سنو! سنو! سنو!
دوڑو! دوڑو! دوڑو!
آ گیا۔ آ گیا۔ آ گیا۔
کہانی والا انگل آ گیا۔
اُس نے کاغذ کے بھونپوٗ سے اپنی آمد کا اعلان کیا۔ آوازیں سن کر بچے اس کی طرف دوڑنے لگے۔
—————
وہ روز اِس وقت محلے کے چورا ہے پر آ کر آواز لگاتا۔ آواز پر بچے اپنے اپنے گھروں سے نکل کر اس کے ارد گرد جمع ہو جاتے اور وہ انھیں کہانی سنانے بیٹھ جاتا۔
—————
وہ ایک پڑھا لکھا جہاں دیدہ اور سنجیدہ آدمی تھا۔ اس کی آنکھوں میں سمندروں جیسی گہرائی اور صحراؤں جیسی وسعت تھی۔ اس کی سکڑی ہوئی پیشانی میں بے شمار نشیب و فراز سمٹے ہوئے تھے۔ پیروں کے علاوہ چہرے پر بھی گرد جمی تھی۔
—————
کہانی سنانے کے کاروبار سے قبل اس نے کئی دھندے کیے :
بینک سے لون لے کر ہوٹل کھولا۔ ہوٹل چلا بھی۔ مگر کسی نے افواہ اڑا دی کہ اس کے یہاں ’’مٹن میں بیف کی ملاوٹ ہوتی ہے‘‘ —گراہک کم ہوتے چلے گئے۔ ملازموں کی تنخواہیں پاس سے دینے کی نوبت آ گئی۔ بعد میں فرنیچر بھی بک گئے۔ ہوٹل بند ہو گیا۔
جائداد بیچ کر کتابوں کی دُکان کی۔ دکان میں برکت کے لیے پیروں فقیروں سے حاصل کی گئی آیتوں کی تختیاں ٹانگیں۔ ایک گوشے میں علم کی دیوی کو بھی آویزاں کیا۔ الماریوں کو مذہب، فلسفہ، اخلاقیات، سائنس دب، آرٹ سب سے سجایا۔ کشش کے لیے مارکس کے پہلو بہ پہلو مست رام کو بھی رکھا مگر ایک دن ساری کتابیں آگ کی لپیٹ میں آ گئیں۔ حالانکہ آگ بہت دور کسی دوسرے شہر میں لگی تھی۔ اُس آگ کی لپٹوں میں سب کچھ بھَسْم ہو گیا۔ سرمائے کے ساتھ ساتھ سقراط، مارکسؔ، لیننؔ، کبیرؔ، غالبؔ، گاندھی، نہرو وغیرہ بھی۔
—————
بیوی کے زیور گروی رکھ کر کپڑے کا کاروبار کیا تو کپڑا مارکیٹ کے گھاگھ ویوپاریوں نے قیمتیں اتنی گرادیں کہ اس کی بکری بالکل ٹھپ پڑ گئی۔ بڑے تاجروں سے ٹکّر لینے کی طاقت اس میں نہیں تھی۔ چنانچہ قمیض پاجامہ بننے والے کپڑے بچوں کے پوتڑے بننے لگے۔
—————
گھر آنگن کے ساز و سامان بیچ کر پھیری لگانا شروع کیا تو کسی نے اُس پر جاسوس ہونے کا الزام لگایا اور کسی نے اسے آتنگ وادی ٹھہرایا۔ پوچھ تاچھ میں پولیس نے اتنا پریشان کیا کہ تنگ آ کر اُسے پھیری سے بھی منہ پھیرنا پڑا۔
—————
کاروبار سے اس نے کئی خواب دیکھے تھے۔ یہ بھی دیکھا تھا:
وہ ایک سرسبز و شاداب میدان میں کھڑا ہے۔ اس کے ہاتھ میں سفید رنگ کا دبیز کاغذ ہے۔ بے شمار آنکھیں اُسے حسرت آمیز حیرت سے دیکھ رہی ہیں۔ بہت سارے ہاتھ اس کی جانب پھول اچھال رہے ہیں۔
اسے محسوس ہوتا ہے کہ کاغذ سے کوئی شئے نکل کر آہستہ آہستہ اس کے اندر تحلیل ہو رہی ہے اور تیزی سے اس کے جسم میں پھیلاؤ کا عمل جاری ہو گیا ہے۔ اس کے دست و پا بڑھنے لگے ہیں۔ قد اوپر اٹھنے لگا ہے۔ جسم غبارے کی طرح پھولنے لگا ہے …
