شیخ صاحب کیا بات ہے آپ اس طرح چپ کیو ہے جب سے ہسپتال سے آئے ہے کچھ بول ہی نہیں رہے۔۔
شیخ جب کمرے میں کرسی پر بیٹھے تھے تو مریم نے ان کے قریب جاکر زمین پر بیٹھتےہوئے پوچھا۔۔
مجھے معاف کردو مریم میں نے بہت ظلم کئے ہے تم پر اس لئے میرے ساتھ یہ سب ہو رہا ہے تم کتنی اچھی ہو تم نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا اور میں نے کیا کیا تمھیں تمھاری ہی بیٹیوں سے الگ کردیا۔۔
شیخ نے مریم کے آگے ہاتھ جورتے ہوئے کہا جو اکیس سال سے اپنی تینوں بچیوں کے لئے ترس رہی تھی۔ آج مریم کے زخم پھر تازہ ہوگئے تھے۔۔
نہیں شیخ صاحب آپ بہت اچھے ہے اور غلطی تو انسان سے ہی ہوتی ہے آپکو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اتنا ہی کافی ہے۔۔۔
مریم نے ان کے جوڑے ہاتھوں کو پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔
ارے غلطیاں تو انسان سے ہوتی ہے لیکن میں تو شیطان ہو مجھ سے غلطی نہیں گناہ ہوا ہے ایک ماں سے اسکی بیٹیوں کو الگ کرنے کا گناہ جس کی سزا مجھے مل رہی ہے۔۔۔
لیکن میں وعدہ کرتا ہو مریم میرے باقی زندگی کے جتنے بھی دن رہے گئے ہے میں تمہاری تینوں بیٹیوں کو واپس لے کر آؤنگا ۔۔
شیخ نے روتے ہوئے کہا۔۔۔
شیخ کو بلڈ کینسر تھا ۔۔جس کی لاسٹ سٹیج تھی ۔۔اسے اپنی غلطیوں کی سزا مل چکی تھی اور اسے پچھتاوا بھی تھا اور اب وہ اپنی غلطیوں کا کفارہ کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔
کہتے ہے نا اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے ۔۔مریم کا صبر اس پر پرا تھا جس وجہ سے اب وہ اس حالت تک پہنچ گیا تھا لیکن اب اسکا ایک ہی مقصد تھا وہ مریم کی تینوں بیٹیوں کو اس کے حوالے کرنے کا۔۔۔۔
مریم سے شیخ کی یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی بس وہ اللہ سے یہ ہی دعا مانگتی تھی کے اللہ اسے معاف کردے ۔۔۔
جیسا بھی ہے میرا شوہر ہے اور میں انہیں اس تکلیف میں برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔
مریم میں آج ہی اس سلیم کے پاس جاونگا جسے میں نے اپنی بری بیٹی بیچی تھی۔۔۔
شیخ نے مریم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔جو انکھوں میں آنسو لئے انہیں ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔
اکیس سال بہت زیادہ ہوتے ہے لیکن مریم نے اکیس سال اپنے۔ بچوں کی دوری سہی لیکن اب اسکا امتحان ختم ہونے والا تھا بہت جلد اس کی بیٹیاں اسے ملنے والی تھی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیا تالا یہ سلیم کہا چلا گیا۔۔شیخ نے دروازے پر تالا دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
جی کیا کام ہے صاحب کس سے ملنا ہے۔۔
جب شیخ کھرا تھا تو ایک ادمی نے شیخ سے کہا۔۔
جی بھائی جان یہاں سلیم نام کا ادمی رہتا تھا وہ کہا گیا۔۔شیخ نے بے تابی سے ہوچھا۔۔
جی صاحب سلیم تو ایک ہفتے سے اسلام آباد گیا ہوا ہے کہے رہا تھا کے اس کی بیٹی وہاں پڑتی ہے اس سے ملنے جا رہا ہو۔۔۔
ب ب بیٹی ک ک کیا نام ہے اسکا۔۔
شیخ نے حیرانی سے کہا۔۔۔
