کھٹی میٹھی یادیں
ہر انسان میں کمزوریاں ہوتی ہیں۔مجھ میں بھی بہت سی کمزوریاں ہیں۔کسی زمانے میں غصہ جلد آجاتا تھا لیکن میری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ میں اپنے دوستوں پر بہت جلد اعتبار کرلیتا ہوں ۔ میں خود اپنے دوستوں کے تئیں جتنا مخلص ہوتا ہوں ‘ان کے بارے میں بھی ویسا ہی تصوّر کرلیتا ہوں۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب دوست میرے تصور سے کم ‘بلکہ بہت کم نکلتا ہے توبجائے اپنے تصور اور اپنے رویے کو غلط سمجھنے کے اپنے دوست کو غلط سمجھ لیتا ہوں۔پوری زندگی اسی طرح گزری ہے اور ابھی بھی میرے رویے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔عز ت‘شہرت اور دولت کی تمنّا ہر کسی کو ہوتی ہے۔مجھے بھی ہے۔۔لیکن عزتِ نفس کو مجروح کر کے ملنے والی ظاہری عزت ہو‘شہرت ہو یادولت ہو‘مجھے کبھی اس کی تمنا نہیں رہی۔
میں مزاجاََ کنجوس نہیں ہوں لیکن اپنی ذات پر خرچ کرنے کے معاملے میں ہمیشہ سے کنجوس ہوں۔مجھے اچھی طرح سے یاد ہے ایف اے کا امتحان دینے کے لئے مجھے خانپور سے رحیم یارخاں جانا تھا ۔ابا جی مجھے خود لے کر رحیم یارخاں گئے۔وہاں انہوں نے مجھے تھوڑی سی رقم دی کہ امتحان کے بعد کچھ کھا پی لینا۔مجھے امتحان گاہ تک چھوڑ کر ابا جی خانپور واپس چلے گئے۔امتحان کے بعد میں نے دو آنے کے چنے بھنوائے اور باقی ساری رقم لا کر ابا جی کو دے دی۔گھر کا خرچ میں نے کبھی اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا۔آج بھی کسی ریستوران میں کھانا کھانے یا کافی پینے کی نوبت آجائے تو بھلے ادائیگی کوئی اور ہی کرے مجھے فضول خرچی کا احساس ہوتا رہتا ہے۔ میں کنجوسی اور فضول خرچی میں فرق سمجھتا ہوں۔اس رویے نے مجھے ادبی لحاظ سے ایک فائدہ پہنچایا ہے کہ میں کفایت لفظی سے کام لیتا ہوں۔یہ بھی میری عادت سی ہے۔ مجھے اس کا اتنا زیادہ اندازہ نہیں تھا۔بس ایک ہلکا سا احساس تھا کہ جو کچھ کہنا ہے اسے مناسب اور کم سے کم لفظوں میں کہنا چاہئے۔ایک بار انڈیا سے شاہد ماہلی اور ڈاکٹر وسیم بیگم جشنِ غالب کے سلسلے میں جرمنی آئے تو ڈاکٹر وسیم بیگم نے میرے افسانوں کی ایک خاص بات مجھے یہ بتائی کہ بہت ہی کم سے کم الفاظ میں اپنی بات پوری کردیتا ہوں۔یہ بات انہوں نے غالباََ اپنے کسی تبصرے میں لکھی بھی تھی۔ تب مجھے خوشی ہوئی کہ میری کفایت شعاری کی کمزوری نے مجھے فائدہ پہنچایا ہے۔
میری بیوی کا خیال ہے کہ میں انتہا پسند ہوں۔یا تو اتنا میٹھا بن جاؤں گا کہ دوسرا مجھے محبت ہی میں کھا جائے۔اور یا اتنا کڑوا ہو جاؤں گا کہ کسی کے حلق سے ہی نہیں اتروں گا۔مجھے اپنی اس کمزوری کا ادراک ہے۔میں خود کو بدلنے کی کوشش کرتا ہوںلیکن جو عیب قدرتی طور پر ودیعت کیا گیا ہو وہ ختم نہیں ہو سکتا ۔ میرے بیٹوں کا کہنا ہے کہ میں کسی رشتہ دار پر جب بگڑتا ہوں تو حق بجانب ہوتا ہوں۔کسی سے بہت تنگ آ کر رابطہ منقطع کر لیتا ہوں لیکن جب وہی رشتہ دار آکر جذباتی انداز میں منانے لگیں توفوراََ مان جاتا ہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی دوست یا عزیز سامنے آکر رونے لگ جائے اوراپنی غلطی کا اقرار کرلے تو اس کے بعد میرے لئے ناراض رہنا تکبّر کے زمرہ میں آتا ہے۔