دیکھتے ہی دیکھتے اس کے محسوسات ٹھوس شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ ہاتھ پاؤں لمبے ہو جاتے ہیں۔ جسامت بڑھ جاتی ہے۔ قد آسمان کو چھونے لگتا ہے۔ وہ جہاں سے جو چیز چاہتا ہے، ہاتھ بڑھا کر اٹھا لیتا ہے۔ جدھر اور جس جگہ جانا چاہتا ہے، اس کے پاؤں پہنچ جاتے ہیں۔
سفید دبیز کاغذ سے نکل کر جسم میں تحلیل ہونے والی شئے اب آنکھ میں پہنچ جاتی ہے۔ دیدوں میں سیکڑوں واٹ کے بلب جل اٹھتے ہیں۔ نگاہ بینائی سے بھر جاتی ہے۔ نظریں اوپر اٹھاتا ہے تو دور دور تک روشنی ہی روشنی دکھائی دیتی ہے۔ اس تیز روشنی میں ایک ایک شئے تابندہ ہو جاتی ہے۔ آنکھوں سے اوجھل چیزیں بھی نظر آنے لگتی ہیں۔ آنکھوں کے سا منے ایسے ایسے مَن موہک مناظر آ کھڑے ہوتے ہیں جو رنگ، نور، نگہت سے معمور ہیں۔ رس، مٹھاس اور لذت سے بھرپور ہیں۔
اس کے رگ و پے میں کیف و انبساط کا نقشہ گھل جاتا ہے۔ دل و دماغ میں سرود و سرور کی ترنگیں جوش مارنے لگتی ہیں۔ اس کی زندگی جھوم کر لہرانا شروع کرتی ہے کہ اچانک فضا میں زوروں کی آندھی اٹھتی ہے۔ شعاعیں سمٹنے لگتی ہیں۔ روشنی مدھم پڑنے لگتی ہے۔ گرد باد گردش کرنے لگتے ہیں۔ مختلف سمتوں سے بگولوں کے ہمراہ بڑی بڑی سوئیاں آ کر اس کے جسم میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ اندر کی ساری ہوا نکل جاتی ہے۔ آنکھوں کے بلب بجھ جاتے ہیں۔ جسم سکڑے ہوئے غبّارے کی طرح لجلجا ہو جاتا ہے۔ پاؤں گھٹ کر گھٹنوں تک رہ جاتے ہیں۔ ہاتھ اتنے سکڑ جاتے ہیں کہ اس کے اپنے منہ کے تک ان کا پہنچنا دشوار ہو جاتا ہے …
—————
انھیں دنوں اس نے یہ کہانی بھی لکھی تھی:
…… ایک شام ایک اشتہار سے میری آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’ضرورت ہے حیرتوں کی۔ ایک ایک حیرت کا منہ مانگا دام— حیرت فروش اِس پتے پر رجوع کریں‘‘ ۔
(ادارۂ حیرت، عجائب خانہ نَو، کائنات گنج، آفاق نگر)
میں حیرتوں کی تلاش میں نکل پڑا—
ایک جگہ ایک بے قصور جسم پر سڑاک سڑاک کوڑے برس رہے تھے۔ بے رحم چابک کی چوٹ پر کچے بدن کی نرم و نازک چمڑی جگہ جگہ سے اُدھڑ رہی تھی۔ سفید چربی پگھل کر باہر نکل رہی تھی۔
مظلوم کی چیخ و پکار پر زمین و آسمان دہل رہے تھے۔ لوگ تماشائی بنے کھڑے تھے۔ میری آنکھیں پھیل گئیں۔ کوڑوں کی مسلسل ضرب پر میرا وجود جھنجھنا اٹھا۔ آگے بڑھا تو ایک مقام پر —
ایک بن بیاہی عورت ماں بنی بیٹھی تھی۔ ماں اور بچے دونوں کو سنگ سار کیا جا رہا تھا۔ پتھر مارنے والوں میں بچے کا باپ بھی شامل تھا۔
میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں لرز اٹھا۔ کچھ اور آگے بڑھا تو دیکھا:
کمان کی طرح جھکی رہنے والی گردن بندوق کی نال کی طرح تنی ہوئی تھی۔ دینے والا ہاتھ پھیلا ہوا تھا۔ لینے والا دے رہا تھا۔
اعجوبہ انداز دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔
شہر شہر، قریہ قریہ، گاؤں گاؤں گلی گلی گھوم گھوم کر میں نے بہت ساری حیرتیں جمع کیں اور ان حیرتوں کے عوض میں ملنے والی منہ مانگی رقم کے تصور میں جھومتا ہوا ادارۂ حیرت کے دروازے پر پہنچ گیا۔