جی ہانیہ نام ہے اسکی بیٹی کا بہت اچھی بچی ہے ۔۔لیکن ایک دن وہ اچانک غائب ہوگئ تھی تو ہم نے سلیم سے ہانیہ کا پوچھا کے وہ کہا ہے تو کہنے لگا کے اب وہ اسلام آبادمیں رہے گی وہاں پڑھائی مکمل کرے گی۔۔۔
اس ادمی نے ہانیہ اور سلیم کے بارے میں شیخ کو بتایا۔
شیخ کو یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کے اسکی بیٹی کی پرورش سلیم نے اچھی کی۔۔
لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھا کے سلیم نے پرورش تو اچھی کی لیکن تکلیف بھی بہت دی اسے ایک دون کے ہاتھوں اس بیچاری کا سودا کردیااور محلے میں سب سے کہتا پھیرتا تھا کے اس کی بیٹی تعلیم حاصل کرنے گئ ہے۔۔۔۔
کیا ہوا صاحب کوئی کام تھا سلیم سے۔۔اس ادمی نے شیخ سے کہا۔۔
جی کام تو تھا کیا وہ بتا کر گیا کے کب تک آئے گا یا کوئی ادریس دے کر گیا ہو وہاں کا۔۔۔
شیخ نے سلیم کی واپسی کا اور وہاں کے پتے کا پوچھا۔۔۔۔
جی یہ تو نہیں بتایا کے کب آئے گا لیکن کہے رہا تھا کے ہانیہ وہاں کے کسی یونیورسل کالج میں پرتی ہے۔۔۔
اس شخص نے سوچتے ہوئے کہا۔۔
اوکے شکریہ اپکا ۔۔کوئی فون نمبر ہوگا اپکے پاس اسکا۔۔
شیخ نے فون نمبر مانگا۔۔جی جی میں لیکھ دیتا ہو۔۔اس نے پین نکالا اور ایک کاغذ پر نمبر لیکھا۔اور اسے دیا۔۔۔۔ یہ فون نمبر ہے اسکا۔۔۔
بری مہربانی جی۔۔شیخ نے شکریہ ادا کیا اور وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
جی ملا سلیم اپکو اور ہماری بیٹی کہا ہے لائے نہیں آپ۔۔جب شیخ گھر میں داخل ہوا تو مریم نے بے تابی سے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔
نہیں سلیم تو نہیں ملا وہ اسلام آباد گیا ہوا ہے ہانیہ سے ملنے وہ وہاں پرتی ہے۔۔
شیخ نے مسکراہتے ہوئے کہا۔۔۔
جو ان کی طرف حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔۔۔ہانیہ۔۔یہ کون ہے۔۔
مریم نے حیرانی سے پوچھا۔۔
ہماری بیٹی کا نام ہے۔۔شیخ نے مریم کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔اور جانتی ہو محلے والے کتنی تعریف کر رہے تھے ہماری بیٹی کی ۔۔
شیخ نے فخر محسوس کرتے ہوئے کہا۔۔۔
اسے ہانیہ پر بہت فخر ہو رہا تھا ۔۔آج یہ اسی بیٹی کی وجہ سے فخر محسوس کر رہا تھا جسے کبھی بیٹیوں سے لگاؤ ہی نہیں تھا اور اب ان سے ملنے کے لئے دن رات ایک کر رہا تھا۔۔۔
سچی ہماری بیٹی اتنی اچھی ہے۔۔مریم نے مسکراہتے ہوئے کہا۔۔
چلو اب باتیں ختم کرو ایسا کرو تیار ہوجاؤ ہم اسلام آباد جا رہے ہے اپنی بیٹی کو لینے۔۔۔
شیخ نے بے تابی سے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
اور موبائل نکال کر سلیم کا نمبر ملانے لگا۔۔۔۔
موبائل کی رنگ بج رہی تھی لیکن سلیم موبائل نہیں اٹھا رہا تھا۔۔
یہ کس کا نمبر ہے۔۔سلیم نے موبائل پر انجان نمبر دیکھتے ہوئے کہا ۔۔ہو سکتا ہے یہ پولیس کا نمبر ہو مجھے موبائل بند کر دینا چاہے۔۔
سلیم نے در کے موبائل بند کیا اور واپس جیب میں رکھ دیا۔۔۔
کیا بات ہے شیخ صاحب آپ کیو پریشان ہوگئے۔۔۔
مریم نے انہیں پریشان دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔
مریم سلیم کا نمبر نہیں مل رہا۔۔
اس نے دوبارہ نمبر ملاتے ہوئے کہا۔۔
تو ہم وہاں جائے گے کہا کسی کو جانتے بھی تو نہیں یے نا ہم۔۔۔۔
