آپییییییی کہا ہے آپ میں آگئی ہو ۔۔۔۔حورعین نے ہوٹل کے کمرے میں داخل یوتے ہی کہا جو بیڈ پر بیٹھی شانزے کے بال بنا رہی تھی ۔۔۔
اتنی دیر کیو لگا دی تم نے۔۔۔ہانیہ نے حورعین کو دیکھتے ہی کہا جو چہرے پر مسکراہٹ سجائے اس سے گلے ملی تھی۔۔
سوری آپی اکچلی راستے میں ٹریفیک بہت ہے اس لئے۔۔۔تم کیسی ہو شانزے خوش ہو نا اخر اتنے سالوں کے بعد تم آج اپنے گھر والو سے ملو گی جانتی ہو تمہاری ماما اور بابا تمھیں کتنا مس کرتے ہے۔۔۔
اور اپی جانتی ہے ریحان تو پاگل ہے اپکے لئے دن رات ایک کردیے ہے اس نے اپکی تلاش میں جب سب آپ دونوں سے ملے گے تو خوشی سے جھوم اٹھے گے۔۔۔
حورعین نے کمرے میں گول گھمتے ہوئے کہا۔۔۔
اور جانتی ہے جب مجھے پتا چلا کے شانزے کے ساتھ آپ بھی اس کے ساتھ ہی ہے میں تو پاگل ہی ہوگئ تھی ۔۔۔
حورعین نے دونوں کے گلے لگتے ہوئے کہا۔۔۔
مجھے تو کچھ علم بھی نہیں تھا کے میں آپ دونوں تک اتنا جلدی پہنچ جاونگی یہ تو اچھا ہوا کے اس دن میں نے راشد انکل کا پیچھا کیا جب وہ شیخ انکل کے ساتھ آپ سے ملنے آئے تھے۔اور جانتی ہو شانزے تمھارے بابا بھی وہی ہے جو اس دن راشد انکل کے ساتھ آئے تھے۔۔۔
حورعین نے شانزے کے گلابی گال تھپتپاتے ہوئے کہاجو سوالیہ نظرو سے اسکی طرف ماتھے پر بل دال کر دیکھ ررہی تھی۔۔۔
کیا ہوا شانزے ایسے کیو دیکھ رہی ہو۔۔۔
حورعین نے اس سے پوچھا۔۔
حور اپی میں سوچ رہی ہو کے اگر وہ میرے پاپا ہے تو اس دن اس گندے انکل کے ساتھ کیوں آئے اور مجھے کیو نہیں بتایا۔۔۔۔
شانزے نے ایک ہی سانس میں کہا۔۔۔
شانزے وہ تب مجبور تھے کیونکہ ہم نے ہی انہیں کہا تھا کے راشد انکل کے ساتھ پہلے جگہ کا پتہ لگائے یہ بات بس میرے تمہاری ماما عائشہ پھوپھو اور شیخ انکل کے درمیان میں یے ۔ کے تم کس جگہ ہو۔۔۔۔۔۔
حورعین نے ساری تفصیلات بتائی۔۔۔
لیکن حور تمھیں تو بس یہ پتا تھا کے ہم کس جگہ پر ہے لیکن یہ کسے پتا چلا کے ہم ک ک کوٹھے پر ہے۔۔۔
ہانیہ نے جھجکتے ہوئے کہا۔۔۔
اپی اس دن جب ہم نے خبروں میں دیکھا کے عبدالقدیر پکرا گیا ہے اور سب لڑکیوں کو اس جگہ سے نکال کر کہی اور بھیج دیا گیا ہے تو ہم سب بہت مایوس ہوگئے تھے کے اب اخری راستہ تھا تم تک پہنچنے کا جو ہم وہ بھی گوا بیٹھے ہے۔۔۔ لیکن میں ہمت نہیں ہاری اور میں نے یہ سوچ لیا تھا کے میں پتا لگا کر ہی رہو گی کے شانزے کہا ہے تب میں یہ نہیں جانتی تھی کے ہانیہ اپی اپ بھی شانزے کے ساتھ یے ہےکیونکہ مجھے بس شیخ انکل نے شانزے کا ہی بتایا تھا۔۔۔
تو اپی میں آپکے لئے بھی پریشان تھی تو پھر اللہ نے میرا ساتھ دیا اور جب میں پانی لینے کے لئے کچن میں گئ تو راشد انکل کسی سے کال پر بات کر رہے تھے اور کسی مونی بائی کے کوٹھے کی بات کر رہے تھے اور جب راشد انکل نے اپکا نام لیا تو پتا چلا کے وہ جس سے بات کر رہے تھے وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا وہ حور بولو نا۔۔۔
جب حور عین وہ پر روکی تو ہانیہ نے اس سےکہا۔۔۔۔۔