’’جناب! میں حیرتیں لایا ہوں۔‘‘
’’کیا؟ حیرتیں لائے ہو؟‘‘
’’جی، بہت سا ری حیرتیں لایا ہوں‘‘ ۔
’’دِکھاؤ!‘‘
’’مجھے ان کے منہ مانگے دام ملیں گے نا؟‘‘
’’ضرور ملیں گے‘‘ ۔
’’آپ سچ کہہ رہے ہیں نا؟‘‘
’’ہاں، ہاں، میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں مگر پہلے انھیں دِکھاؤ تو۔‘‘
’’ابھی دکھاتا ہوں۔ لیجیے، یہ پہلی حیرت ملاحظہ کیجیے۔‘‘
بن بیاہی عورت ماں بن گئی۔
’’دوسری دکھاؤ!‘‘
جرم ثابت ہو جانے کے با وجود مجرم بری ہو گیا۔
’’تیسری دکھاؤ!‘‘
قاتل کو انعام سے نوازا گیا۔
’’کوئی اور دکھاؤ!‘‘
گلابوں پر گیندے کھلے
’’کوئی اور!‘‘
شاخ سے ثمر ٹوٹا زمین پر نہیں گرا۔
’’اور!‘‘
پانی میں آگ لگ گئی
’’اور کوئی!‘‘
سائبانوں سے دھوپ برستی ہے۔
’’اور‘‘
آسمان زمین پر اتر آیا۔
’’اور‘‘
زمین آسمان پر پہنچ گئی۔
’’کوئی اور!‘‘
’’عجیب ہیں آپ! اور اور کی رَٹ لگائے جا رہے ہیں مگر ایک بھی حیرت پر آپ کی آنکھ نہیں پھیلی۔ پیشانی پر کوئی لکیر نہیں ابھری۔ کیا یہ حیرتیں آپ کو حیرت انگیز نہیں لگیں؟‘‘
’’حیرتیں! حیرت انگیز! نہیں، مجھے تو نہیں لگیں۔‘‘
’’آپ مذاق کر رہے ہیں جناب!‘‘
’’نہیں، میں مذاق بالکل نہیں کر رہا ہوں۔‘‘
’’تو کیا سچ مچ یہ آپ کو حیرت انگیز نہیں لگیں؟‘‘
’’میں سچ کہہ رہا ہوں، مجھے اِن میں حیرت کا شائبہ بھی نظر نہیں آیا۔‘‘
’’کہیں آپ کے حواس بیمار تو نہیں ہیں؟‘‘
’’نہیں، میرے حواس بالکل درست ہیں۔‘‘
’’نہیں صاحب! ضرور آپ کے حواس میں کوئی خرابی آ گئی ہے ورنہ ——
’’نہیں بھائی! میرے حواس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ کہو تو میں اپنا ڈاکٹری معائنہ کرا کر دکھا دوں۔ تب تو یقین کرو گے نا؟‘‘
’’ہاں، معاینے کے بعد مجھے یقین ہو جائے گا۔‘‘
’’تو ٹھیک ہے۔ آؤ میرے ساتھ‘‘ ۔ ادارۂ حیرت کا منیجر مجھے لے کر ڈاکٹر کے پاس پہنچ گیا۔ مختلف طرح کی مشینوں سے منیجر کے حواس کی جانچ ہو گئی۔ ڈاکٹر رپورٹ دیکھ کر منیجر سے بولا:
’’آپ کے حواس بالکل صحیح ہیں، کہیں کوئی خرابی یا خامی نہیں ہے۔‘‘
رپورٹ سن کر میں نے ڈاکٹر کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تعجب ہے! ان کے حواس میں کوئی خرابی نہیں، پھر بھی انہیں حیرتیں حیرت انگیز نہیں لگتیں۔ مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ میں نے ڈاکٹر کو مخاطب کیا۔
’’ڈاکٹر صاحب! یہ حیرتیں جن پر میں اب تک حیران ہوں، جنھیں دیکھ کر میری آنکھیں جل جل گئی ہیں۔ پلکیں بھیگ بھیگ گئی ہیں۔ چہرہ بگڑ بگڑ سا گیا ہے۔ دل دھڑک دھڑک اٹھا ہے۔ دماغ ماؤف سا ہو گیا ہے۔ وجود لرز لرز اٹھا ہے۔ اِن کے لیے اُن میں حیرانی کی کوئی بات ہی نہیں ہے؟ —— سمجھا! یہ ضرور کوئی ڈراما کر رہے ہیں تاکہ میری اتنی ساری حیرتوں کے منہ مانگے دام نہ دینے پڑیں۔ ڈاکٹر صاحب! میں نے انھیں بڑی مشقت اور مشکل سے جمع کیا ہے۔ برسوں تگ و دو کی ہے۔
