انسان روز اول سے ہی اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور جلد باز اور حالات کے پہئیے کی گردش کو سہنے سے قاصر رہا
اسے نہ جنت راس آئی اور نہ ہی زمین میں سکون پاسکا ۔
جو اسے مل جاۓ اس میں سے انگنت عیب نکالتا ہے اور جو اس سے بچھڑ جاۓ تو جہاں بھر میں واویلا کرتا ہے کے مجھے بچھڑ جانے والے کی جدائی نے جیتے جی مارڈالا ۔
بارش نہ ہو تو الٹے ہاتھوں سے برسات کی دعائیں مانگتا ہے کے الہٰی مینہ برسا دے اور اگر لگاتار دو دن بارش برسے تو چلا اُٹھتا ہے
غضب ہوگیا
قیامت آگئ
اللہ اپنی مخلوق سے ناراض ہوگیا
بس توبہ کر لو طوفان نوح آیا کے آیا
ہاۓ ہاۓ ہاۓ
ہم اب کہیں کے نہیں رہے
یہ بارش نہیں قہرخدا ہے
یہ ہمیں تباہ کرکے ہی رہے گی!!!
عمر بھر اولاد مانگتا رہتا ہے
کوئی درگاہ کوئی پیر فقیر،کوئی ٹونا ٹوٹکا
ڈاکٹر حکیم یہ نہیں چھوڑتا جہاں جہاں اسکی پہنچ ہوسکتی ہے وہاں وہاں یہ اولاد کے حصول
مگر جب خداۓ ذولجلال اسے اولاد جیسی نعمت سے نوازتا ہے تو بسااوقات اسی اولاد کو جھولی تان تان کر بددعائیں دیتا ہوا بھی دکھائی دیتا ہے
کیلئے حاضری لازمی لگاتا ہے ۔
سردیوں میں گرمیوں کو ترستا ہے اور گرمیوں میں سردیوں کو آہیں بھر بھر کے یاد کرتا ہے
اسی طرح خوشی اور آرائش کے زمانے میں احساس تشکر سے بیگانہ ہوکر اپنے کمالات بنرمندی انتھک محنتوں کے راگ الاپتا ہے ۔
اور اگر معمولی سا رنج پیش آجائے تو سارے الزام تقدیر کو دے کر
موت کا طلبگار ٹھہرتا ہے ۔
سچ تو یہ ہے قارین!
یہ مٹی کا پتلا کسی حال میں خوش نہیں
میری پوری داستاں پہ نظر دوڑائیں قارین!
مانا میری ماں میرے بچپن میں ہی مجھ سے جدا ہوگئی ۔
یوں میراباپ بھی میری نگہبانی نہ کر سکا ۔
میں بوری میں بند ہوا تو
وہ کون سی ذات تھی جس نے مجھے بوری سے نکال کر پالا جوان کیا
پھر مخطلف حالات سے گزار کر
اس وقت پھر سے ایک خاندان کا سربراہ بنا دیا؟؟؟؟
قارین یہ معض اللہ کی ذات ہے جو اپنے گنہگار سے گنہگار بندے سے بھی ستر ماؤں سے بڑھ کر محبت کرتا ہے
کاش ہم چھوٹی موٹی تکالیف کو بھولا کر اس قادرمطلق کے انگنت احسانات کے معترف اور شکر گزار بن جائیں ۔
میرے متحلق میرے نئیے خاندان نے حتمی فیصلہ بلآخر کر لیا
میری شادی سانولی کے ساتھ طے کردی گئی ۔
رواں سال کے ماہ جولائی کو میری شادی کی تاریخ رکھ دی گئی ۔
میں دلی طور پہ شادی کیلئے بلکل رضامند نہیں تھا مگر ساجد!
اسکے پختہ دلائل کے آگے میری ایک نہ چل سکی
میراکہنا تھا
میری عمر پچاس برس سے زائد ہوچکی ہے دل کا مریض ہوں ۔
بلا وجہ نیا تجربہ نہیں کرسکتا اپنا بوجھ اُٹھانے سے قاصر ہوں ساتھ دوسری زندگی کو کیسے سنبھالوں گا ۔
ساجد نے دوٹوک الفاظ میں میری راہنمائی کی
بھائی جان!