اپی ارسلان انکل نے ہی اپکو اغوا کروایا تھا تاکہ آپ حنان کی زندگی سے دور ہوجائے تب میں سمجھ گئ کے شانزے کے ساتھ آپ بھی ہے اس لئے میں نے کسی کو بتائے بغیر ایک ادمی کو ارینج کیا اور اس کے ذریعے میں آپ دونوں تک پہنچی ۔۔۔۔۔
حورعین نے ہانیہ اور شانزے کی طرف دیکھ کر کہا جو حیرانی سے اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
یہ انکل اتنی نیچ حرکت کرینگے مجھے یقین نہیں تھا۔۔۔۔ حور پھر تو وہ مجھے اور حنان کوالگ کرنے کے لئے اور بھی کوئی چال چلے گے۔۔۔
ہانیہ نے روتے ہوئے کہا جس کے آنسو اب زور و دار بہے رہے تھے۔۔۔جسے حنان سے دوبارہ بیچھرنے کا خوف تھا۔۔۔
اپی اب آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ راشد انکل اور ارسلان انکل کو پولیس لے گئ ہے اور مونی بائی کے کوٹھے پر بھی چھپا پرگیا ہے سب اب جیل میں سرے گے۔۔۔
حورعین نے ہانیہ کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔سچچچچچچچ ہانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
جی اپی اور انہیں گرفتار حنان نے ہی کروایا ہے کل حنان نے خود مجھے بتایا۔۔۔۔
یااللہ تیرا شکر ہے ان دونوں گندے انکلو سے جان چھٹی۔۔۔
شانزے نے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے اللہ کا شکرا ادا کرتے ہوئے کہا۔۔۔جو خوشی سے کھل اٹھی تھی۔۔۔شانزے بھی سترا سال تک بہت ترپی تھی اور جو اسے راشد کا خوف تھا اس کی گرفتاری کا سن کر ختم ہوگیا تھا۔۔۔
۔۔
چلے اپی اب چلتے ہے ویسے بھی آپ کے لئے
دونوں کے لئے بھی سرپرائز ہے۔۔۔۔
حورعین نے خوشی سے کہا۔۔۔۔
اخر کار ان کی دوری ختم یوچکی تھی اور اب بس یہ اپنی فیملی سے ملنے کے لئے بےتاب تھیں ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
م م م مریم آآآپپیییی آآپ ی یہاں ک ک کسی ہے آپ کہا تھی اتنے سالوں تک۔۔۔۔
جب حنا بلال کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی تو ہال میں مریم کو دیکھ کر اسے اپنی آنکھوں پر یقین ہی نا آیا اور روتے ہوئے مریم کے گلے لگی عائشہ بھی اپنے بھائی کے گلے لگ کر رونے لگی، دونوں بہن بھائی کی دوری آج ختم ہوگئ تھی اتنے سالوں بعد یہ ملے تھے۔۔۔
بھابی کسی ہے آپ اور آپ مریم کی بہن ہے واووووو کیا سرپرائز ہے ۔۔۔۔عائشہ نے حنا کے گلے لگتے ہوئے کہا ۔۔جو پریشانی کے عالم میں شیخ کی طرف دیکھ رہی تھی بلال بھی پریشان تھا۔۔کیونکہ بلال کو شیخ کی اور اسکی وہ ملاقات یاد اگئ جب حورعین کو اس نے اسے دیا تھا۔۔۔
شیخ ان دونوں میاں بیوی کے پاس آنے لگا۔۔۔جسے ہی شیخ کے قدم ان دونوں میاں بیوی کی طرف اٹھ رہے تھے اتنی ہی وحشت انکی آنکھوں میں دیکھائی دے رہی تھی کیونکہ ان دونوں کو در تھا کے شیخ اب سب کچھ مریم کو بتا دے گا کے حورعین کو انھیں دیا تھا۔۔۔
سالی صاحبہ کسی ہے آپ۔۔۔۔اور یہ ہے اپکے دولہے راجہ۔۔۔
شیخ نے حنا کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بلال کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو حیرانی سے اسے ہی دیکھ رہا تھا کے اس نے اسے پہچہانا نہیں۔۔۔ سنائے جی کسے ہے اپ شیخ نے بلال کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