دھوپ میں خود تپایا ہے۔
بارش میں جسم کو بھ گویا ہے
تن من پر کڑا کے کی سردیاں جھیلی ہیں
تنگ و تاریک راہوں میں ٹھوکریں کھائی ہیں
روحانی اذیتیں برداشت کی ہیں
تب جا کر یہ میرے ہاتھ لگی ہیں۔ ڈاکٹر! ان سے کہیے کہ اگر یہ منہ مانگے دام نہیں دے سکتے تو اپنی مرضی سے جو چاہیں دے دیں۔ میں اسی پر قناعت کر لوں گا مگر —
’’دیکھو! میں کوئی ڈراما وراما نہیں کر رہا ہوں اور نہ ہی میری نیت میں کوئی کھوٹ ہے۔ تم جو کچھ اپنے ساتھ لائے ہو اگر یہ حیرتیں ہوتیں تو میں واقعی تمہیں منہ مانگے دام دیتا — اچھا، اگر تم کو مجھ پر یقین نہیں آ رہا ہے تو میں لوگوں کو جمع کرتا ہوں تم اِنہیں اُن کے سامنے رکھو۔ اگر وہ انھیں حیرتیں تسلیم کر لیتے ہیں تو میں تم جو مانگو گے، دینے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
منیجر نے لوگوں کو جمع کیا۔ ایک ایک کر کے میں نے ساری حیرتیں ان کے سامنے رکھ دیں مگر کسی بھی حیرت پر کوئی آنکھ نہیں پھیلی۔ کسی بھی چہرے پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوا۔ میری حیرانی اور بڑھ گئی۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد میں نے اپنے شبہے کا اظہار کیا۔
’’یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ تمام لوگ کسی وبا کے شکار ہوں؟ سب کے حواس بیمار پڑ گئے ہوں؟
’’تمہارا یہ شک بھی ہم دور کیے دیتے ہیں ——‘‘ اُس نے ڈاکٹر کو مخاطب کیا۔
’’ڈاکٹر! پلیز ان سب کا معاینہ بھی کر دیجیے۔‘‘
تمام لوگوں کا بھی معاینہ ہو گیا۔ کسی میں کوئی خرابی نہیں نکلی۔
پھیل کر میرے دیدے اور بڑے ہو گئے۔
’’کہیں ایسا تو نہیں کہ جانچ مشین ہی خراب ہو؟‘‘ میرے ذہن میں ایک شبہے نے سر اٹھایا۔
’’تمہارا یہ شک بھی ہم دور کرا دیتے ہیں۔ مشینوں کو بھی جانچ کر دیکھ لیتے ہیں۔‘‘
مشینوں کی بھی جانچ ہو گئی۔ مشینیں ٹھیک تھیں۔
میرا سر ندامت سے جھک گیا۔
’’مجھے افسوس ہے کہ نوجوان کہ تمہاری محنت رائے گاں گئی۔ ایک بار پھر کوشش کرو، ممکن ہے دوسری بار کامیاب ہو جاؤ۔‘‘
احساسِ ناکامی اور ندامت کے بوجھ کے ساتھ میں وہاں سے لوٹ آیا مگر میری تلاش جاری رہی۔ مجھے وہ تمام حیرتیں پھر سے دکھائی پڑیں جنھیں میں ادارۂ حیرت میں چھوڑ آیا تھا۔ ان کے علاوہ میں نے یہ بھی دیکھا:
باپ بیٹی کے ساتھ زنا میں مشغول تھا
بیٹا ماں کے اوپر سوار تھا
رہبر رہزنی کر رہا تھا
محافظ تحفظ کا گلا گھونٹ رہا تھا
اندھا دیکھ رہا تھ ا
آنکھ والا ٹھوکر کھا رہا تھا
لنگڑا دوڑ رہا تھا
پاؤں والا گرا پڑا تھا
لولھا مال و زر بٹور رہا تھا
ہاتھ والا دست نگر تھا
دریا کوزے میں بند تھ ا
زہر بے اثر تھا
صدا بے صوت تھی
سرخ سفید تھا
سفید سیاہ تھا
