(Last Updated On: )
دوگھنٹوں کے مسلسل دورانیے کے بعد میرے دل کے آپریشن کا مرحلہ کامیابی سے ہمکنار ہوا ۔ الحمدللہ
آپریشن کے بعد مزید پانچ گھنٹے مجھے بیے ہوش رکھا گیا
پھر مجھے جب ہوش میں لایا گیا تو میں نے بغور اپنے چاروں طرف دیکھا میرے منہ پہ آگسیجن پائپ سے جڑا ایک ماسک چڑا ہوا تھا
میری دائیں بائیں دونوں سمت ایک ایک نرس کھڑی ہوئی تھی جنہوں نے اپنے ناک اور منہ پہ ڈیٹول سے بھیگے سبز رنگ کے مقصوص ماسک چڑھا رکھے تھے انکے دونوں ہاتھوں پہ ربڑ کے تنگ دستانے چڑھے ہوئے تھے ۔۔
میں جونہی ہوش میں آیا دونوں نرسیز میرے اوپر جھکیں ۔
انکے ہونٹ ماسک کے پیچھے چھپے ہوۓ تھے البتہ آنکھوں سے اندازہ ہو رہا تھا جیسے مسکرا رہی ہوں
ان میں سے ایک میرے سامنے آتے ہوۓ بولی
سر مبارک ہو آپکا آپریشن کامیاب ہوگیا ہے ۔
اور مزے کی بات بتاؤں سر!
گزشتہ تین برس سے اسی ہاسپٹل کے آپریشن تھیٹر میں بطور نرس ڈیوٹی دے رہی ہوں
آپ کے آپریشن کے دوران جو کرامات دیکھتی آرہی ہوں آج تک ہزاروں مریضوں کا آپریشن میری آنکھوں کے سامنے ہوا آج تک ایسے مناظر نہیں دیکھے
سر آپکے آپریشن کا ہر مرحلہ انتہائی کامیابی سے گرتا رہا
اور اب آپکو ہوش بھی بلکل بروقت آیا
جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا
وہ اپنی کلائی پہ بندھی ہوئی گھڑی کو میرے سامنے کرتے ہوۓ بولی سر ڈاکٹرز کے بتائے ہوۓ وقت پہ ہی آپکو ہوش آیا
سر ہو نہ ہو آپکے پیچھے کوئی انتہائی مخلص ہستی ہے جو آپ کیلئے مسلسل دعا کر رہی ہے ۔
میں زباں سے بول تو نہیں سکتا تھا چونکہ میرے منہ پہ آگسیجن والا ماسک تھا مگر دل ہی دل میں بولا
تم کیا جانو میری بہین؟
اپنے پیچھے ایک باپو ہی تھا دعا کرنے والا جو کم ازکم تیس برس پہلے مجھ سے منہ موڑ چکا تھا
اب کوئی نہیں تھا میری خاطر ہاتھ کھڑا کرنے والا
اگر کچھ تھا تو وہ تیرا وہم تھا تیرا معض گماں تھا ۔
میری چھاتی میں ایک اضافی چھید کرکے ایک نلکی ڈالی گئی تھی جس کے ذریعے سے آپریشن کے دوران رسنے والا مردہ خون مسلسل خارج ہو رہا تھا
ایک نلکی میری ناک سے گزار کر میرے معدے تک پہنچائی گئی تھی
اس وقت وہی نرس جو زیادہ باتیں کر رہی تھی
اس ناک والی نلکی کے ذریعے مجھے لیکوڈ خوراک پہنچارہی تھی ۔
اس مرحلے کے بعد دوسری نرس نے سرنج میں ایک ساتھ دو انجیکشن بھرے پھر سرنج کی سوئی اتار کر میری کلائی کے کنولے کے ذریعے میرے اندر منتقل کیا ۔
وہ دونوں نرسیں میری بائیں جانب کونے میں ایک کاؤنٹر میں جاکر بیٹھ گیئں اور گپوں میں مگن ہوگیئں
یقینا یہ دونوں میری دیکھ بھال پہ مامور کی گئی تھیں اس لیے کہیں آجا نہیں رہی تھیں ۔
اب میرا دماغ سوچنے کے قابل ہوگیا تھا ۔
میں اپنی آنکھیں بند کرکے طویل سوچوں میں گم ہوگیا
میں سوچ رہاتھا ہاسپٹل سے تو مجھے جلد ڈسچارج کر دیا جاۓ گا اسکے بعد میری دیکھ بھال کون کرے گا ۔
آج تک جتنے مریض بھی میری نظروں سے گزرے
سب کا پتہ کرنے ہسپتالوں میں انکے ورثا کا تانتہ بندھا رہتا تھا ۔
سب باری باری اپنے عزیز سے ملنے کو بیتاب رہتے تھے ۔
مگر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر مجھ سے ملنے کون آۓ گا؟؟؟
دنیا میں میرے لئیے بیتاب رہنے والا ایک باپو ہی تھا جس کے بدن کو برسوں قبل مٹی کھا چکی تھی
اب کوئی نہیں تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کوئی نہیں تھا جس کے آنے کا انتظار میں کرتا ۔!!!