دونوں میاں بیوی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر سکھ کا سانس لیااور اللہ کا شکر ادا کیا کے شیخ نے بلال کو نہیں پہچانا۔۔
۔۔۔۔۔۔
سونیا اپی ۔۔۔جب سب بیٹھے باتیں کر رہے تھے تو حنا نے سونیا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو حنان کے ساتھ آرہی تھی لیکن ان کے قدم مریم کو دیکھ کر وہاں ہی رکے۔
۔مریم نے جب اپنی بری بہن سونیا کو دیکھا تو بھاگتے ہوئے ان کے پاس آئی اور سر سے پاؤں تک انکا جائزہ لینے لگی جو حیرانی سے مریم کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
کسی ہو میری پیاری بہن کہا تھی اتنے سال جانتی ہو کتنا تلاش کیا تھا تمھیں۔۔۔۔
سونیا بیگم نے مریم کے گلے لگتے ہوئے کہا۔۔۔
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ہم تینوں بہنیں اخر اتنے لمبے عرصے کے بعد مل ہی گئ۔۔۔
حنا نے اللہ کا شکر ادا کیا اور دوبارہ مریم اور سونیا کو گلے لگایا۔۔۔۔
بس دعا کرو حنا جس طرح ہم تینوں بہنوں کو اللہ نے ملا دیا اللہ کرے ایسے ہی میری تینوں بچیوں کا بھی پتا چل جائے۔۔۔۔
مریم نے روتے ہوئے کہا۔۔۔
حنا یہ بات سن کر شرمندہ سی ہوئی۔۔۔
امین۔۔۔ویسے یہ حور کہا ہے ہمیں بلا کر خود غائب ہوگئ۔۔۔۔
حنا نے ادھر اودھر نظر گھماتے ہوئے کہا۔۔۔
ارے ہمیں بھی تو حورعین نے ہی بلایا ہے بول رہی تھی کچھ سرپرائز ہے اور سب کو بتانا ہے۔۔۔
سونیا بیگم نے بھی جواباً کہا۔۔۔۔
میں یہاں ہو انتی۔۔۔حورعین نے آتے ہی کہا۔۔۔
ریحان اسکی طرف ماتھے پر بل دال کر دیکھنے لگا۔۔۔باقی سب بھی اسے دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔۔
کیسے ہے ماما پاپا۔۔۔حورعین نے حنا اور بلال کے گلے لگتے ہوئے کہا۔۔۔
ارے بیٹا کہا ہے تمھارا سرپرائز۔۔۔
عائشہ نے بےتابی سے پوچھا۔۔۔
بتاتی ہو ۔۔۔ایک منت۔۔۔
ہانیہ اپی۔۔شانزے اندر آجاے۔۔۔شش شانزے۔۔۔
ہ ہ ہانیہ
شانزے اور ہانیہ کا نام سن کر سب نے ان کا نام دھرایا۔۔۔
دونو اندر آئی اور ہانیہ بھاگتی ہوئی حنا کے گلے لگی۔۔جب کے شانزے مریم اور شیخ سوالیہ نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
مریم اور شیخ ہانیہ کو دیکھ کر حیران تھے کے وہ حنا کو پہلے سے جانتی ہے اور شانزے یہ تلاش کرنے میں پریشان تھی کی اس کے ماں باپ کون ہے۔۔۔
مریم انتی اور شیخ انکل یہ رہی اپکی دونوں بیٹیاں۔۔۔۔
اب کی بار دھماکہ ہوا تھا سب حیرانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔۔۔
ہانیہ اور شانزے بھی ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
ک ک کیا کہا تم نے ان کی بیٹیاں مطلب
ہانیہ حورعین کا سرپرائز سمجھ گئ تھی۔۔
جی شانزے اور اپی مریم انتی ہی آپ دونوں کی ماں ہے اور آپ دونوں سگی بہنیں ہے۔
شانزے کے لبو پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور وہ بھاگ کر مریم اور شیخ کے گلے لگی۔
جبکہ ہانیہ حیران پریشان اپنی انکھوں میں آنسو لئے مریم کی طرف دیکھ رہی تھی اور بھاگتی ہوئی ان کے گلے لگی۔م م ماں کتنا ترپی ہو میں آپ کے پیار کے لئے اللہ نے مجھے آپ سے ملوا دیا۔۔۔۔