مگر کسی بھی حیرت پر میری آنکھیں نہیں پھیلیں۔ چہرے پر لکیر نہیں ابھری۔ پیشانی پر بل نہیں پڑا۔ دل کی دھڑکن تیز نہیں ہوئی۔ سماعت نہیں لرزی۔ دماغ ماؤف نہیں ہوا۔ مجھے اپنے آپ پر تعجب ہوا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میرے حواس بے کار ہو گئے ہوں۔ میں گھبرا کر ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔ اپنا ڈاکٹری معاینہ کرایا— میرے حواس درست تھے۔
میں حیرتوں کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا۔ کہیں بھی کوئی حیرت ہاتھ نہیں آئی۔ کئی برس بیت گئے — آنکھوں میں اندھیرے گھلنے لگا۔ مایوسیاں دل و دماغ میں ڈیرا ڈالنے لگیں۔ ایک دن ایک حادثے پر نظر پڑی۔ مجھے اس پر حیرت کا گمان ہوا۔ میں اپنی پھیلی ہوئی آنکھوں میں اس حادثے کو سمیٹے ادارۂ حیرت کی طرف بھاگا۔
’’تم کون ہو؟‘‘
’’میں وہی ہوں جو برسوں پہلے بہت ساری حیرتیں لے کر آیا تھا مگر میری ایک بھی حیرت نہیں بکی تھی۔‘‘
’’اب کس لیے آئے ہو؟‘‘
’’پھر حیرت لے کر آیا ہوں۔‘‘
’’دکھاؤ!‘‘
’’کسی کی قابلیت اس کے کام آ گئی۔‘‘
’’کیا’ قابلی بار آور ہو گئی؟‘‘ منیجر کی آنکھیں پھیل گئیں۔
’’جی ہاں، میں سچ کہہ رہا ہوں۔‘‘
اب کے تم واقعی حیرت لے کر آئے ہو؟ جاؤ! کیشئر سے اس کی منہ مانگی قیمت وصول کر لو مگر جانے سے پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ یہ حیرت تمہیں کہاں ملی؟ اگر تم خود ہماری رہنمائی کر سکو تو اس کا ہم تمہیں الگ سے معقول معاوضہ دیں گے۔‘‘
’’ضرور‘‘ می نے کیشئر سے قیمت وصول کی اور ان کی رہنمائی کرتا ہوا جائے وقوع تک پہنچ گیا۔
’’ہم لوگ ادارۂ حیرت سے حاضر ہوئے ہیں‘‘ ۔ منیجر نے تعارف کرایا۔
’’فرمائیے! ’’اس جگہ کے افسرِ اعلیٰ نے ان کے آنے کا سبب دریافت کیا۔
’’ہم لوگ آپ کی سَمّانِت کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’سَمّانِت کرنا چاہتے ہیں! مگر کیوں ’‘‘
’’اس لیے کہ آپ نے ایک حیرت انگیز کارنامہ انجام دیا ہے۔‘‘
’’حیرت انگیز کارنامہ؟‘‘
’’آپ نے ایک شخص کی لیاقت تسلیم کر لی اُسے اس کی قابلیت کا ثمرہ دے دیا۔‘‘
’’ہا ہا ہا …‘‘ یکایک افسر کے منہ سے قہقہوں کا فوّارہ اُبل پڑا۔
’’آپ ہنس رہے ہے؟‘‘ ادارۂ حیرت کے کارکن اسے اِس طرح دیکھنے لگے جیسے کوئی ایک اور اعجوبہ ان کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا ہو۔
’’ہنسوں نہیں تو کیا کرو صاحب؟ ’’مشکل سے افسر نے اپنی ہنسی کو روکا۔
’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا؟‘‘ منیجر کی حیرانی اور بڑھ گئی۔
’’جناب! اس قابل شخص کا انتخاب اس لیے نہیں ہوا کہ وہ قابل تھا؟‘‘
’’پھر؟‘‘
’’در اصل ہما پنے سابقہ عمل سے اوب چکے تھے۔ یہ تبدیلی ویسی ہی ہے جیسے ہم اپنے پر تکلف دسترخوان پر کبھی چٹنی روٹی کی فرمائش کر بیٹھتے ہیں۔‘‘
ادارۂ حیرت کے منیجر اور اس کے کارکنوں کی پھیلی ہوئی آنکھیں ایکدم سے سکڑ گئیں جیسے یکایک کوئی نشتر چبھو کر ان کے دیدوں کے اندر سے ڈلے نکال لیے گئے ہوں۔
—————
ایک دن اس کے کانوں نے اپنی بیوی کے منہ سے سنا۔