اچانک مجھے محسوس ہوا جیسے میرے ارد گرد بھگدڑ سی مچ گئی ہو!
میں نے جونہی آنکھیں کھولیں تو دونوں نرسیز کو اپنے دائیں بائیں چاک و چوبن پایا
سٹاف ادھر سے ادھر ادھر سے ادھر بھاگا دوڑا جا رہا تھا
ایک دوسرے کو اطلاع دے رہے تھے
سر آرہے ہیں سر آرہے ہیں
بس ایک افراتفری کا سا عالم تھا
سر سے مجھے بھی یاد آگیا میرے آپریشن سے قبل ڈاکٹر خالد نے کسی سے فون پہ بات کرنے کے بعد منیجر سے کہا تھا کے انکے تمام اخراجات اپنے زمے لے لئیے ہیں ۔
میں بھی اب بیتاب تھا وہ سر آخر کون شخص ہے اور مجھ سے بغیر تعارف کے میرے اوپر اتنا مہربان کیسے ہو گیا؟؟؟
اسی دوران بہت سے لوگوں کے قدموں کی آوازیں میری سماعتوں سے ٹکرانے لگیں ۔
غالباً ایک فافلہ تھا جو میرے انتہائی نہگداشت والے روم کی جانب آرہا تھا
اول ڈاکٹر ثمینہ ڈاکٹر کرن اور منیجر تینوں ایک ساتھ چلتے ہوۓ اندر داخل ہوۓ انکے پیچھے سے اب ایک عمر رسیدہ خاتون ہاتھ میں سٹیل کا ٹفن ہاتھوں میں پکڑے ساتھ ڈاکٹر خالد اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔وہی سیکیورٹی گارڈ جو کل شام مجھے کیبن میں ملا تھا
مگر آج وہ سیکیورٹی گارڈ کے لباس میں نہیں بلکہ بیش قیمت پتلون کوٹ میں ملبوس تھا جوکہ شخصیت کے اعتبار سے اس وقت انتہائی بارعب تھا ۔
خاتون جونہی میرے قریب آئین میں نے لمعہ بھر میں انہیں پہچان لیا ۔ ۔ ۔ ۔
برسوں قبل انہوں نے میرا سر اپنی چھاتی سے لگایا تھا اور آج تک مجھے انکا لمس محسوس ہو رہا تھا ۔
کچھ ہی دیر قبل میں سوچ رہا تھا کے میرا کون ہے جو عیادت کو آۓ گا مگر ماں جی کو دیکھتے ہی مجھے یوں لگا جیسے کل کائنات سمٹ کر میرے پاس آگئی
ماں جی بغیر کسی ماسک کے میرے اوپر جھکیں میری پیشانی کا بوسہ لیکر مجھے دعائیں دینے لگیں میں اپنی جگہ سے ذرہ حرکت نہیں کر سکتا تھا اور نہ بول چال سکتا تھا ناک میں نلکی منہ پہ آگسیجن والا ماسک اسی طرح چھاتی میں چھید اور جانے اور کیا کیا مجبویاں تھیں
بس یوں سمجھ لیجئے معض سن اور اپنے سامنے دیکھ سکتا تھا باقی ہلنے چلنے سے بلکل قاصر تھا