ہانیہ نے روتے ہوئے کہا۔۔۔
میری بچی میں بھی بہت ترپی ہو تم دونوں کے لئے اخر آج وہ دوری ختم ہوئی مریم نے شانزے اور ہانیہ کا چہرا اپنے دونوں ہاتھوں سے پکرتے ہوئے کہا۔۔۔
اپنے بابا سے نہیں ملوگی میری بچی۔۔۔
شیخ صاحب نے ہانیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو ان کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔
تمھارے باپ نے ہی تمھیں بیچا ہے تمھارا سودا مجھ سے کیا۔۔۔۔
ہانیہ کے دماغ میں سلیم کی باتیں دوبارہ گھنجنے لگی ۔۔۔
وہاں ہی رک جائے نہیں ہے آپ میرے بابا
جب شیخ ہانیہ کے پاس آنے لگا تو ہانیہ نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روکنے کا کہا۔
آپ اب کیوں مل رہے ہے ہم سے آپ کو تو نفرت ہے نا بیٹیوں سے آپ تو سودا کر آئے تھے نا ہمارا تو اب یہ محبت کا ڈرامہ کیا راچا رہے ہے میں نفرت کرتی ہو آپ سے آپ کی وجہ سے ہم تینوں بہنیں ماں کے پیار کے لئے ساری زندگی ترسی ہے۔۔
میرا کوئی رشتہ نہیں آپ سے۔۔۔
ہانیہ نے چلاتے ہوئے کہا۔۔
سب حیرانی سے ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔
ہانیہ جو بھی ہوا یہ شرمندہ ہے اپنی غلطی پر پلیز انہیں معاف کردو۔۔۔۔۔
حنان نے ہانیہ کے بازوں پکرتے ہوئے کہا۔۔۔
نہیں حنان میں انہیں کبھی معاف نہیں کرونگی ۔ان کی وجہ سے میری ماما کو اور ہمیں کتنی مشکلوں کا مظاہرہ کرنا پرا میں انہیں کبھی معاف نہیں کر سکتی ان سے کہے یہ چلے جائے خدا کے لئے انہیں بھیجے یہاں سے۔۔۔
ہانیہ نے زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اپنے آنسوؤں سے بھرے چہرے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
مریم نے اسے سمبھالا اور گلے لگایا۔۔۔۔اور کمرے میں لے کر چلی گئی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیا ہوگیا ہےمجھ سے بلال میں نے کتنا برا گناہ کیا ہے اگر حورعین کو پتا چل گیا کے میں نے آپ کے ذریعےاسے اسکے اپنے ماں باپ سے سودا کیا ہے۔۔
وہ بھی ایک بدلے کے تحت تو وہ بھی مجھے معاف نہیں کریگی اور ہانیہ کی طرح نفرت کریگی جس طرح وہ کرتی یے شیخ سے۔۔۔
ہمیں بتا دینا چاہئے تھا اسے سب کچھ اب میں کیا کرو بلال مجھے بہت در لگ رہا ہے۔۔۔
حنا بیگم اپنے کئے پر شرمندہ تھی اور اب اسے در تھا کے حورعین کو کچھ پتا نا چلے۔۔۔۔
تم اللہ پر بھروسہ رکھو حنا اللہ سب ٹھیک کردیگا انشاءاللہ تم پریشان مت ہو ۔۔کوئی اچھا موقع دیکھ کر ہم مریم اور حور کو سب سچ بتا دینگے۔۔۔
بس ابھی خوشی کا ماحول ہے کل ہانیہ کی حنان سے شادی ہے ایک بار سب خیریت سے ہوجائے تو سب سچ سچ بتادینگے۔۔۔۔۔
بلال نے حنا کو گلے لگاتے ہوئے کہا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا تو اخر کار سب ٹھیک ہو ہی گیا ٹھینک یو سو مچچچچ میری پیاری بیوی تم نے اتنی مدد کی میری۔۔
ریحان نے حور کا چہرا اپنے ہاتھوں میں لے کر بہت پیار سے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا۔۔.