’’مجھ سے اب اور سہا نہیں جاتا۔ مجھے میکے پہنچا دیجیے۔ حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو میں آ جاؤں گی۔‘‘
اسے محسوس ہوا جیسے اس کان میں پگھلا ہوا سیسہ کسی نے انڈیل دیا ہو۔
اس کی قہر آلود نگاہیں بیوی کے چہرے پر مرکوز ہو گئیں۔
بیوی کی ویران آنکھوں کی بے چارگی اور زرد چہرے کی بے رونقی کے باوجود اس کے جی میں آیا کہ وہ اسی وقت اسے اپنی دہلیز سے باہر نکال دے۔
مگر عین اسی وقت بیوی کی آنکھوں میں اس کا اپنا اصلی چہرہ دِکھ گیا۔ اس کاوجو سمت کر صفر ہو گیا تھا۔
اور وہ صفر بیوی کی پتلیوں پر ٹکا تھا۔
جو ذرا سی جنبش سے بے وقعت آنسوؤں کی طرح ٹپک سکتا تھا۔
وہ اپنے وجود کی بے وقعتی
حالات کی بے رحمی
اور سیسے کی گرمی
کو سہہ گیا۔
—————
ایک دن کسی رسالے میں اس نے ایک نظم پڑھی ؎
اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے ڈگریاں
ان کے چہروں پر کتنی تھیں شادابیاں
اور آنکھوں میں کیسی چمک تھی مگر
آج چہروں کی رونق لٹائے ہوئے
اور آنکھوں میں ویرانیوں کا سمندر لیے
دوڑتے پھر رہے ہیں اِدھر سے اُدھر
راستے میں کبھی یہ تمنا
کہ رکشے کی ہینڈل پکڑ لیں
کبھی خوانچوں کو سروں پر اُٹھا کر
مکانوں میں پھیری لگانے کی خواہش
کبھی آرزو
شوٗ برش، بوٗٹ پالش لیے بیٹھ جائیں
مگر کیا کریں
ہاتھ میں ڈگریاں؟
اس کی نگاہیں اپنی ڈگریوں کی فائل پر پہنچ گئیں۔ کچھ دیر بعد وہاں اس کا ہاتھ بھی جا پہنچا۔ الماری سے اس نے فائل نکال لیے۔ اس کی آنکھیں ڈگریوں کی دلکش تحریروں پر مرکوز ہو گئیں۔
چند لمحے بعد نظم کا آخری مصرع کانوں میں گونجنے لگا۔
دیر تک وہ ڈگریوں کو دیکھتا اور مصرع کی گونج کو سنتا رہا
پھر یکایک بستر سے اٹھ بیٹھا
ہاتھ بڑھا کر اس نے میز کے اوپر سے سگریٹ کی ڈبیا اٹھائی۔ ڈبیا سے سگریٹ نکالی اور اسے سلگا کر خلا میں مرغولے اچھالے لگا۔
بہت جلد سگریٹ پھنک گئی۔
اس نے دوسری سلگا لی
دوسری سگریٹ بھی مرغولوں میں تبدیل ہو گئی۔
دوسری کے بعد تیسری جل اٹھی
تیسری سگریٹ کا اس نے ایک لمبا سا کش لیا اور سگریٹ کو زمین پر پھینک کر پیر سے مسل ڈالا۔
اور تیزی سے لائٹر جلا کر اس کی لَو پر ڈگریوں کا پلندہ رکھ دیا۔
ڈگریاں سلگنے لگیں۔
دھواں اٹھنے لگا۔
دل کے کسی گوشے سے آواز اُبھری ؎
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
—————
جس زمانے میں وہ کاروبار کرتا تھا، ایک بار اس نے ہوائی چپّلوں کا دھندا شروع کیا۔ چالیس پچاس جوڑی چپلیں لکڑی کے ایک ٹھیلے میں لاد کر شہر لے جاتا اور ایک نکڑ پر آوازیں لگا لگا کر انھیں بیچنے کی کوشش کرتا۔ رات کے سات آٹھ بجے تک پاچ سات جوڑی چپلیں بِک جاتیں اور ان سے اتنی رقم ہاتھ آ جاتی کہ کسی طرح گرہستی کی گاڑی کھِنچ جاتی مگر ایک دن کارپوریشن کے کارندے آ کر اس کا ٹھیلہ الٹ گئے۔ احتجاج کرنے پر اس کی پٹائی بھی کی۔ ٹھیلے کو توڑ پھوڑ ڈالا اور تمام اچھی چپلیں اٹھا لے گئے۔ باقی چپلیں اس نے غصے میں خود پھینک دیں۔