اگر جوانی میں آپکی شادی ہوجاتی توکیا آج آپ اپنی شریک حیات کو اپنی زندگی سے نکال دیتے
جاؤ اب میری زندگی سے نکل جاؤ اب میں پچاس برس سے اوپر ہوگیا ہوں؟؟؟
کیا آپ اپنا یا کسی دوسرے بوجھ اُٹھا سکتے ہیں جنھیں خود کسی نے بوری سے نکال کر نیا جیون بخشا ہے؟
اور بھائی جان:آپ کا تو مجھے کوئی علم نہیں آیا آپ نے کیوں شادی نہیں کی
مگر سانولی جس نے علی الاعلان کہ دیا تھا جسے میں نے چاہا،سوچا،وہ میری زندگی میں آ نہیں سکا مگر اب اسی کی یاد میں زندگی گزار دونگی مگر شادی کسی اور سے ہر گز نہیں کرونگی ۔
اور اس نے اس پہ عمل بھی کردکھایا
لہذا اب آپ دونوں کو رب کریم نے موقع عطا فرمایا ہے تو ایک دوسرے کا سہارا بن کر اس ذات باری کا شکر ادا کریں!!!
میری اور سانولی کی شادی کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہوچکی تھیں ۔
نیا مکان خالی پڑا ہوا تھا
ساجد نے شادی کی تقریب کیلئے اسی مکان کو سجوا دیا تھا ۔
ماں جی نے باپو کا صندوق اپنے قبضے میں لے رکھا تھا!
انکا کہنا تھا
دولہے اور دُلہن کو اسی لباس سے جایا جاۓ گا جو راکھے کے باپو نے برسوں قبل بڑے شوق سے خریدا تھا
البتہ ماں جی نے اپنی بھانجی
سانولی کا مکمل جہیز خرید لیا تھا ۔
ایک رات ساجد اپنے ہمراہ کچھ سامان لایا ایک عدد پلاسٹک کے لفافے میں
سب گھر والوں کو جمع کرکے بولا
دیکھو جی آپ لوگوں نے دونوں مکانوں کو رنگ روغن کر کے تاج محل بنا دیا!
مگر ان دونوں کے بارے میں مت کسی نے سوچا کے مکان سے بھی زیادہ انکا رنگ روغن اڑا ہوا ہے!
وہ لفافے سے دو عدد مخطلف ہیئر کلر کا مکمل سامان نکا کر اپنا ماتھا علامتی طور پہ پیٹ کر ہولا
ہاۓ ہاۓ ہاۓ!
میں اگر مر گیا تو کیا بنے گا ان بیچاروں کا؟
وہ ان کے پرچے نکال کر کرن سے بولا
ادھر آ اسکی ترکیب استعمال پڑھ
تاکہ دولہا اور دلہن کو چونا کیا جاۓ
یوں ہنسی مذاق کے دوران ہی ہمارے بالوں کو ایک بار پھر سے ہیئر کلر کے ذریعے اپنی سابقہ حالت میں لایا گیا ۔
ہر طرف چہل پہل خوشیاں ہی خوشیاں تھیں!