اسی لمحے ایک نرس روم میں داخل ہوئی جو اپنے پہلو میں بیشمار تازہ پھولوں کے گلدستے اور ایک عدد مالا سمیٹے ہوئی تھی ۔
اول ماں جی نے اسکے ہاتھوں سے وہ مالا لی اور لا کر دونوں نرسیز کی مدد سے علامتی تور پہ میری سر کے پیچھے تکیے پہ رکھ کر میرے سینے پہ پھیلا دی یوں موجود تمام احباب نے تالیاں پیٹ کر مجھے صحت یابی پہ مبارک باد دی
یوں اس چھوٹی سی تقریب کا آغاز ہو گیا اسکے بعد ڈاکٹر ثمینہ ڈاکٹر کرن ڈاکٹر خالد اور مینیجر نے باری باری پھولوں کے گلدستے میری چھاتی پہ رکھے اور مبارک دے کر پیچھے ہٹتے گیۓ
اب سیکورٹی گارڈ نے سمیت نرسز کے سب سے کہا
پلیز کچھ دیر کیلئے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا جاۓ
تمام لوگ فوراً حکم کی تعمیل کرتے ہوۓ کمرے سے چلے گئے
صرف تین ڈاکٹرز ماں جی اور سیکیورٹی گارڈ میرے پاس رہ گۓ
یہ سب لوگ میرے گرد بیڈ کے کنارے کھڑے ہو گئے
سیکیورٹی گارڈ میرے پاؤں کی جانب بیٹھ کر میری آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ بولا
موقع غنیمت ہے بڑے بھائی مالک کی مرضی سے آپکی بولتی بند ہے
وہ قہقہہ لگا کر بولا میں سکون سے آپکے ساتھ گپ لگاسکتا ہوں بیفکر ہوکر!
چونکہ آپ بیچ میں بول کر میری بات نہیں کاٹ سکتے آپکی بولتی جو بند ہے!
وہ مسکراتے مسکراتے ایکدم سنجیدہ ہو کر بولا
اللہ رکھا میرے بڑے بھائی!
وہ کچھ دیر خاموش اپنی گود کی جانب جھکا رہا
پھر جب اس نے سر اٹھایا تو اسکی آنکھیں اشکوں کی لڑیاں پرو رہی تھیں
وہ ٹشو سے آنکھیں صاف کرتے ہوۓ بھاری بھرکم آواز میں ٹھہر ٹھہر کر بولا
عظیم انسان ہو میرے بڑے بھائی!
اتنے عظیم کے نوزنے کے بعد بھول ہی جاتے ہو
کس کس پہ احسان کرچکے ہو!!!
بڑے بھائی میں ساجد ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور اور یہ تینوں ڈاکٹرز میرے وہ چھوٹے بہین بھائی ہیں جو لوگوں جوٹا کھایا کرتے تھے ۔ ۔۔ مگر بڑے بھائی مجھ سے قسم لے لیں جس روز سے آپ نے ہمارے سروں پہ دست شفقت رکھا انہوں نے کبھی جوٹا نہیں کھایا ۔ ۔ ۔ ۔!