میں تم سے بہت محبت کرتا ہو تم میری زندگی ہو اور میں تمھیں ہمیشہ خوش رکھونگا۔۔۔ریحان نے حور کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔
حور کو اس وقت ریحان کے دل کی دھڑکن سنائی دے رہی تھی جسے سن کر اسے بہت سکون مل رہا تھا۔۔۔
ان دونوں کی زندگی میں بھی سب ٹھیک ہوگیا تھا آخر کار یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آچکے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ آپی پلیز انکل کو معاف کردے اور انہیں شادی میں شامل ہونے دے باپ کے بغیر رخصتی کیسے ممکن ہے۔۔۔۔
ہانیہ جب تیز سرخ جورے میں بیٹھی تھی جو مہارت سے ہوئے براییڈل میک آپ میں کسی ریاست کی شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔۔تو حور کی بات پر اس کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
دیکھو حور میں فیصلہ کرچکی ہو مجھے اور فورس مت کرو ۔۔
ہانیہ نے سختی سے کہا۔۔۔
اوکے اوکے ٹھیک ہے آپ غصہ مت کرے ۔۔
حورعین نے جب ہانیہ کو غصے میں دیکھا تو بات کو بدلا۔۔۔
حور بیٹا ہانیہ کا گھونگھٹ کردوں مولوی صاحب نکاح پروانے ارہے ہے۔
جب دونوں۔ باتیں کر رہی تھی تو حنا بیگم نے کمرے میں آتے ہی کہا۔۔۔
دیکھو بیٹا تم اخری بار سوچ لو کے تم ابھی بھی شیخ کا نام اپنے ساتھ شامل کرواؤگی کے نہں۔۔
حنا بیگم نے ہانیہ سے پوچھا جس نے یہ فیصلہ کیا تھا کے وہ نکاح میں ولد کی حثیت سے اپنے والد کا نام شامل نہیں کرےگی ۔۔
بلکہ بلال کا کرے گی اس نے بلال صاحب کو اپنے والد کا درجہ دیا تھا۔۔۔
میں فیصلہ کر چکی ہو انتی بلال انکل کا نام ہی میرے نکاح میں شامل کیا جائے گا۔۔۔۔
ہانیہ نے صاف کہا۔۔۔
اسلام علیکم ۔۔مولوی صاحب نے کمرے میں داخل ہوتے ہی سلام کیا۔۔۔
وعلیکم سلام مولوی صاحب تشریف رکھئے۔۔۔
حنا بیگم نے انہیں سلام کا جواب دے کر بیٹھنے کا کہا۔۔۔۔۔
ہانیہ بلال اپکا نکاح حنان سکندر سے سیکا رئج الوقت ایک لاکھ حق مہر طے کیا جاتا ہے کیا اپکو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔
قبول ہے۔۔۔
جب مولوی صاحب نے نکاح پروایا تو ہانیہ نے قبول ہے میں جواب دیا۔۔۔
ہانیہ بلال اپکا نکاح حنان سکندر سے سیکا رئج الوقت ایک لاکھ حق مہر طے کیا جاتا ہے کیا اپکو یہ نکاح قبول ہے۔۔۔
قبول ہے۔۔۔
انہوں نے پھر دھریا اور ہانیہ نے تیسری بار بھی قبول میں جواب دیا۔۔۔
مبارک ہو یہ نکاح مکمل ہوا۔۔۔۔سب نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
یااللہ مجھے معاف کردے میں تیرا اور اپنے بیوی بچوں کا بہت گناہ گار ہو اس لئے مجھے میری بیٹی نے اتنی بری سزا دی میرا نام ہی اپنے نام سے الگ کر دیا یااللہ اس سے بری سزا میرے لئے اور کیا ہوسکتی ہے کے میرے جیتے جی میری بیٹی نے مجھے مار دالا یااللہ مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہورہا میں کتنا بد نصیب باپ ہو جو اپنی بیٹی کو قرآن کے سائے میں رخصت بھی نہیں کر سکا یااللہ مجھے بخش دے مجھے بخش دے۔۔۔
شیخ صاحب کمرے میں جائے نماز پر سجدے میں گیرے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے تھے یہ بہت درد میں تھے یہ سسک سسک کررو رہے تھے ترپ رہے تھے۔۔۔۔