مگر میری آنکھیں مسلسل برس رہی تھیں ۔ چونکہ آج رات مہندی کی رسم ہونی تھی
مجھے ہر لمعے ہروقت باپو کی باتیں باپو کی یادیں آرہی تھیں
باپو کا چہرہ لمعہ بھر کیلئے بھی میری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہورہا تھا
وہ بار بار اسی طرح
محلے والوں کو دولہا دلہن کے لباس دکھاتا ہوا نظر آرہا تھا
ادھر جوں جوں شام پھیل رہی تھی میرے اوپر غموں کے پہاڑ ٹوٹتے چلے جارہے تھے
اب تو مجھے اچھی طرح سے احساس ہوچکا تھا کے میں یہ مہندی کی رسم اور دولہے کا روپ دھارنے کا متحمل ہر گز نہیں ہوں
جونکہ اب میرا جسم لاغر اور بیجان سا ہوتا چلا جا رہا تھا ۔
ہماری کشادہ اور پُرفضا گلی کو خوبصورت جھنڈیوں اور برقی قمقموں سے دلہن کی ماند سجا یا گیا تھا
مغرب کے وقت ساجد بینڈ باجے والوں کو ہمراہ لایا
گھر میں ہم سب کو مخاطب کر کے بولا میں ریلوے اسٹیشن جارہا ہوں
وہاں میرے کچھ مہمان شادی میں شرکت کیلئے آرہے ہیں
اس نے چند نوجوانوں کی ڈیوٹی باہر میں روڈ پہ لگا دی جونہی میں ان مہمانوں کو اسٹیشن سے رسیوو کرکے باہر پہنچوں تو آپ بینڈ والوں کو باہر لے آۓ گا
میرے مہمان بہت خاص ہیں انہیں شہنائی کی گھونج میں اندر گلی میں لانا ہے
اور یاد رہے ہمارے پہنچنے سے پہلے آپ نے کوئ رسم ادا نہیں کرنی ۔
مہمان پہنچیں گے تب جا کر ساری رسمیں شروع ہوجائیں گی ۔
ساجد چلا گیا ۔
ہماری گلی میں زمانے بھر کے رنگ سمٹ کر آچکے تھے ساجد نے بھی ہر ایک تک دوعوت نامہ پہچا دیا تھا
اسکے علاوہ ڈاکٹر کرن ڈاکٹر ثمینہ ڈاکٹر خالد کی دور دور تک شہرت تھی اور کون ہوتا جو انکے بڑے بھائی کی شادی میں شرکت نہ کرتا
شادی کی تقریب کیلئے نیئے مکان کی دونوں منزلیں بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیشہ ور دستکاروں کی مدد سے سجائی گیئں تھیں
جس مکان میں ہماری رہائش تھی اسے بھی مکمل طور پہ سجایا گیا تھا
اس وقت رات کے دس بج چکے تھے ہر طرف گھماگھمی تھی
اسی دوران انتظار پہ مامور نوجوان بھاگتے ہوۓ گلی میں آۓ اور بینڈ باجے والوں کو ساتھ لیکر بھنگڑے ڈالتے ہوۓ باہر مین روڈ پر لے گئے
مجھے سانولی ماں جی خالد کرن اور ثمینہ کو آرڈر آیا تھا کے آپ مکان کے دروازے پہ مہمانوں کے اسقبال کیلئے کھڑے ہوجائیں ۔
ہم بھی حکم کی تعمیل کرتے ہوۓ
مقصوص جگہ پہ کھڑے ہوگیئے
کچھ ہی دیر بعد
مہمان شہنائی کی گھونج میں روشنیوں اور رنگوں سے جکمگاتی ہوئی گلی میں داخل ہوگیئے
او ل بھنگڑے ڈالتے خوشیاں مناتے مقامی نوجوان اور بچے کنات کے پیچھے سے نمودار ہوۓ پھر
اسمعٰیل بھائی،اکبر بھائی،نشو بھابھی انکی تین بہنیں یہ سب لوگ چلتے ہوۓ ہماری سمت آنے لگے
اگلے ہی لمعے جو کچھ میری نظروں نے دیکھا!
قارین! اس نے ایک بار پھر میرے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب کردیں میں دونوں ہاتھوں سے سینہ تھام کر دائیں بائیں لڑکھڑا رہا تھا نہیں معلوم کس سمت گرنا میرا مقدر تھا
چونکہ میں دیکھ رہا تھا
میرا باپو میرا باپو میرا باپو
منشی جی ایک دوسرے کے کاندھوں پہ بازو ڈالے آپس میں خوش گپیاں کرتے ہوۓ ہنستے مسکراتے دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہے تھے جبکہ ساجد مسلسل میری طرف دیکھتا مسکراتا ہوا میری جانب بڑھ رہا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اس میں کوئی شک نہیں ایک دل کے مریض کیلئے اچانک اتنی بڑی خوشی جان لیوا تھی مگر میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کے میں حقیقت میں اپنے باپو کو دیکھ رہا تھا یا کوئی سپنا تھا
چونکہ ہمیشہ میرے سپنوں میں مجھے باپو کسی نئیے روپ میں ملا کرتا تھا!!!!