مریم نے شیخ سے کہا۔۔۔
تم فکر مت کرو میرا ایک بہت پرانا دوست ہے ہم وہاں چلے گے۔ میں اسے کال کرکے بتا دیتا ہو۔۔۔
شیخ نے کال ملاتے ہوئے کہا۔
مریم بھی اپنی پیکینگ میں بزی ہوگئ وہ آج بہت خوش تھی اس کی ایک بیٹی اس سے ملنے والئ تھی لیکن یہ اس بات بے خبر تھی کے ان کی بیٹی کتنی بری مشکل میں یے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام علیکم جی کون۔۔راشد صاحب نے کال اٹھاتے ہی کہا۔۔
وعلیکم سلام میرے یار مجھے نہیں پہچھانا۔۔
شیخ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
ہیےےےےےےے اوئے شیخا تو۔۔۔تو کہا سے زندہ ہوگیا سالے میرے یار جانتا ہے کتنا یاد کرتا ہو تجھے۔۔۔
راشد نے شیخ کی آواز سن کر خوشی سے حیران ہوتے ہوئے کہا۔۔۔
اور ایک بات بتا کہا ہے تو میں ملنے آتا ہو تجھے۔راشد نے اسکا پتہ پوچھا۔۔۔
اسکی ضرورت نہیں ہے میں آرہا ہو تیرے گھر اپنی بیوی کے ساتھ۔۔۔ ۔
کیا سچ میں آونا یار یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔۔کب آؤگے۔۔
راشد نے بےتابی سے پوچھا۔۔۔
آج شام کو تمھارے ساتھ ہی ہوگے۔۔۔تم یہ بتاؤ ابھی بھی اسی جگہ پر ہی ہی ہونا۔۔۔
شیخ نے راشد سے اس کے گھر کا پوچھا۔۔
جی جی وہاں ہی ہو بس تم آجاو ایک نئ خبر بھی دینی ہے تجھے۔۔۔۔۔
اوکے تو ٹھیک ہے ہم نکلتے ہے اللہ حافظ۔۔
شیخ نے کال بند کی اور مریم سے کہا۔۔۔
مریم چلو۔۔شیخ نے موبائل جیب میں رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
تو اب یہ لوگ اسلام آباد کا سفر کرنے والے تھے یہ شیخ اس بات سے بے خبر تھا کے جس دوست کے گھر وہ جا رہا یے وہ ہی اسکا سب سے بڑا دشمن ہے یہ تو اب وہاں جا کر ہی پتا چلے گا کیونکہ بہت بڑا دھماکہ ہونے والا تھا ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
عائشہ میری بات سنو آج میرا دوست اور اسکی بیوی آرہے ہے تم سارے انتظامات کر وادو۔۔
راشد نے کچن میں کھڑی عائشہ سے کہا جو راشد کے لئے چائے بنا رہی تھی۔۔۔
اوکے ٹھیک ہے میں سارے انتظامات کروادونگی۔۔۔
عائشہ نے کچھ پوچھے بغیر چائے کا کپ ان کی طرف برھاتے ہوئے کہا اور دوسرا کپ اٹھا کر ریحان کے کمرے میں چلی گئ۔۔۔
ریحان بیٹا کیا بات یے تم اتنے پریشان کیو ہو۔۔
جب عائشہ بیگم کمرے میں داخل ہوئی تو ریحان زمین پر بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا تھا ۔۔تو انہوں نے اس سے پوچھا۔۔
کیونکہ ریحان کی عادت تھی وہ جب بھی پریشان ہوتا تھا تو ایسے ہی زمین پر بیٹھ جاتا۔۔۔
ماما آج صبح حور ملی تھی ۔۔۔۔
ریحان نے سیدھا ہوکر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
کیا کہا اس نے۔۔عایشہ نے بے تابی سے پوچھا۔۔۔
ماما وہ کہے رہی تھی کے اسے ساری سچایی پتہ چل چکی ہے وہ شرمندہ ہے اور مجھ سے معافی مانگ رہی تھی۔۔۔۔اور کہے رہی تھی کے میرے ساتھ رہنا چاہتی ہے مجھ سے محبت کرتی ہے۔۔۔
اور تم نے کیا کہا بیٹا۔۔۔عائشہ بیگم نے حیرانی سے کہا۔۔۔
کیا کہنا تھا میں نے اسے بے عزت کیا اور کہا کے مجھے اس سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا۔۔
یہ کیو بیٹا۔ اسے کتنی تکلیف ہوئی ہوگی ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا تمھیں۔۔۔عائشہ نے اس سے کہا۔۔