کوئی میرے سامنے آکر رونے لگے تویہی بات مجھے بیحد خوفزدہ کردیتی ہے اورپھر میں سب کچھ بھول بھال جاتا ہوں۔۔۔۔۔اس قسم کی عادتوں کو بیماریوں میں شمار کرنا چاہئے کہ ایسی عادت علّت کے زمرہ میں آتی ہے اور علّت و علالت کا قرب ظاہر ہے۔مجھے بیشتر عادتیں اور بیماریاں والدین سے ملی ہیں۔میرے ننہال میں شوگر کی بیماری موروثی ہے ۔امی جی کو بھی شوگر کی شکایت تھی اور اسی وجہ سے ان کی وفات ہوئی۔سو مجھے شوگر کی شکایت ہے۔اسی طرح ابا جی کو بواسیر کی شکایت تھی ۔ہائی بلڈ پریشر کی تکلیف بھی تھی۔مجھے یہ دونوں بیماریاں بھی ایک عرصہ سے لاحق ہیں۔بس اتنا ہے کہ ابا جی کے مقابلہ میں مجھے ایسے وسائل میّسر ہیں کہ میں آسانی سے انہیں کنٹرول کئے رکھتا ہوں۔’’پرہیز علاج سے بہتر ہے‘‘پر ممکنہ حد تک عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔کبھی کبھی بد پرہیزی بھی ہو جاتی ہے۔ویسے جرمنی آنے کے بعد بلڈ پریشر بالکل نارمل ہو گیا ہے۔اس کے باوجود وقتاََ فوقتاََ چیک کرتا رہتا ہوں۔بواسیر کی جڑیں ختم تو نہیں ہوئیں لیکن یہ بیماری بھی اس حد تک کنٹرول میں آگئی ہے کہ گویا ہے ہی نہیں۔اسے خدا کا فضل کہنا چاہئے کہ بیماری ہوتے ہوئے بھی’’ نہ ہونے‘‘ جیسی ہے۔ بواسیر کی تکلیف سے یاد آیا اس کا ایک سادہ سا دیسی علاج یہ ہے کہ مولیوں کے بیج لے کر انہیں تھوڑا سا کُوٹ کردو چمچ صبح‘دوپہر‘شام پانی کے ساتھ پھانک لینے سے دو ہفتوں میں تکلیف ختم ہوجاتی ہے ۔آپریشن تو نہیں ہوتا لیکن جلن اور تکلیف بھی نہیں ہوتی۔جب میں شوگر مل میں ملازم تھا اس زمانے میں ایک بار میں نے لیبارٹری میں ایک خوراک پھانکی تو ایک دوست نے پوچھا کہ یہ کیاہے؟ساری تفصیل جاننے کے بعد پھر کہنے لگا اگر یہ بیج اس بیماری کے لئے مفید ہیں تو انہیں کُوٹنے کی کیا ضرورت ہے۔ ثابت بیج بھی تو کھائے جا سکتے ہیں۔تب میں نے اسے کہا تھا کہ بھائی!یہ مُولی کا بیج ہے اس لئے احتیاط کرنا چاہئے۔خدانخواستہ پیٹ میں جاکر بیج سے مُولی اُگ آئی تو بواسیر کا مریض بے چارہ بیماری کے بجائے اپنے علاج کے ہاتھوں مارا جائے گا۔
بواسیر‘بلڈ پریشر اور شوگرکی بیماریاں مجھے اپنے والدین سے ملی ہیں تو میں انہیں اپنی وراثت سمجھتا ہوں۔ان ساری بیماریوں کے میرے حصے کے دُکھ بھی وہ آپ اُٹھا گئے ہیں کہ تب نہ تو ان کی تشخیص اور بروقت چیک کرنے کی سہولت تھی اور نہ ہی مناسب علاج میّسر تھا۔اور ان کے حصے کے بروقت تشخیص‘بروقت کنٹرول اور مناسب علاج معالجے کے سارے سُکھ مجھے مل گئے ہیں۔اگرچہ میں نے بغیر چینی کے چائے پینے کی عادت بنا لی ہے لیکن اب ’’شوگر فری‘‘گولیاں عام مل جاتی ہیں۔اور تو اور ’’شوگر فری‘‘ چینی بھی مل جاتی ہے۔اس سے اپنی مرضی کی مٹھائیاں تیار کرائیں‘کیک بنائیں۔گھر والے عموماََ میرے لئے ایسی چیزیں تیار کرتے رہتے ہیں۔گویا ورثے میں ملی ہوئی یہ بیماریاں تو اچھی بھلی عیّاشی ہیں۔میرے امی ‘ابو بھی عجیب تھے۔بیماریوں کے معاملے میں بھی میرے سُکھ کے لئے‘خود ہی سارے دُکھ بھوگ گئے۔