باپو کی نظر جونہی میرے اوپر پڑی
اپنے جذبات پہ قابو نہ رکھ سکا
شاید اسکی سانس اچانک رک گئی تھی
وہ اپنی بانہیں پھیلاۓ
میری طرف بھاگ کر آنے کی کوشش کر رہا تھا مگر قدم اسکا ساتھ نہیں دے رہے تھے
اور
حیرت انگیز بات یہ قارین:
باپو آج بھی بلکل ویسا ہی تھا جیسا میں اسے چھوڑ کر آیا تھا
شاید زمانے بھر کے ستم غم آلام اسے پتھر بناکے چل دیے تھے
ادھر باپو اپنے جذبات پہ قابو نہ رکھ سکا
ادھر میں بھی ہوش سے بیگانہ ہوگیا!!!
بقول اہل تماشہ کے
میں چیختا چلاتا دیوانہ وار بھاگتا دوڑتا
جاکر باپو سے لپٹ گیا
عالم دیوانگی میں مجھ سے جو ہوسکتا تھا کر گزرا
اپنے باپو کے بونسے لیئے
ااسے تھپڑوں سے مارا
دانتوں سے کاٹا
میرے ہاتھ اسکے گلے پہ جم گیۓ
میں نے پتہ نہیں کیا کچھ بکتے ہوۓ
باپو کا گلا دبا لیا
سب چھوڑاتے رہے مگر مجھے کچھ ہوش نہیں
مجھے اس وقت ہوش آیا جب میرا گلا اکبر بھائی کے مضبوط ہاتھوں میں تھا
باپو نیچے زمین پہ پڑا بری طرح ہانپ رہا تھا جبکہ میں اسکے سینے پہ نوابوں کی طرح چوڑا ہو کر بیٹھا ہوا تھا
میری باچھوں سے خون رس رہا تھا
جوکہ وہاں موجود ہوشمندوں کے تھپڑوں کے نتیجے سے بہ نکلا تھا
مجھے جونہی عقل لوٹی فوراً باپو کے قدموں سے لپٹ کر زندگی بھر کے ارمان اتار کر رویا ۔
باپو!
یہ کیسا کھلواڑ کیا رے تو نے مجھ سے؟
باپو!
میرے باپو ارے مجھے زہر دے کے مار دیتا میرا گلا کاٹ دیتا!
مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔باپو اپنی موت کی جھوٹی خبر دے کر مجھے ہرروز مارتا اور زندہ تو نہ کرتا!
باپو اگر میں تجھے اتنا ہی ناپسند تھا تو تُونے مجھے بوری سے ہی کیوں نکالا تھا؟
مرجانے دیتا نا یار باپو کے بچے!
باپو تو بڑا سنگ دل ہے رے ۔ ۔ ۔ ۔سنگ دل ہے میرے باپو! سنگدل ہے تو!
تُو نے ایک ذرہ بھی نہیں سوچا تیرے راکھے پہ تیری موت کی خبر سن کر کیا گزری ۔ ۔ ۔ ۔ بس زندگی کے نام پہ معض سانس لیتا رہا بدنصیب!
بہت دکھ دیے تُونے مجھے باپو بہت دکھ!
اب ساجد چلتا ہوا میرے پاس آیا
مجھے باپو کے پاؤں سے جدا کرکے بولا!
بھائی جان بس بس اب جانے دیں ۔
وہ مجھے بچوں کی طرح چُومکاتے ہوۓ بولا ۔
بھائی جان اب خوش ہوجائیں!
اب باپو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں گے
اب آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے
اُٹھو بھائی جان اُٹھیں اندر چلتے ہیں ۔
دیکھیں نا!
