کچھ پھل ضرور زخمی ہو جاتے۔
پتھّروں والی ترکیب جب پوری طرح ناکام ہو گئی تو بستی والے کسی اور اوپائے کی تلاش میں پھر جمع ہوئے۔ اس بار اُن کے دماغ نے اُنہیں یہ اوپائے سُجھایا کہ وہ کوّوں پر بندوقوں سے وار کریں۔
اِس اوپائے کو عمل میں لانے کے لیے بستی والوں نے اپنی بہت سی ضروری چیزیں بیچ کر بندوقیں خریدیں۔ اُن میں کارتوس بھرے اور اُن بھری ہوئی بندوقوں کی نالیں کوّوں کی طرف تان کر کھڑے ہو گئے۔
بندوقوں کی لبلبی دَبی اور دنادن گولیاں چلیں تو کچھ کوّے پھڑپھڑا کر زمین پر گر پڑے۔ جب کوّوں نے دیکھا کہ ان کے کچھ ساتھی گولیوں کے نشانہ بن گئے تووہ ڈالیوں سے اُڑ کر غائب ہو گئے۔
بستی والوں نے مطمئن ہو کر اپنی تنی ہوئی بندوقیں نیچے جھُکالیں اور چین کی سانس لینے لگے۔ مگر کوّے نہ جانے کہاں سے پھرڈالیوں پرآدھمکے۔ ہلکی ہو کرہوامیں لہراتی ہوئی ڈالیاں کوّوں کے بوجھ سے ایک بارپھر جھُک گئیں۔ ہرے پتّے کالے کالے پروں سے ڈھک گئے۔ کوّوں کی کائیں کائیں دوبارہ شروع ہو گئی۔
بستی والوں کے غصّے کا پارہ چڑھ گیا۔ اُنہوں نے بندوقیں پھر تان لیں۔ بندوقوں کی نالیں ٹھائیں ٹھائیں کرنے لگیں۔ مگر چوکنّے کوّے دھماکوں کو سنتے ہی پھر اُڑن چھو ہو گئے۔
اب بندوقوں اور کوّوں کی آنکھ مچولی ہونے لگی۔ اور اِس آنکھ مچولی کے کھیل میں بندوقوں کے کارتوس بارودوں سے خالی ہو گئے۔
کارتوسوں کے ختم ہوتے ہی ڈھیٹ اور چالاک کوّے جم کر پیڑوں پر بیٹھ گئے۔ پکّے پھلوں پر اُن کی کالی نکیلی ٹھونگیں بے خوف ہو کر پڑنے لگیں۔ پھل زخمی ہونے لگے۔ پھلوں کا چھلکا جگہ جگہ سے چھلنے اور پھٹنے لگا۔ رس ٹپکنے لگا۔ پکا ہوا پیلا پیلا پیارا پیارا گودا کوّوں کے کالے کالے بھدّے پٹیوں میں سمانے لگا۔
بستی والوں کے دل ڈوب گئے۔ اُن کی آنکھوں میں نا امیدی کی گھٹائیں گھِر آئیں۔ اُن کے چہروں پر مایوسی کے بادل چھا گئے مگر اُن کے دماغوں نے سوچنا بند نہیں کیا اُن کی سوچوں نے ایک اور اوپائے تلاش کر کے اُن کے آگے رکھ دیا۔ اوپائے بہت ہی معقول تھا۔ اُسے دیکھتے ہی اُن کی نا اُمیدی کی گھٹاؤں سے بھری آنکھوں میں اُمید کی بجلیاں کوند پڑیں۔ مایوسی کے بادل چھٹ گئے۔ ماتھے پر سورج کی کرنیں جگمگانے لگیں۔
’’اوپائے یہ تھا کہ کہیں سے باز بلائے جائیں۔‘‘
بستی والوں نے اپنے گھرکے بچے کھُچے سامان بھی بیچ دیئے۔ اُن سے جو پیسے حاصل ہوئے اُس سے تربیت یافتہ یعنی ٹرینڈ باز منگوائے گئے۔
شکاری بازوں نے آتے ہی اپنا کام شروع کر دیا۔ وہ کوّوں پر جھپٹنے لگے۔ کوّے اُن کے پنجوں میں آنے لگے۔ پنجوں کی مضبوط پکڑ سے کوّوں کے ڈینے ٹوٹنے لگے۔ پنکھ پھڑپھڑانے لگے۔ کالے کالے پر ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرنے لگے۔ کائیں کائیں کی آوازوں کا دم گھٹنے لگا۔
شکاری بازوں کا کمال دیکھ کر بستی والوں کے دل اُچھل اُٹھے۔ اُن کے اَنگ اَنگ پھڑکنے لگے۔ پھر سے پھلوں کی مستانی مہک اُن کی سانسوں میں بسنے لگی۔ رگوں میں مٹھاس گھلنے لگا۔
مگر ایک دن بستی والوں سے یہ خوشگوار تبدیلی چھِن گئی۔ پیڑوں پر ایک نیا منظر دیکھ کر اُن کے ہوش اُڑ گئے۔ حواس گم ہو گئے۔
’’اُنہوں نے پیڑوں پر دیکھا کہ جو شکاری باز کل تک کوّوں پر جھپٹّا مار رہے تھے۔ اُنہیں اپنے پنجوں میں دبوچ کر توڑ مروڑ رہے تھے۔ جھپٹ جھپٹ کر اُنہیں مار گرا ر ہے تھے، وہ کوّوں کے پہلوؤں میں بیٹھے تھے اور کوّوں کے سنگ وہ بھی پھلوں کو چونچ مارنے میں مشغول تھے۔‘‘
یہ دیکھ کر اُن کے پیروں کے نیچے سے زمین کھِسک گئی۔ آنکھیں غصّے سے دہک اُٹھیں۔ اُن کے جبڑے سخت ہو گئے۔ اور اُن کے غضبناک دماغ نے ایک آخری اوپائے ڈھونڈ کر تیزی سے اُن کے ہاتھوں میں پکڑا دیا۔
’’وہ آخری اُپائے کیا تھا انکل؟‘‘
’’وہ آخری اُپائے تھا کلہاڑا جسے بستی والے اپنے ہاتھوں میں اٹھائے پیڑوں کی طرف نکل پڑے تھے۔
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
بستی والے جب پیڑوں کے قریب پہنچے اور کوؤں نے ان کے ہاتھوں میں کلہاڑوں کو دیکھا تو اچانک ان کی ٹھونگیں رک گئیں۔ ان کی چونچ سے پھل چھوٹ گئے اور ان کے پر پھڑپھڑانے لگے۔
————
یکایک تالیاں بج اٹھیں۔ تالیوں کی گڑگڑاہٹ پر اس کے کان کھڑے ہو گئے۔ اس کی آنکھوں میں تالیاں بجاتے ہوئے ننھے منّے ہاتھوں کے علاوہ بہت سارے منظر اُبھرتے چلے گئے :
جن میں بھنچی ہوئی مٹھیاں بھی تھیں
اور کھنچی ہوئی بھنویں بھی
سکڑی ہوئی جبینیں
اور بگڑے ہوئے تیور بھی
بِپھری ہوئی آنکھیں
اور تمتمائے رخسار بھی
سخت ہوئے جبڑے
اور دانتوں میں دبے ہونٹ بھی
٭٭