بھائی مجھے گماں بھی نہیں تھا آپ نے اتنی بڑی رقم ہمارے دامن میں ڈال دی ہے
میں نے اسی رقم سے گھر بھی خرید لیا اور کاروبار بھی شروع کیا
اور آج جو کچھ میں ہوں جوکچھ میرے بہین بھائی ہیں یہ سب آپکی دست شفقت کا نتیجہ ہیں
میرے بھائی جان بخدا میں آپ سے غافل ہر گز نہ تھا میں ہمیشہ درر پردہ آپ پہ نظر رکھے ہوۓ تھا ۔
میں نے اپنے ذرائع سے آپکی پوری داستاں بھی معلوم کر لی تھی مگر معاف کرنا بڑے بھائی سامنے اس لیۓ نہیں آیا ابھی میرے مشن کی تکمیل نہیں ہوئی تھی
اور جب مشن مکمل ہوا تو میں نے ہی ڈاکٹر سلیمان صاحب سے کہاتھا کے اب وقت آگیا ہے ہمارے بڑے بھائی کو ہمارا راستہ دکھا دیں اور یہ ہاسپٹل آپکے ان چھوٹے بہین بھائیوں کا ہے بھائی جان
ساجد اچانک میری ٹانگوں سے لپیٹ کر دھاڑیں مارتے ہوۓ بولا
میں اب بہت تھک چکا ہوں بڑے بھائی
اب آپ اپنا منصب سنبھالیں
تھک چکا ہوں تھک چکا ہوں
ڈاکٹرز نے فوراً مداخلت کرتے ہوۓ ساجد سے کہا
اپنے آپ کو سنبھالیں بھائی
بھائی جان کا تازہ تازہ آپریشن ہوا ہے اس قسم کے جذباتی مناظر انکے کیلئے خطرناک ہیں
ساجد یک لخت ڈاکٹرز کی بات کو تسلیم کرتے ہوۓ بولا
او چلو اوۓ ڈاکٹرو زیادہ باتیں نہ کرو میں آپ سے بڑا ڈاکٹر ہوں
ابھی اپنے بھائی جان کو وہ کیپسول دے رہا ہوں جس سے انکی تمام کھوئی ہوئی انرجی بحال ہو جاۓ گی!!!
وہ میری طرف دیکھتے ہوۓ مسکرا کر بولا
بھائی کیا آپ اپنے محسن سے نہیں ملیں گے جس نے اپنے بدن کا خون دے کر آپکی جان بچائ؟
وہ جانتا تھا میں بول نہیں سکتا لہٰذا اس نے رسماً پوچھ کر ڈاکٹر کرن کو کچھ اشارہ کیا ۔
وہ مسکراتی ہوئی تیز تیز قدموں کے ساتھ دروازے سے باہر نکل گئی ۔
ساجد میری طرف دیکھتے ہوۓ بولا
میری خالہ ذاد بہین نے آپکو خون دیا ہے بھائی!
ڈاکٹر کرن میری محسن کو ہمراہ لیکر کمرے میں داخل ہوئی!
جسے دیکھتے ہی میرے بیمار زخمی دل کی دھڑکنیں تیز ہو گیئں اور شاید اب میں زندگی کی آخری سانس لے رہا تھا چونکہ اس وقت میرے سامنے سانولی کھڑی تھی ۔ ۔ ۔
سانولی کو یوں اچانک اپنے سامنے پاکر میرے دل کو شدید قسم کا جھٹکا سا لگا پورے بدن پہ کپکپی سی طاری ہو گئی
دل کی دھڑکنیں تیز اور بےترتیب سی ہوگئی
دل کی اس کیفیت کی وجہ سے شدت درد مجھ سے برداشت نہ ہو سکی یوں میں بری طرح تڑپنے لگا میرا آگسیجن والا ماسک تڑپنے کی وجہ سے اتر گیا
ڈرپ کی نلکیاں جھول جھول کر ٹوٹنے لگیں ۔
بدن کے تمام زخم میری غیر متوقع حرکت کی وجہ سے دوبارہ ہرے ہوگئے ۔
تینوں ڈاکٹرز انگریزی زبان میں چیختے چلاتے مجھ پہ جھپٹ پڑے ایک شور سا مچ گیا ہاسپٹل کا پوراسٹاف میرے روم میں جمع ہوگیا بھاگ دوڑ کے عالم میں ہی مجھے پھر سٹریچر پہ ڈالا گیا آن کی آن میں میں دوبارہ آپریشن تھیٹر میں پہنچ گیا