باپو کتنا لمبا سفر کرکے یہاں پہنچے ہیں
سخت تھکے ہوۓ ہیں
لوگ بھی بلاوجہ تماشا دیکھ رہے ہیں
چلیں اُٹھیں باقی باتیں اندر چل کر ہونگی
ساجد مجھے سہارا دے کر کھڑا کرنے لگا تھا
میں نے دوبارہ پلٹ کر باپو کے جوتے ہٹا کر اسکے ننگے پاؤں کا بونسہ لیا انہیں آنکھوں سے لگا یا
پھر اسے سہارا دے کر کھڑا کیا ۔
اپنے دل کی بھڑاس بھرپور نکالنے کے بعد اب میں بھی بڑی حد تک سنبھل چکا تھا ۔
میں اپنے گاؤں سے آۓ ہوۓ تمام احباب سے بڑی گرمجوشی سے ملا
نشو بھابھی بھی اب عمر رسیدہ ہوچکی تھی
اس نے اسی ممتا سے مجھے چھاتی سے لگایا جس سے اس نے میری پرورش کی تھی جذبات سے اسکی آنکھیں بھی چھم چھم برس رہی تھیں ۔
میں نے بھابھی سے پوچھا بھابھی
میری وہ چھوٹی چھوٹی بہنیں نظر نہیں آرہیں جنھیں میں اور سانولی بانٹ بانٹ کر گود سلایا کرتے تھے؟
بھابھی ایک بھرپور قہقہ لگا کر بولیں!
اب تم اور سانولی پھر تیار ہو جاؤ اُن دونوں کے بچوں کو باری باری سلانے کے لئیے!
میں نے حیرت سے پوچھا کیا مطلب؟ بھابھی انکے بچے؟
بھابھی سرجھٹک کر بولیں ہاں جی
ماشاءاللہ دونوں بال بچے دار ہیں ۔
ہم تمام لوگ سابقہ مکان میں پہنچ گئیے
یہ مکان صرف گاؤں سے آنے والے مہمانوں کیلئے مقصوص کر رکھا تھا
تمام لوگوں کو آرام دہ صوفوں پہ بٹھا کرٹھنڈے مشروبات پلاۓ جارہے تھے
کچھ دیر سستانے کے بعد منشی جی جوکے عمر کے لحاظ سے باپو کے ہم عمر تھے مگر وہ باپو کے مقابلے میں کئی گنا ضعیف ہو چکے تھے
مجھے مخاطب کرتے ہوۓ بولے
بیٹا راکھے!
معاف کرنا پتر جی ہم نے تم سے جھوٹ بولا
اور اس میں بخدا تیرے باپو کا کوئ قصور نہیں تھا بلکہ وہ مان ہی نہیں رہا تھا کے تجھے اس طرح گمراہ کرنے کیلئے
یہ سب پلان میرا تھا اور میں نے بڑی مشکل سے اسے راضی کیا ۔
ہوا یوں کے جن دنوں تم سوئی گیس کے محکمے میں کام کرتے تھے انہی دنوں میں وڈیروں کے کچھ غنڈے مجھے بردستی ا پنے ساتھ لانڈھی لے گئیے وہ مجھ سے تیرا پتہ پوچھنے لگے ۔
انکے ارادوں سے صاف ظاہر ہوتا تھا وڈیروں نے تیری موت کے پروانے جاری کردیے ہیں ۔
میں نے بھی ان مشکل لمحات میں بڑی عقلمندی سے کام لیا میں نے ہر گز انکار نہیں کیا کے میری تم سے ملاقات ہے یا نہیں ۔
مجھے یقین تھا انہیں پکی خبر ہے کے راکھے کو منشی کی پشت پناہی حاصل ہے ۔
بلکہ میں نے ان کے سامنے چال چلتے ہوۓ ہاتھ جوڑ کر کہا
بھائیو بھلا ہوگا آپ لوگوں کا اگر اس زانی بدمعاش سے میرا پیچھا چھوڑا دیں
میں تو کہتا ہوں وڈیروں نے غلطی کی جب اس نیچ ذات کو رنگے ہاتھوں پکڑ ہی لیا تھا تو جگہ پہ سنگسار کر دینا چاہئے تھا ۔
پتہ نہیں کیا گندگی کرم دین نے اپنی گود میں سمیت لی تھی!
وہ ادھر ہی کراچی میں
آپ ہی بتائیں میں غریب بیچارہ اپنے بچوں کا رزق تلاش کر رہا ہوں اوپر سے وہ قماش بھی میرا بن بلایا مہمان بن کے ہر تیسرے روز کہیں نہ کہیں سے آٹپکتا ہے
بھلا ہوگا صاحبو اس سے کم ازکم میری جان تو چھوٹ جاۓ گی نا!