بخار ہونے کی صورت میں مجھے گھبراہٹ تو ہوتی ہے لیکن میں ٹمپریچر کی زیادتی کے باوجود بخار کو آسانی سے برداشت کرلیتا ہوں۔بخار کے اختتام پر مجھے عموماََ متلی سی ہونے لگتی ہے۔ایسے لگتا ہے جیسے کچا تھوک مسلسل نکلتا آرہا ہے۔مسلسل تھوکنا پڑتا ہے اور مجھے وحشت ہونے لگتی ہے۔امرت دھارا کے استعمال سے اس وحشت سے نجات ملتی ہے۔ایک عرصہ تک بخار کے ساتھ یہ مصیبت رہی اور میں بخار سے زیادہ بخار کے ختم ہونے سے گھبرایا کرتا تھا۔خدا کا شکر ہے اب ایک عرصہ سے بخار کے بعد متلی کی مصیبت سے جان چھوٹ گئی ہے۔
اپنی خامیاں آپ گنوانا مشکل کام ہے۔اپنے آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم میں کیا کمزوری ہے۔جب تک پتہ چلتا ہے تب تک عادتیں اتنی پختہ ہو چکی ہوتی ہیںکہ ان سے نجات حاصل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔مجھے یہی صورت حال درپیش ہے۔اس کے باوجود اپنی بیوی سے اور اپنے بچوں سے پوچھنے کے بعد اپنی جو کمزوریاں سمجھ پایا ہوں‘لکھ دی ہیں۔مجھے اونچائی سے اور دریا‘یا سمندر کے پانی سے ڈر لگتا ہے۔حالانکہ پانی زندگی کی بنیاد ہے اور بلندیوں کے حصول کے لئے انسان کیا کچھ نہیں کر گزرتا۔پہاڑ کی چوٹی تو دور کی بات ہے‘مجھے دس بارہ منزلہ عمارتوں سے نیچے جھانکتے ہوئے بھی وحشت ہوتی ہے۔ در اصل میں بچپن سے بہت ڈرپوک ہوں۔’’اندھیرے کی ماں‘‘سے ایک عرصہ تک بہت ڈر لگتا رہا۔امی‘ابو مجھے کسی شرارت سے روکنے کے لئے عموماََ آخری حربے کے طور پر ’’اندھیرے کی ماں آجائے گی‘‘کہہ کر ڈراتے اور میں شرارت سے باز آجاتا۔یہ تو بہت بعد میں پتہ چلا کہ’’اندھیرے کی ماں‘‘تو بڑی کام کی چیز ہے۔انسان کی پردہ پوشی جیسا نیک کام کرتی ہے۔
دوپہر کے وقت بھی اگر کبھی امی مجھے کہتیں کہ گھر کی چھت پر پڑی کوئی چیز لے آؤ تو میں بھری دوپہر میں بھی چھت پر جاتے ہوئے گھبراتاتھا۔کسی چھوٹے بھائی کو ساتھ لے لیتا۔گھر پر کوئی اور نہ ہوتا تو ڈرتے ڈرتے چھت پر جاتا اور وہاںسے آوازدیتا رہتا۔’’امی !چھاج نہیں مل رہا۔کس طرف ہے؟۔۔۔۔۔۔۔‘‘
امی جی وہیں سے ہنس کر آواز دیتیں: ’’تُو بھی میری طرح ڈرپوک ہے۔دھیان سے دیکھ چھت پر ہی ہے‘‘
اور میں جیسے تیسے چھاج(یا جو کچھ بھی منگایا جاتا)لے کر چھت کی سیڑھیوں سے جلدی جلدی اترنے لگتا اور اترتے اترتے بھی کوئی نہ کوئی بات کرتا جاتا۔
تو صاحب!اندھیرا ہو یا اجالا۔۔۔۔میں تنہائی سے ڈرتا اور گھبراتا تھا۔ایک عمر کے بعد معلوم ہوا کہ گیان کی روشنی اسی تنہائی سے نصیب ہوتی ہے۔پَر خوف اور گناہ کے مرحلوں سے گزرنے کے بعد یہ منزل نصیب ہوتی ہے۔میں بھی گیان کی منزل کا راہی ہوں لیکن ابھی رستے میں ہوں اور شاید جان بُوجھ کر رستے میں ہوں کہ رستوں کا‘سفر کا اور سفر کی چھوٹی چھوٹی منزلوں کا اپنا مزہ ہوتا ہے۔
(مطبوعہ ستمبر،اکتوبر۲۰۰۰ء)
نوٹ:یہ سال 2000 کی تحریر ہے،اس سے اگلی دہائی میںاوپر تلے پانچ بار دل کی سرجری ہوئی اور سٹینٹ ڈالے گئے۔اس سے بھی اگلی دہائی میں 2020 سے2022 تک کینسر کے تین حملے ہوئے ،اللہ کے فضل و کرم اور بہتر علاج کے باعث اب مکمل طور پر صحت یاب ہو چکا ہوں،اس کی ساری روداد ایک الگ کتاب’’بیماری یا روحانی تجربہ‘‘ میں لکھ چکا ہوں۔الحمدللہ۔(ح۔ق)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...