ڈاکٹر کرن نے پھر سے کلورفن کے ذریعے مجھے بےہوش کر دیا
اب کی بار دوران آپریشن بار ہا میری زندگی کے آثار ختم ہوتے رہے ۔
پچھلے آپریشن میں
ڈاکٹر ثمینہ
ڈاکٹر کرن
ڈاکٹر خالد اور سانولی نے مجھے خون دیا تھا
جبکہ اب کی بار
ساجد اور ہاسپٹل کی تین نرسز نے یہ بیڑا اٹھایا
پانچ گھنٹے کی انتھک محنت اور ہنگامی بنیادوں پہ ملک کے سب سے بڑے ہارٹ سرجن ڈاکٹر سبیل پاشا کی خصوصی خدمات کے بعد میرے آپریشن کا یہ مرحلہ بھی کامیابی سے ہمکنار ہوا
ساجد اور ماں جی نے میرے اوپر سے صدقہ اتارنے کیلئے ایک عدد بیل کا بھی انتخاب کر لیا تھا
ڈاکٹرز کی طرف سے گرین سنگنل ملتے ہی
ماں جی ساجد اور سانولی
مویشی منڈی بیل خریدنے چلے گئے
رات گئے بیل لاکر اپنے گھر کے گیراج میں باندھ کر سب لوگ واپس ہاسپٹل پہنچ گیئے
اب سب کو انتظار تھا میرے ہوش میں آنے کا
سانولی کے متحلق طے پایا تھا کے وہ مجھے بے ہوشی کی حالت میں تسلی سے دیکھ کر یہاں سے چلی جاۓ
چونکہ ڈاکٹرز نے اچھی طرح جان لیا تھا کے مجھے دوبار شدید اٹیک سانولی کے اچانک میرے سامنے آجانے سے ہوا تھا اب وہ مزید خطرہ مول نہیں لینا چاہتے تھے لہذا سانولی کو میرے ہوش میں آنے سے پہلے میرے سامنے سے ہٹ جانے کا کہ دیا گیا تھا ۔
آپریشن گے بعد آٹھ گھنٹے کا مقررہ وقت بھی گزر گیا مزید دو گھنٹے اوپر ہوگیئے مگر مجھے ہوش نہ آیا اب خطرناک وقت شروع ہوگیا تھا جس کے اندر اندر مجھے ہوش آنا ضروری تھا ورنہ موت تو برحق ہے اور انجام میرا بھی وہی حق تھا یعنی میں دنیا سے آزاد ہوجاتا
تمام بڑے بڑے اور ماہر ترین ڈاکٹرز جمع ہوچکے تھے لیکن کوئی جتن کار گر ثابت نہیں ہو رہا تھا
آخری پینتیس منٹ باقی تھے جن کے اندر اندر اگر مجھے ہوش نہ آتا تو میرے دل کی دھڑکنیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوجاتیں
ادھر ماں جی ساجد وغیرہ نے ویڑا زبع کرکے محلے کے غربا میں گوشت تقسیم کرنا شروع کردیا
جبکہ میری زندگی کے آثار اس وقت مدھم پڑ گئے جب مقررہ وقت سے قبل مشین نے خطرے کی گھنٹی بجانا شروع کر دی
اسکی سکرین پہ اب میرے دل کی دھڑکنیں ٹوٹا شروع ہوچکی تھیں ۔
ڈاکٹر اسفند نے حتمی انجیکشن ایک سرنج میں بھرا
اس انجکشن کو خطرناک ترین انجیکشن کہا جاتا تھا اس کو انجکٹ کرنے سے اکثر موت ہی واقع ہوتی تھی لیکن اسکی ایک خوبی یہ بھی تھی جس کو راس آجائے تو وہ موت کے منہ سے بھی واپس آجاتا تھا
جونہی ڈاکٹر اسفند انجیکشن لیکر میرے اوپر جھکے ڈاکٹر کرن ڈاکٹر خالد اور ڈاکٹر ثمینہ نے اپنے چہرے میری طرف سے پھیر لیئے
اور روتے ہوۓ