وہ بولے ۔ اگر اس سے اتنے تنگ ہو تو اسکا پتہ کیوں نہیں پتاتے؟
ٹکا دیں اُس حرامی کو تمھاری جان بھی چھوٹے اور ہماری گردن سے بھی تلوار اترے!
میں نے انہیں ایک اور جھوٹی کہانی سنائی ۔
کچھ روز پہلے ہمارے کمروں سے مخطلف لوگوں کی مخطلف اشیاء اور رقمیں چوری ہوئیں اس رات باہر سے ایک وہی آیا تھا ۔
اسی صبح وہ ہمیں بنا بتاۓ گیا پھر تاحال واپس نہیں آیا ۔
وقتی تو اُن لوگوں نے مجھے چھوڑ دیا مگر مجھ پہ اور تجھ پہ نظر رکھنے کیلئے انہوں نے اپنا ایک عدد جاسوس کسی بہانے پارٹنر بنا کر ہمارے مکان میں گھسا دیا جسکی اطلاع فوراً میرے کسی خیرخوا نے مجھے دے دی تھی ۔
میں نے اپنے تمام ساتھ رہنے والوں کو اس جھوٹی چوری اور تمہارے متحلق سمجھا دیا یوں جاسوس کے سامنے میرا بھرم رہ گیا
کچھ روز بعد مجھے ڈیوٹی کے دوران خبر ملی کے کورنگی کے علاقے سے پولیس والوں کو کسی نوجان کی گولیوں سے چھلنی لاش ملی ہے مگر پہچان نہیں ہو رہی
میں بغیر وقت ضائع کیۓ تھانے پہنچ گیا
تھانے والوں کو ایک فرضی بھائی کا فرضی نام لکھوا کر رپورٹ درج کروانے لگا کے پچھلے تین دن سے کیش کے ہمراہ غائب ہے
پولیس والوں کی جان میں جان آگئ
وہ فوراً تمام کے تمام میرے پاس جمع ہوگۓ
معمولی پوچھ گچھ کے بعد بولے
ہمیں بھی کورنگی کے علاقے سے ایک لاش ملی ہے رپورٹ درج کروانے سے پہلے اگر تم اسکی شناخت کر لو ۔
میں بڑی بے تابی سے انکے ساتھ مردہ خانے جاکر لاش کو دیکھتے ہی پہچان لیا
اور جس حد تک ہوسکتی تھی ادا کاری کی رو رو کے آدھا نہیں رہا
چونکہ جاسوس کو تسلی دینی تھی لہذا اسکے کفن دفن کا خرچہ اپنے سر لینے پڑا
مکان پہ موجود تمام لوگوں کو مطلاع کیا راکھا مارا گیا ہے میں کورنگی تھانے کے مردہ خانے میں موجود ہوں فوراً میری مدد کو پہنچو
جنازے میں مخبر سمیت درپردہ وڈیروں کے منتخب شدہ قاتل بھی شامل ہوۓ
یوں یہ رسم بھی اپنے اختتام کو پہنچی ۔
پھر اس روز سے وہ ہمارا پاٹنر کرائیدار بھی کہیں غائب ہو گیا
میں اس مہنگے ترین منصوبے کو پاۓ تکمیل پہنچانے کے بعد سب سے پہلے تمہارے پاس لکشمی پہنچا تمہیں اپنی طرف آنے سے روکا مگر میں جانتا تھا کسی نہ کسی مجبوری کے پیش نظر تم میرے پاس ضرور آؤ گے دوسرا اب یہ فکر بھی ہوچکی تھی کے اب تمہاری موت کی خبر فوراً حویلی پہنچے گی
جسے سنتے ہی میرا یا کرم الدین برداشت نہ کرتے ہوۓ مرجاۓ گا
میں فوراً گاؤں پہنچا
پہلے اپنے یار کو سارا ماجرا سنایا تمہارے متحلق بھی بتایا کے ٹھیک ٹھاک ہے میں نے چپکے سے اس پہ نظر رکھی ہوئی ہے ۔
اسکے بعد حویلی والوں کو میں نے خود خبر سنائی جو غالباً مجھ سے پہلے ان تک پہنچ چکی تھی اور مجھے پورا یقین ہے انکے بھجے گئے قاتلوں نے اس قتل کا کارنامہ اپنے نام کروا لیا تھا
یوں وڈیروں نے رسماً بظاہر میرے یار سے بھی ہمدردی ظاہر کی ۔
اسکے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا کے راکھا صرف اور صرف مجھ سے اور اپنے باپو سے ملنے کو ہمیشہ بیتاب رہے گا اور کسی بھی وقت ہم سے ملنے کی غلطی کر بیٹھے گا جو اسکی زندگی کی آخری غلطی ہوگی