شیخ صاحب ۔۔۔۔۔جب شیخ صاحب کمرے میں تھے تو مریم انہیں بلانے آئی تھی کے وہ دور سے ہی اپنی بیٹی کو رخصت ہوتا دیکھ لے۔۔۔۔
لیکن انہیں سجدے میں دیکھ کر ایک سائیڈ پر کھڑی ہوگئ لیکن جب کتنی دیر تک وہ سجدے سے نا اٹھیں تو مریم نے انہیں ہلاہا
شیخ صاحب ۔۔۔۔۔ شیخ صاحبببببببببب
جب وہ سجدے سے نا اٹھیں تو مریم نے ایک بلند چینخ ماری۔۔۔۔ وہ سجدے میں ہی دم توڑ چکے تھے اللہ کو پیارے ہو چکے تھے ۔۔۔۔
۔
جب ہانیہ کی رخصتی ہونے لگی تھی تو وہ مریم کی چینخوں کی آواز سن کر کمرے میں بھاگی۔
تو شیخ صاحب زمین پر گیرے پرے تھے اور مریم بیگم ان کے سینے پر سر رکھ کر رو رہی تھی جنہیں دیکھ کر ہانیہ وہاں ہی ساخت کھڑی رہے گئ اور گیرنے والے انداز سے پیچھے ہوئی کے حنان نے اسے سمبھالا اور گلے لگایا۔۔۔۔
اخر کار شیخ صاحب دل میں درد تکلیف لے کر ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔۔
ایک باپ کے لئے سب سے بری خوشی ہوتی ہے بیٹی کی شادی اور جب وہی بیٹی ایک باپ سے باپ ہونے کا حق ہی چھین لے تو باپ جیتے جی مر جاتا ہے اور شیخ کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھا۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ کیا بات ہے جان کیو پریشان ہو۔۔۔
جب ہانیہ کمرے کی کھڑکی میں کھڑی چاند کو گھور رہی تھی تو حنان نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس سے پوچھا۔۔۔
حنان آج تین مہنے گزر چکے ہے پاپا کو ہم سے دور ہوئے کتنی غلط تھی میں،
میں نے ان سے انکا نام ہی چھین لیا تھا انہیں شادی میں شرکت نہیں کرنے دی انہیں گلے تک نہی لگنے دیا۔
کتنا تڑپ رہے تھے وہ میرے پیار کے لئے لیکن میں نے کیا کیا انہیں مار دالا وہ میری نفرت کے ساتھ ہی اس دنیا سے رخصت ہوگیے مجھے معاف کردے بابا مجھے معاف کردے کاش میں نے آپ کو سمجھا ہوتا کے آپ مجھ سے کتنا پیار کرتے ہے۔
ہانیہ حنان کے سینے پر اپنا سر رکھ کر رو رہی تھی ۔۔۔
ترپ رہی تھی کے کاش اس نے معاف کر دیا ہوتا تو آج اس کے بابا اس کے پاس ہوتے اس کے ساتھ ہوتے لیکن کیا فائدہ اب تو سب ختم ہوچکا تھا۔۔۔۔وہ بہت دور جا چکے تھے جہاں سے اب کوئی واپس نہیں آسکتا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما کیا بات ہے آج آپ جاگی نہیں ہے طبیعت تو ٹھیک یے نا اپکی۔۔۔جب حنا بیگم کمرے میں کتنی دیر تک سو رہی تھی تو حورعین بے کمرے میں داخل ہوتے ہی کھڑکی کے پردے ہتاتے ہوئے کہا۔۔
لیکن پھر بھی حنا بیگم نہیں جاگی تو حورعین ان کے پاس گئ ۔۔۔
ماما ماما اٹھیں نا۔۔
ماما آپ کیو نہیں اٹھ رہی ماما۔۔۔
ر ر ریحانننننننن پ پ پاپاااااا اپیییییی کہا ہے سب جلدی ادھر آئے ماما نہیں اٹھ رہی۔۔۔
جب حنا بیگم نا اٹھی تو حورعین نے روتے ہوئے سب کو آواز دی سب بھاگتے ہوئے کمرے میں آئے ۔۔
کیا ہوا حور بیٹا۔۔۔بلال صاحب نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا ۔۔
پاپا ماما کو کیا ہوا۔۔۔
حور نے حنا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔
حنا حنا۔۔۔۔بلال نے جب اسے اٹھایا تو وہ نہیں اٹھی وہ جا چکی تھی۔۔۔
بیٹا اپکی ماما اللہ کے پاس چلی گئی۔۔بلال نے حور کو گلے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔
ن ن نہیں آپ جھوٹ بول رہے ہے ر ر یحان بولو نا پاپا جھوٹ بول رہے یے دیکھنا ماما ابھی اٹھیں گی یہ مذاق کر رہی ہے ماما بس بہت ہوگیا مذاق چلے اٹھے ماما ماماااااااااااا۔۔
حور نے انھیں اٹھایا لیکن وہ نہیں اٹھی وہ تو مر چکی تھی جا چکی تھی حور زمین پر گیر کر بلک بلک کر رو رہی تھی۔۔
یہ کیا ہے۔۔۔بلال صاحب نے حنا کے پاس پرا ایک سفید کاغذ اٹھایااور کھول کر پرھنے لگے
میری پیاری بیٹی حور۔۔ اور پیاری بہن مریم۔۔۔
میں کتنے سالوں سے یہ تکلیف اپنے دل میں لیے بیٹھی ہو جو آج میں اس میں لیکھ رہی ہو۔۔
پہلے تو مریم میں تمھاری اور حور کی گناہ گار ہو کیونکہ میں نے بدلے کی آگ میں بہت برا گناہ کیا ہے اور تم سے بدلا لینے کے لئے میں نے تم سے تمھاری بیٹی جو الگ کروادیا کیونکہ میں تمھیں بابا کی موت کا زیمدار مانتی تھی ۔
اس لئے تم سے بدلہ لنے کے لئے میں نے بلال کے ذریعے شیخ سے حور کو خریدہ تھا کیونکہ میں حور پر ظلم ستم کر کے اپنی بدلے کی آگ ختم کرنا چاہتی تھی۔
لیکن بلال کے حور سے پیار کی وجہ سے میں ظلم نہی کر سکی اور حور کو اپنالیا لیکن میں تمھیں یہ بتانے کی ہمت نہیں کر سکی کیونکہ میں تمھاری اور حور کی نفرت کا سامنا نہیں کر سکتی تھی۔
حور ہی تمھاری بیٹی ہے تمھاری دوسری بیٹی ہو سکے تو مجھے معاف کردینا تمھاری بد نصیب بہن حنا جو اللہ کو پیاری ہونے جا رہی ہے خوش رہو ۔۔
جسے ہی بلال صاحب نے وہ خط پرا تو زمین پر گیر پرے اور رونے لگے۔۔۔
کیا ہوا بابا کیا لیکھا ہے اس میں۔۔۔
بلال کو روتا دیکھ کر حورعین ان کے پاس آئی اور وہ خط اٹھا کر پرھنے لگی۔۔۔
جسے جسے وہ خط پڑھتی گئ انسو لہو بن کر اسکی آنکھوں سے بہنے لگے ۔۔۔۔
کیاہوا حور بیٹا کیا لیکھا ہے مریم نے حور سے کہا تو اس نے خط آنہں دیا اور حنا کے سینے لگ کر رونے لگی۔۔۔
ماما یہ کیا کر دیا آپ نے مجھے ایک بار بتا دیا ہوتا۔۔۔
میری بچی میری حور۔۔۔
مریم نے حورعین کو گلے لگایا اور رونے لگی۔۔۔
اخر کار سچائی کا پردہ فعاش ہوچکا تھا اور مریم کی تینوں بیٹیاں انہیں مل چکی تھی۔۔۔۔
لیکن شیخ اور حنا کی موت سب کو یہ سبق دے گئ کے برائی سدا نہیں رہتی اور اسکو ایک نا ایک دن ختم ہونا ہوتا ہے چاہے کچھ بھی ہوجائے۔۔۔۔
نا زمین اپنی نا آسمان اپنا۔۔
نہیں دنیا میں کوئی مقام اپنا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
کندھوں پر میرے جب بوجھ پر جاتے ہے۔۔
میرے بابا مجھے شدت سے یاد آتے ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔
کچھ دل کی مجبوریاں تھی۔۔
کچھ قسمت کے مارے تھے۔۔۔
ساتھ وہ بھی چھوڑ گئے جو جان سے پیارے تھے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
زمین لرز اٹھی ۔۔۔آسمان برس اٹھا۔۔۔۔۔
دنیا کے گناہوں سے یہ جہاں پلٹ اٹھا۔۔۔
سعدیہ کاشف۔
ختم شد۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...