ماما میں اگر ایسا نا کرتا تو وہ پھر یہاں کی مصیبتوں میں پھنس جاتی اور میں اسے دوبارہ تکلیف نہیں دے سکتا۔
اس تکلیف سے وہ میری دوری کی تکلیف بہتر ہے اور میں اسے آزاد کردونگا طلاق کے پیپر بھی بھیج دونگا۔۔۔
ریحان نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔
تو کیا بیٹا تم رہے پاوگے اس کے بغیر تم تو اتنی محبت کرتے ہو اس سے اور جہاں تک میں حورعین کو جانتی ہو وہ تم سے الگ کبھی نہیں ہوگی۔۔۔۔ تم بس کچھ مت کرو اللہ پر چھوڑ دو اتنا سب ٹھیک ہو گیا ہے اگے بھی ہوجائے گا۔۔اور رونا بند کرو تم جانتے ہو نا میرا دل دکھتا یے تمھارے آنسو دیکھ کر۔۔
عائشہ بیگم نے اس کے انسو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔
چلو اٹھو فریش ہوجاو اپنی حالت ٹھیک کرو شام کو تمھارے ابو کا دوست اور اس کی بیوی ارہی ہے۔۔۔مجھے بھی تیاری کرنی ہے۔۔عائشہ بیگم نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔اور چلی گئ۔۔۔
ناجانے کیا ہونے والا تھا اگے کیا ریحان اور حورعین کبھی ایک ہو پائے گے اور کیا شیخ کبھی جان پاے گا کے اس کی دونوں بیٹیاں اس کے آپنے دوست کے ہی قبضے میں ہے۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
م م م مریم ت ت تم۔۔جب عائشہ نے مریم کو دیکھا تو وہ حیران ہوئی اس سمجھ نہیں آرہی تھی۔۔کہ وہ کیا کرے۔اس نے اسے گلے لگایااور رونے لگی۔۔راشد اور شیخ ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔۔
کیا تم دونوں ایک دوسرے کو جانتی ہو۔۔راشد نے عائشہ سے پوچھا۔۔۔جی راشد یہ میری دوست ہے میرے ساتھ کالج میں پرتی تھی اور وہ ہماری ب۔۔۔۔۔
عائشہ بیٹی کہتے ہی روک گی کیونکہ عائشہ نہیں چاہتی تھی کے راشد کو پتا چلے کے شانزے ہی مریم کی بیٹی ہے۔۔
کیا ہوا روک کیو گئ کیا کہنے لگی۔۔۔راشد نے حیرانی سے پوچھا۔۔
جی وہ میں کہے رہی تھی کے ہماری بہت اچھی دوستی تھی۔۔۔عائشہ نے فٹ سے بات پلتی اور مریم کی طرف دیکھ کر چپ رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔
لیکن مریم کی نظریں ادھر اودھر اپنی چھوٹی بیٹی کو ڈھونڈ رہی تھی ۔جو اس نے عائشہ کے حوالے کی تھی لیکن وہ اس بات سے بے خبر تھی کے اس کی اس بیٹی کو بھی راشد نے اغوا کر رکھا تھا۔۔
اچھا آپ لوگ بیٹھے میں چائے بنا کر لاتی ہو۔۔میں بھی چلتی ہو تمہارے ساتھ۔
جب عائشہ اٹھنے لگی تو مریم نے بھی اسے کہا۔۔اور دونوں کچن میں آگئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
عائشہ میری بیٹی کہا ہے مریم نے کچن میں آتے ہی پوچھا۔۔
جو پریشان مریم کی طرف دیکھ رہی تھی کے مریم کو کیا جواب دے۔۔۔
بولو نا عائشہ کہا ہے میری بچی۔۔۔
مریم نے پھر سے کہا۔۔
مریم وہ میں نے تمہیں بتایا تھا نا کے راشد جیل میں تھے تو جب وہ واپس آئے تو انہوں نے شانزے کو اغوا کر لیا اور مجھے تب سے لے کر اب تک بلیک میل کر رہے ہے کے میں اپنی پھتیجی کے ساتھ اپنے بیٹے ریحان کی شادی کرلو تاکہ میرا بیٹا اور میں حورعین کے ساتھ ظلم کرے اوروہ میرے بھائی سے بدلہ لے سکے۔۔