لہذا آج سے ہمیں اللہ رکھا کی سلامتی کیلئے اسکی نظر میں مرنا ہوگا
وہ صندوق میں خود گاؤں سے لایا تھا اسمعٰیل کی خدمات حاصل کر کے تجھ تک پہچایا
جس وقت تو اسمعٰیل کے گلے سے لپٹ کر رو رہا تھا میں وہیں باہر موجود تھا ۔
پھر رفتہ رفتہ حویلی کی چوکھٹ سے جنازے اُٹھنے شروع ہو گئیے
اگرچہ حویلی کا زوال اسی روز سے شروع ہوگیا تھا جس روز سے تمہیں جلاوطن کیا گیا تھا تمہارے چند روز بعد ہی کانجو سرکار زہریلی شراب کے نشے میں ایسے سوۓ پھر سنا ہے جہنم میں ہی جاکر انکی آنکھ کھلی باقی سرکاراں بھی ایک دوسرے کا پیچھا کرتے ہوۓ دنیا سے گمشدہ ہوتے چلے گئیے
کچھ عرصہ قبل جنمبد سرکا بھی لاہور کسی ہسپتال میں مردہ پاۓ گۓ بیچاروں کو پتہ نہیں کلمہ بھی نصیب ہوا یا نہیں ۔
کافی عرصے سے تیرا باپو آزاد گھوم رہا تھا تیری بھابھی نشو کی پکی کھاتا رہا
دیکھا نہیں تم نے سرخ لال ہوچکا ہے
منشی جی کی اس بات پہ باپو مونچھوں کو تاؤ چڑھانے لگا
کمرے میں موجود تمام لوگوں کے قہقہے بکھر گۓ
منشی جی پھر سنجیدہ ہو کر بولے
بلاشبہ راکھے پتر!
تو پراسرار بچہ ہے ہمارا
جس نے تجھ سے ہمدردی کی وہ شہنشاہ ہوگیا
اور جس نے دشمنی کی اسے ایسا زوال آیا کے آج اسکا نام و نشان ہی دنیا سے مٹ گیا
منشی جی کے اس جملے پہ ساجد نے تالی بجانے کا آغاز کیا
پھر کیا تھا بڑی دیر تک کمرے کی فضا تالیوں سے گھونجتی رہی
ایک بار پھر مجھ سے گلے ملنے کی رسم شروع ہوگئی
سب باری باری مجھ سے گلے ملے اس دوران مجھ پہ پھولوں کی پتیوں کی برسات جاری رہی
میری شادی میں باپو نے ساجد کی مدد سے تمام ارمان پورے کیۓ
میری شادی کو اڑھائی سال کا عرصہ گزرچکا تھا
ہمارا کھانا پینا ایک ہی جگہ ہوا کرتا تھا
البتہ میں باپو ساجد سانولی میرے والے مکان میں سوتے تھے جبکہ ماں جی اور تینوں ڈاکٹرز پہلے مکان میں ہی سوتے تھے
ساجد کی نسبت منشی جی کی سب سے چھوٹی بیٹی حنا سے طے ہوچکی تھی منشی جی ماشاءاللہ اب گھی مل کے اکیلے مالک تھے کراچی گلبرگ میں انکی اپنی عالی شان کوٹھی تھی
انہوں نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا کے فوت ہوچکے ہیں معض انہیں اور ساجد کو میری حقیقت معلوم تھی
البتہ مجھے سوئی گیس کے محکمے میں سیٹل کر کے وہ خود بھی راتوں رات ملوں کے مالک بن گیۓ
اور بچوں سمیت کراچی شفٹ ہوچکے تھے ۔
میرے باپو کو بھی اللہ نے پوتا دے دیا تھا جواب ہنستا کھیلتا تھا باپو کی جان اب مجھ میں سے نکل کر اپنے پوتے میں اٹکی ہوئی تھی
احرام ۔ میرا بیٹا کبھی ماں جی گود میں ہوتا اور کبھی باپو کی چھاتی پہ ہوتا
میرا باپو شاید وڈیروں نے اسے کام کاج کا سخت عادی کر رکھا تھا کیامجال ایک سیکنڈ کو بھی بیٹھے دن میں کئ کئی چکر کھر سے دوکان کے اور پھر دوکان سے پیدل ہسپتال کے لگاتا
ایک دن میں نے مزاحیہ انداز میں ڈاکٹر خالد سے پوچھا
یار خالد یہ تو بتاؤ تم ڈاکٹر ہو!