باگاہءِ رب کائنات میں دعائیں مانگنے لگے
ڈاکٹر اسفند مجھے انجیکشن دے کر پیچھے ہٹے
باقی تمام ڈاکٹرز میری باڈی پہ نظریں جماۓ ہوۓ بیچینی سے مجھے دیکھ رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اچانک سب کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی
میرے بدن پہ کپکپی طاری ہو گئی تھی اور گمشدہ سانسیں انتہائی تیز ہوگئی تھیں
ڈاکٹر ثمینہ جذبات میں آکر ایک کونے میں فرش پہ بیٹھ کر دھاڑیں مارمار کر رونے لگی یہی عالم ڈاکٹر کرن کا بھی تھا
دیگر ڈاکٹرز نے انکی حوصلہ افزائی کرتے ہوۓ یاد دلایا کے آپ لوگ ڈاکٹرز ہیں ۔
جوش کی بجاۓ ہوش سے کام لیں
ڈاکٹرز کو یہ باتیں زیب نہیں دیتیں ۔
مجھے بھی اب کچھ دھندلا دھندلا دیکھائی دینے لگا تھا اور اگرچہ سمجھ نہیں آرہی تھی مگر وہاں موجود لوگوں کی آوازیں بھی خواب کی ماند سنائی دے رہی تھیں ۔
“””””””””””””””””””””””””””””””
ایک ماہ سات دن تک میں اسی ہسپتال میں داخل رہا اب الحمداللہ میں مکمل صحت یاب ہوچکا تھا
ماں جی ہرروز ہسپتال آتیں گھر سے اپنے ہاتھوں سے میرے لیئے سوپ وغیرہ تیار کر کے لاتیں مجھے اپنے ہاتھوں سے سوپ پلاتیں کھانا کھلاتیں اور پوری پوری رات میرے پہرے پہ بیٹھی رہتیں
اس پورے عرصے میں سانولی ماں جی کے ہمراہ ہسپتال آتی رہی جالی دارکھڑکی سے مجھے دیکھ کر واپس چلی جاتی
مگر ایک بار بھی اس نے میرے سامنے آنے کی غلطی نہیں کی
چند روز قبل ساجد نے دل کھول کر مجھ سے باتیں کیں
اس نے بتایا
ماضی میں ہم لوگ بھی کوٹ لٹھو خان کے رہنے والے تھے جس دوران آپ نے ہمیں بہت بڑی رقم سونپ کر اپنے محلے سے رخصت کیا اسکے کچھ ہی عرصے بعد ہم لوگ بہین بھائیوں کی دوماہ کی چھٹی کے دوران گاؤں گئے
مگر وہاں کی دنیا ہی بدل چکی تھی والد صاحب کے انتقال کے بعد ہمارے حالات ہی اتنے خراب ہوچکے تھے کے کبھی گاؤں جانے کے اسباب ہی پیدا نہ ہو سکے تھے لہذا آپکی امداد کی بدولت اس بار ہمارے حالات سازگار ہوچکے تھے امی کی بھی ایک عرصے سے خواہش تھی گاؤں جانے کی
یوں ہم اب کی بار گاؤں کو روانہ ہوگیئے
وہاں جہاں چند خوشیاں سمیٹیں وہیں بیشمار دکھ بھری داستانیں بھی سننے کو ملیں
مجھے آپ کے بارے میں تو کچھ علم نہ تھا
البتہ ہماری امی کی چچاذاد بہین کی بیٹی سانولی کی دردناک داستاں نے ہمیں خون کے آنسو رلایا
ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کے سانولی کو اپنے لٹنے سے بھی زیادہ غم اس نوجوان کا ہے جسے اسی کے ساتھ بے گناہ بدنام کرکے وقتی جلاوطن کردیا گیا تھا بعد میں اسے قتل کردیا گیا یاچھوڑ دیا گیا واللہ عالم؟
اسی دوران ہم سے ملنے بختو حویلی سے اکبر بھائی اور نشو بھابھی بھی آۓ