عائشہ نے شروع سے لے کر ساری بات مریم کو بتائی۔۔۔جو اسکی طرف حیرانی سے آنکھوں میں آنسو لئے دیکھ رہی تھی۔۔۔
یہ نہیں ہوسکتا عائشہ ایسا میرے ساتھ ہی کیو ہو رہا ہے میری تینوں بیٹیاں مجھ سے اتنے سالوں سے دور ہے اور میں کتنی بد نصیب ماں ہو جو منزل کے قریب ہو کر بھی دور ہو۔۔۔مریم نے روتے ہوئے کہا۔۔۔
دیکھوں مریم صبررکھو اللہ سب ٹھیک کرے گا۔۔
شاید تمہیں اب یہ سوال کرنا چھوڑ دینا چاہیے کہ “ﷲ رب العزت جلدی کیوں نہیں نوازتا….؟” کہ وہ “جلدی تمہاری دعاؤں پر کن کیوں نہیں کہتا….؟” اور تمہیں اپنی ذات سے یہ سوال کرنا چاہئیے کہ “میں انتظار کیوں نہیں کر سکتی…؟”
ہاں تمہیں اکثر ایسا لگتا ہے کہ کچھ چیزیں تمہیں فوراً چاہئیں ہوتی ہیں اور جب وہ فوراً نہیں ملتیں تو ایسا لگتا ہے کہ اگر بعد میں ملیں گی تو ان کی ویسی چاہ نہیں رہے گی جیسے ابھی ہے… اور پھر اکثر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ جب اس چیز کی طلب ہی نہیں رہتی تو پھر کیوں ﷲ رب العزت ہمیں وہ چیز عطا کرتا ہے….؟؟ کیوں ہمیں وہ چیز واپس دیتا ہے…؟؟
پتا ہے ایسا انسان کب سوچتا ہے…؟؟ جب وہ بہت درد میں ہوتا ہے , جب وہ الجھا ہوتا ہے اس ایک چیز کے لئے جو لاکھ کوششوں کے باوجود اسے مل نہیں پاتی… جب دعائیں بےاثر لگنے لگتی ہیں…! اصل میں ﷲ رب العزت کبھی بھی دیر نہیں کرتا…. بس اس وقت ہم اتنی تکلیف میں ہوتے ہیں کہ ایک لمحہ بھی صدیوں کے برابر لگتا ہے….!اس لمحے ہم اس کی مصلحتوں کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے کہ ﷲ رب العزت کبھی بھی دیری نہیں کرتا وہ ہمیشہ ہمیں وہی دیتا ہے جس کی ہمیں ضرورت ہوتی ہے…!
ابھی تمہیں لگ رہا ہو گا کہ بہت دیر ہو گئی ہے اب تمہیں کچھ ملے گا ہی نہیں… اب تمہاری دعاؤں پر کن کہا ہی نہیں جائے گا…. تم یہ کیوں نہیں خود سے کہتے کہ اگر دیر ہو رہی ہے تو اس خواہش سے بھی بڑھ کر ملے گا…؟ کن ابھی نہیں کہا گیا تو جب بھی کہا جائے گا تو ہر چاہت سے نواز دیا جائے گا…؟ تم یہ تو گمان کر لیتے ہو کہ اب اگر وہ چیز ملے گی تو اس کی ویسی چاہ نہیں رہے گی…. تم خود سے یہ کیوں نہیں کہتے کہ ابھی اس کا ملنا بہتر نہیں ہے , جب بھی ملے گی بہتر ملے گی….؟؟
ضد میں آ کر تم بہت کچھ سوچ لیتے ہو , اور پھر ﷲ رب العزت سے بھی وہی ضد لگا لیتے ہو کہ اگر تو نے ابھی نہیں دی وہ چیز تو بعد میں بھی مجھے اس کی ضرورت نہیں…! کیا تم اس کا فرمان بھول بیٹھے ہو…؟؟ وہ کیا فرماتا ہے تم سے…!
وَ عَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ عَسٰۤی اَنۡ تُحِبُّوۡا شَیۡئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ وَ اَنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿سورۃ البقرہ﴾
” اور ممکن ہے تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور وہ ( حقیقتاً ) تمہارے لئے بہتر ہو ، اور ( یہ بھی ) ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ ( حقیقتاً ) تمہارے لئے بری ہو ، اور اﷲ خوب جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔”
عائشہ نے اسے بہت پیار سے سمجھایا اور گلے لگاتے ہوئے حوصلہ دیا۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...