کیا وجہ ہے میرا باپو باوجود عمر بھر غم اُٹھانے کے وڈیروں کی مار کھانے کے اور پھر اتنی بڑی عمر ہونے کے اتنا توانا اور پھرتیلا کیوں ہے؟
ڈاکٹر خالد نے بڑی سنجیدگی سے مجھے جواب دیا
بھائی جان!
دراصل جن لوگوں سے انکی مقصوص صلاحتیں پچپن میں ہی بد قصمتی سے چھن جائیں وہ پھر اسی طرح طویل عمر اور صحت پاتے ہیں
اور یقیناً وہ بدبخت جاہل مردہ ضمیر لوگ ایسے بچوں کو محروم کرتے ہیں تاکہ طویل عرصے تک انکی خدمت جاری رکھ سکیں
سانولی نے نیئی امید کے پیش نظر احرام کو ڈیڑھ سال کی عمر میں ہی دودھ چھوڑا دیا تھا
اب باپو نے میری طرح اپنے پوتے کو بھی اپنے پاس سونے کا عادی کر دیا تھا
ایک رات گرمی کی حدت کم کرنے کیلئے سانولی نے احرام کو نہلایا اسے ٹالکم پاؤڈر چھرنک کر مساج کر رہی تھی میں بھی اسی بیڈ پہ سانولی کے ساتھ بیٹھا احرام کے جسم پہ ہاتھ پھیر رہا تھا
باپو سامنے والے بیڈ پہ بیٹھا حقے کے کش لے ریا تھا
سانولی ننگے احرام کو دونوں بازوں سے پکڑ اوپر اُٹھا کر لہراتے ہوۓ بولی۔!!!
چلو جی لے آؤ بوری
اسے ڈال کر دوں اور آپ جا کر کسی گاڑی کی چھت پہ چھوڑ آئیں!
ابھی میری حلق سے قہقہ نکلا ہی نہ تھا
کے باپو نے شدید غصے کے عالم میں زندگی کا پہلا اور آخری تھپڑ اس زور سے میرے منہ پہ مارا کے میرا چہرا دوسری طرف گھوم گیا ۔
میں فرط حیرت میں باپو کے چہرے کی طرف دیکھتے بولا
او باپو مسٹنڈیا!
اندھا ہوگیا ہے کیا؟
میں نے نہیں!
تیری اس بے بے نے کہا
تُونے میرا تھوبڑا ہلا دیا!
اوۓ باپوے
باپو نے احرام کو سانولی کے ہاتھوں سے چھین کر اپنے سینے سے چپکایا ہوا تھا
باپو کی آنکھوں سے آنسو بہہ کر اسکی داڑھی کو بگھو رہے تھے
وہ روتے ہوۓ بڑے دکھ سے بولا
آپ لوگوں نے مذاق نہیں بلکہ میرے سینے میں برچھی اتار دی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !
اس سے آگے باپو تو کچھ نہ کہ خاموشی سے اپنے پوتے کو سینے سے لگاۓ اپنے کمرے میں چلا گیا
البتہ میں سوچتا ہی رہ گیا
اگر ایک منہ بولا باپ اپنی اولاد کی اولاد کے متحلق نہیں سُن سکتا!
پھر سگے باپ کا کیا عالم ہوگا؟؟؟؟
میرا باپ جو کوئی بھی تھا
ضرور میرے فراق میں
تڑپا ہوگا
(اختتام)
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬●
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...