وہ رو پیٹ کر تھکا ہارا جھنجھلایا ہوا گھر پہنچا۔ بچے اس کے پاس آ کر چہکتے ہوئے بولے :
’’پاپا! پاپا! آج کوئی کہانی سنائیے نا؟‘‘
اس نے تڑا تڑا بچوں کے گالوں پر تھپڑ جڑ دیے۔ بچے ہکّا بکّا ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگے۔
’’کم بختو! یہاں سارا کچھ لٹ گیا اور تمہیں کہانی سوجھ رہی ہے۔ بھاگ جاؤ اپنی منحوس صورت لے کر ورنہ ایک لات بھی جما دوں گا۔‘‘
بچے باپ کا تھپڑ اور ڈانٹ کھا کر بھاگنے کے بجائے وہیں اپنا منہ لٹکائے پڑے رہے۔ شاید وہ اپنے باپ کے غصے کی گرمی کو پوری طرح اپنے گالوں میں جذب کر لینا چاہتے تھے۔ کچھ دیر بعد بچوں کو گھورتے ہوئے وہ پھر بولا،
’’کمبخت جاتے کیوں نہیں؟ جاؤ! جا کر اپنی ماں سے سنو۔‘‘
’’وہ تو اور بھی ڈانٹتی ہیں۔ کہتی ہیں حرام کے جنو! کرم جلو! تمہارے اس جہنم کو بھرنے کے لیے چولہے میں گھسوں، آگ میں جلوں یا تمہیں کہانی سناؤں۔‘‘ سب سے چھوٹے بچے نے اپنی رونی آواز میں ماں کے جملے جو بار بار کانوں میں پڑنے سے ازبر ہو گئے تھے، دہرا دیے۔ اس کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہو گیا تھا، لہجے کی سختی میں کمی لاتے ہوئے بولا،
’’تو دادی سے کیوں نہیں سنتے؟‘‘
’’دادی تو سناتی کم ہیں کھانستی زیادہ ہیں۔ اور ان کی کھائیں کھائیں سے کہانی بھی ان کے سوکھے بلغم کی طرح دیر تک ان کے گلے میں پھنسی رہ جاتی ہے۔ بالکل مزا نہیں آتا۔‘‘
بچوں کی کہانی سننے کی خواہش۔ ان کے گالوں پر پڑے تھپڑ، اپنی جھنجھلاہٹ، بیوی کی جلی کٹی باتوں اور ماں کی کھانسی پر جب اس نے ٹھنڈے دماغ سے غور کیا تو اس کے کانوں میں کہانی کی بہت ساری فرمائشیں ایک ساتھ گونجنے لگیں۔ سماعت کو چیرنے والا جھلاہٹوں سے بھرا ڈانٹ ڈپٹ کا شور بھی سنائی دینے لگا۔ رہ رہ کر بہت ساری دادیوں کی کھائیں کھائیں بھی ابھرنے لگی۔
اس نے سر اٹھا کر بچوں کی طرف دیکھا،
بچے مجرموں کی طرح سر جھکائے بیٹھے تھے۔ ان کے نازک گالوں پر اس کی سخت کھردری انگلیوں کے نشان صاف دکھائی دے رہے تھے۔ نشان اس کی آنکھوں میں کسی نکیلی شئے کی طرح چبھنے لگے۔ رگوں میں درد کی لہر اتر گئی۔
’’سوری بچو! مجھے معاف کر دو۔ آج میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ کہانی میں کسی اور دن سنا دوں گا۔‘‘
باب کے نرم لہجے سے نکلی محبت بھری گرمی سے بچوں کے چہروں کی اداسی پگھل کر بہہ گئی۔ ان کا بوجھل من ہلکا ہو گیا۔ وہ چہکتے ہوئے چلے گئے۔
اس کی سوچ کہانی کی طرف مڑ گئی۔
کہانی جس کی ہر گھر کو ضرورت تھی۔
کہانی جو چولھے میں جلس رہی تھی،
کہانی جو بلغموں کے سنگ گلے میں پھنسی پڑی تھی
کہانی جو ٹھیلے کے ساتھ الٹ گئی تھی
الٹے ہوئے ٹھیلے سے ٹکرا کر سوچ کا رخ کاروبار کی جانب بھی مڑنے لگا۔
دھیرے دھیرے اب اس کی سوچ کے دائرے میں
کہانی اور کاروبار دونوں سمٹ آئے۔