نشو بھابھی نے روتے ہوۓ آپ کو یاد کیا بقول انکے مجھے اپنی اولاد سے ذیادہ عزیز تھا
آج بھی اسکا باپو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس لفظ پہ ساجد ایک دم رک گیا اور پھر اس انداز سے سرجھٹک کر دانتوں کے نیچے زبان ڈالی جیسے وہ کوئی غلطی کر بیٹھا ہو ۔
وہ انتہائی تیز شخص تھا
فوراً مجھے غافل کرتے ہوۓ بولا ۔
اکبر بھائی نے اپنے ساتھ ایک دھندلی سی تصور رکھی ہوئی تھی
جسمیں اکبر بھائی کے ساتھ آپ بیٹھے ہیں
میں نے فوراً اس تصویر میں آپکو پہچان لیا
مگر کچھ بولا نہیں چونکہ میرے خیال میں وہ کوئی ہمشکل بھی ہوسکتا تھا جبکہ غیر حتمی بات کو پھیلانا میری فطرت میں نہیں ۔
اسی طرح نشو باجی نے بھی بتایا
ہماری سانولی نے اگر زبان سے کبھی اظہار نہیں کیا مگر میں نے محسوس کر لیا تھا کے دل سے اللہ رکھے کو چاہنے لگی تھی ۔
جب وہ ہمارے گاؤں میں برباد ہوکر واپس لوٹی تو بیشمار لوگوں نے اسے اپنے دامن میں سمیٹنے کی کوشش کی مگر اس نے انکار کردیا
ایک دن میں نے اسے سخت ڈانٹا سانولی کیا ہوگیا تمہیں؟
اب تجھ میں رہا ہی کیا جو اسقدر اترا رہی ہو ۔
شکر کرو جو تمہیں اس حقیقت کے بعد بھی چند اچھے رشتے مل رہے ہیں ۔
کب تک ماں باپ پہ بوجھ بنی رہو گی اللہ نے کوئی بھائی بھی نہیں دیا جو تجھے سنبھال لیتا بیوقوف مت بنو اور شادی کر لو
لیکن سانولی نے آنسو کی برسات میں چند جملے ایسے کہے کے میں بھی اسکے سامنے بے بس ہوگئی ۔
سانولی نے کہا!
باجی ۔ ۔ ۔ ۔باجی مجھ میں اس واقعے سے پہلے بھی کچھ اتنا خاص نہیں تھا جس پہ میں غرور کرتی
اور نہ ہی میں اب بھی اس قابل ہوں
خدا جانے لوگ کیوں مجھے حسینہ تصور کر بیٹھے ہیں اور بلاوجہ مجھ پہ طرح طرح کی آراء قائم کیے جارہے ہیں؟
کچھ بھی مجھ میں اضافی نہیں سب کچھ عام لوگوں جیسا ہے ۔
البتہ باجی وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔وہ بیگناہ جو میری وجہ سے برباد ہوا ۔
سچ کہ رہی ہوں اسے کبھی نہیں بھولا پاؤں گی ۔
اسکے باپو کی وہ باتیں رہ رہ کر میرے کانوں میں گھونجتی ہیں جو آپ سے کیا کرتا تھا وہ دلہن کے سوٹ وہ زیورات اور وہ بات بات پہ کبھی اسکی آنکھوں کا بھیگ جانا اور کبھی خوشی سے اسکے چہرے کا کھل اٹھنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باجی کبھی نہیں بھول سکتی باجی ۔ ۔ ۔ ۔کبھی نہیں ۔۔۔۔!
باجی اس حال میں میں اب کبھی کسی کو خوش نہیں رکھ سکتی!
میں بھیک مانگ کر پیٹ بھرلوں گی مگر اس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔راکھے کی محبت میں مرنے کی آرزو ہے!
اسی کے نام پہ مرنے کی مہلت دےدے باجی!!!!