اس کے کاروباری دماغ نے دونوں کے ڈانڈے ملا دیے۔ اس نے فَٹا فَٹ نفع نقصان کا لیکھا جوکھا بھی رکھ دیا۔
اگر روز ایک کہانی ایک گھنٹے تک چار محلوں کے بچوں کو ان کی فرصت کے اوقات میں سنائی جائے اور فی الحال ہر ایک محلے سے پندرہ بیس بچے بھی جمع ہو جائیں اور کہانی سننے کی فیس فی بچہ پچاس پیسے لے لی جائے تو روزانہ تیس چالیس روپیوں کی آمدنی ہو سکتی ہے۔
دماغ کے حساب و کتاب کے مطابق یہ ایک ایسا دھندا تھا جس سے کم وقت میں معقول آمدنی حاصل کی جا سکتی تھی اور اس کے لیے ٹھوس قسم کی پونجی کی بھی ضرورت نہیں تھی۔ اس کاروبار کو آگ کی لپٹوں اور کارپوریشن کے کارندوں سے خطرہ بھی نہیں تھا۔ اس کے لیے یہ کاروبار، یوں بھی آسان تھا کہ وہ کہانی کے ہنر سے واقف تھا اور کبھی کبھار کہانیاں لکھ کر چھپوایا بھی کرتا تھا۔
اس نے طے کر لیا کہ وہ یہ دھندا ضرور شروع کرے گا کہ اس کے لیے یہ بہت ہی مناسب اور ہر طرح سے سود مند تھا۔
طے کرتے ہی اس نے اپنے حافظے کی طرف دھیان دیا مگر اس کے حافظے میں ایسی کوئی بھی کہانی موجود نہیں تھی جسے وہ بچوں کو سنا پاتا۔ اس نے اپنی لکھی ہوئی کہانیوں پر نظر دوڑائی تو وہاں بھی کوئی کہانی دکھائی نہ دی۔ وہ ساری کہانیاں پڑھے لکھے لوگوں کے لیے لکھی گئی تھیں جن کی باتیں گاڑی، پیچیدہ اور فلسفیانہ اور زبانی ادق علمی اور مفکرانہ تھیں۔
اب اسے اندازہ ہوا کہ کہانی سنانے کا یہ دھندا اتنا آسان نہیں جتنا کہ اس نے سوچ لیا تھا۔ مگر اس کے لیے اتنا مشکل بھی نہیں تھا کہ وہ ہمت ہار جاتا۔
اس نے اسے ایک چیلنج کے طور پر قبول کیا اور اسے عملی روپ دینے میں وہ دل و جان سے جُٹ گیا۔
پہلے اس نے بچوں کو پڑھا۔ ان کے دماغوں میں گھس کر ان کی ذہنی سطح کا مطالعہ کیا۔ ان کی پسند اور ناپسند کا پتہ لگایا۔ ان کی دلچسپیوں کو جانا۔ ان کی زبان کو سمجھا۔
اس کے بعد اپنے شعور اور تحت الشعور میں موجود مشاہدات، معلومات، تجربات، واقعات و حادثات اور طرح طرح کے مواد کو یکجا کر کے ان پر نئے سرے سے غور کیا۔ اپنے احساس کو جگایا۔ تخئیل کو ایڑ لگائی اور ان سب کی مدد سے کہانیاں بنانے بیٹھ گیا۔
مختلف طرح کے موضوعات کی آمیزش، احساس کی تیزی اور تخئیل کی رنگ آمیزی سے کہانی کے خاکے بننے لگے۔
خاکوں کے خوبصورت جوڑ سے کچھ کہانیاں بن گئیں تو اس نے کاغذ کا ایک بھونپو بھی بنایا اور اسے منہ سے لگا کر آوازیں لگاتا ہوا محلّوں کی طرف نکل پڑا۔
اس کے کاروباری دماغ کا حساب بالکل صحیح نکلا۔ پہلے روز ہی تقریباً چالیس بیالیس روپے ہاتھ آ گئے۔
بچوں نے بڑی دلچسپی اور نہایت انہماک سے کہانی سنی۔ خوشی خوشی فیس ادا کی اور اس سے درخواست بھی کی کہ وہ روز انھیں نئی نئی کہانیاں سنایا کرے۔
اُس دن کے بعد اس نے چاروں محلّوں کے اوقات مقرر کر لیے اور وقت مقر رہ پر ہر ایک محلّے میں بچوں کا مجمع لگا کر انھیں کہانیاں سنانا شروع کر دیا۔
٭٭