بس ساجد میرے ویر میں نے اس کے بعد کبھی سانولی کو مجبور نہیں کیا ۔
بلکہ اگر کوئی دوسرا اسے منانے کی کوشش کرتا تو میں اسے منع کر دیتی ۔
بھائی جی کچھ عرصہ ہم لوگ گاؤں میں رہے پھر اسکے بعد کراچی واپس لوٹ آۓ
آتے ہی میں نے پہلا کام یہ کیا کے اپنے ذرائع سے آپکی حقیقت معلوم کی
میرا گماں بلکل حقیقت نکلا مگر وقت مناسب نہ تھا لہذا خاموشی کو غنیمت جانا
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہماری خالہ کا بھی انتقال ہو گیا سانولی کی دیگر بہنوں کی بھی شادی ہوچکی تھی خالو تو سانولی کے جوان ہونے سے پہلے ہی فوت ہوچکے تھے ۔
اب اس کا اس دنیا میں کوئی سہارا نہیں تھا
ہم لوگ خالہ کی تعزیت پہ گئے اور میں نے راز محفوظ رکھنے کی شرط پہ سانولی کو آپکی ساری حقیقت بتادی ورنہ وہ کسی صورت ہمارے ساتھ کراچی آنے پہ راضی نہ ہوتی کراچی پہنچ کر میں نے سانولی کی تسلی کیلئے کئ بار اسے آپکا درپردہ دیدار بھی کرایا مگر آپ کے وڈیروں کے ڈر کی وجہ سے وقت ابھی بھی مناسب نہ تھا جو آپ مراسم رکھ سکتے
چونکہ آپکی کھوج کے دوران مجھے سب علم ہوگیا تھا آپ سے ملنا کسقدر خطرناک تھا
آپکی اصل حقیقت کا علم اس وقت بھی صرف مجھے اور سانولی باجی کو ہی ہے ۔
ڈاکٹر سلیمان نے مجھے بتایا کے اللہ رکھا اب زندگی کے آخری دن گزار رہا ہے اگر اسکے دل کا آپریشن نہ ہوا تو وہ ہمیں کسی روز مردہ حالت میں ملے گا
میں نے وڈیروں کے تمام خطرات کو نظرانداز کرتے ہوۓ آپکے علاج کا فیصلہ کیا
ادھر آپکا آپریشن کامیاب ہوا ادھر مجھے خبر ملی کے وڈیروں کا آخری چراغ بھی گل ہوگیا ہے باقی سب تو وقفے وقفے سے مرتے رہے صرف جنمبد سرکار باقی تھے جو کینسر کے مرض میں مبتلا تھے وہ بھی چند روز قبل لاہور کسی ہسپتال میں اللہ کو پیارے ہو گۓ ۔
میں ہمیشہ سیکیورٹی گارڈ کے روپ میں ہسپتال کےگیٹ پہ پڑا رہتا ہوں تاکہ مجبور و بیکس لوگوں کو پہچان سکوں
جس دن آپ آۓ اس روز میں نے اپنے بہین بھائیوں کا بھی امتحان لیا میں نے کہا دیکھوں تو سہی ان پہ میری تربیت کا کیا اثر ہوا اسی لیئے میں نے آپکو جائیداد کے کاغذات پہ علاج کروانے کا مشورہ دیا
انہیں میری اس پلانگ اور آپکے متحلق کوئی علم نہیں تھا
سب نے جو معاملات آپکے ساتھ کیۓ بلکل بیخبری میں اپنی مرضی سے کئے میری بہنوں نے اپنی مرضی سے آپکے ورثا میں اپنا نام لکھا
جب میرے مخبر نے مجھے تمام صورتحال سے مجھے آگاہ کیا تو میں نے اللہ کا شکر ادا کرتے ہوۓ ڈاکٹر خالد کو فون کیا
پھر آپکے آپریشن سے چند منٹ پہلے میں نے انہیں بتایا یہ ہمارے وہی محسن ہیں جنہوں نے دل کھول کر ہماری مدد کی تھی ۔
ساجد اپنی داستاں زیادہ دیر جاری نہ رکھ سکا چونکہ ماں جی سمت چند لوگ ہسپتال سے ساجد کے گھر منتقل کرنے ہسپتال پہنچ چکے تھے ۔
اور قارئین ! انہی میں ایک سانولی بھی تھی ۔ ۔جو سرجھکاۓ مسکراتے ہوۓ اپنی گُدگُدادینے والی پلکیں اٹھا اٹھا کر میری طرف دیکھ رہی تھی
جیسے مجھ سے کہ رہی ہو
صاحب! تاب دیدار ہے؟
کہیں ایسا نہ ہو پھر سے دل دھڑک اٹھے اور میرے صاحب پھر سے بے ہوش ہوجائیں ۔
ساجد کود کر ہم دونوں کے بیچ کھڑا ہوگیا
اور مظلوموں کی سی صورت بنا کر ہاتھ جوڑتے ہوۓ بولا
او بس جی بس!
باقی گھر جا کر رسم پوری کر لیجئے گا میرے بزرگ عاشقین
کوئی نیا درہ نہ کر لینا!
میری اور سانولی کی گردنیں شرم سے جھک گئیں جبکہ تماشائیوں کے قہقہے فضا میں بلند ہو گئے ۔ ۔
●▬▬▬▬▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬▬▬●