حنا میری بات کان کھول کر سن لے آپ اس انگوٹھی کے راز کے بارے میں حور کو پتا نہیں چلنا چاہیے
میں نہیں چاہتا کے حور کو سچائی کی بھلک بھی لگے سمجھ گئی نا۔۔
بلال صاحب نے حنا بیگم کے ہاتھ سے چائے کا کپ لیتے ہوئے کہا جو انھیں بہت حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔۔۔
آج بلال صاحب کو گھر واپس آئے ایک ہفتہ گزر گیا تھا اور ان کی صحت پہلے کی نسبت کافی بہتر ہوگئ تھی ۔لیکن پھر بھی انھیں وہ انگوٹھی والی بات پریشان کر رہی تھی تو انہوں نے حنا بیگم کو حور کو کچھ بھی بتانے کے لئے منا کیا تھا۔۔۔
لیکن بلال صاحب کب تک آپ اس بات کو چھپا کر رکھے گے ایک نا ایک دن تو حور کو سب پتا چلنا ہی ہے۔۔۔۔۔
دیکھو حنا بیگم پتا چلے گا تو دیکھا جائے گا لیکن کوشش کرو کے ابھی اسے کوئی بات پتا نا چلے۔۔۔۔۔۔
بلال صاحب نے سختی سے کہا پریشانی ان کے چہرے پر صاف وضح ہو رہی تھی۔۔۔
کیا پتا چلے گا ماما۔۔۔۔
حنا بیگم جب بلال صاحب سے بات کر رہی تھی تو حور نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا جسے دیکھ کر دونوں میاں بیوی کے ہوش ہی اوڑھ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ک ک کچھ نہیں بیٹا وہ ایسے ہی۔۔۔
حنا بیگم نے گھبراتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
لیکن ماما۔۔اچھا حور چھوڑو سب یہ بتاؤ کے سٹڈی کسی چل رہی ہے۔۔
حور نے حنا بیگم سے کچھ کہنا چاہا لیکن انہوں نے بات کا موضوع بدلتے ہوئے حور سے اسکی پڑھائی کے بارے میں پوچھا۔۔۔۔
شکر ہے اللہ کا ماما سب ٹھیک چل رہا ہے۔۔
آپ بتائے بابا کسی طبیعت ہے ابھی اپکی۔۔
حور نے بلال صاحب کے پاس جاکر ان سے گلے ملتے ہوئے کہا۔۔۔۔
میں تو ٹھیک ہو بیٹا آپ بتاؤ کیا کہنا چاہتی ہو۔۔۔
بلال صاحب حور کے اس طرح مکھن لگانے کی وجہ سمجھ گئے تھے ۔۔۔تو حور نے اپنی زبان نکالتے ہوئے اپنی کیفیت چھپانے کی کوشش کی۔۔۔۔۔
ایکچلی بابا ہمارا پورا کالج پیکنک پر جا رہا ہے تو مجھے اس سلسلے میں آپ کی پرمیشن چاہیے۔۔۔۔
حور نے انکی طرف دیکھتے ہوئے معصومیت جیسا منہ بناتے ہوئے کہا۔۔۔۔
نہیں کہی نہی جاوگی تم سمجھی ۔۔
اس سے پہلے بلال صاحب اسے کچھ کہتے حنا بیگم نے حور کو صاف منا کردیا۔۔۔
لیکن ماما میرے سارے فرینڈز جارہے ہے۔ پلیز ماما پلیز پلیز
حور نے انکا چہرا اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔۔۔
حنا بیگم میری بات سنو۔۔۔۔
بس بلال صاحب میں کچھ نہیں سنوگی ۔۔۔
بلال صاحب نے کچھ کہنا چاہا تو ۔۔۔
حنا بیگم نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں منا کیا۔۔۔
دیکھو حنا بیگم میری بات سنو تم کیا چاہتی ہو کے حور اکیلی نا جائے تو ہم کونسا اسے اکیلا بھیجے گے ہانیہ اور حنان کو بھی اس کے ساتھ بھیج دینگے۔۔
کیو حور بیٹا تھیک ہے نا۔۔۔۔
بلال صاحب نے حور کی طرف مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
ٹھیک ہے پاپا ٹھینک یو سو مچچچچچ۔۔
حور نے انکے گال چومتے ہوئے کہا اور پھر اپنی ماں کے پاس اتے ہوئے بولی۔۔
کیوں ماما ابھی تو کوئی مسلہ نہیں ہے نا۔۔۔۔
اچھا میری ماں جاؤ لیکن اپنا خیال رکھنا۔۔۔
آیی لو یو ماما ٹھینک یو۔۔۔
حور انکے گلے لگتے ہوئے بولی اور وہاں سے چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہانیہ اپی بات سنو ۔۔
حور نے کمرے میں آتے ہی کہا۔۔
ہانیہ جو تیز نیلے کلر کی شلوار قمیض پہنے اور اسکے ساتھ سفید نیٹ کا دوپٹہ ایک سائڈ پر لے رکھا تھا لمبے بالوں کو کیچر میں قید کر رکھا تھا آنکھوں میں کاجل لگا رکھا تھا جو اسکی آنکھوں کو اور بھی دلکش کر رہا تھا وہ بیڈ پر ٹانگیں لمبی کرکے ہاتھ میں کوئی کتاب لئے پڑھ رہی تھی تو ہانیہ نے اس کے ہاتھ سے کتاب لیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا بات ہے حور بولو۔۔
ہانیہ سیدھی ہوکر بیٹھتی ہوئی بولی۔۔۔
اپی آپ اپنا بیگ پیک کرلے ہم گھومنے جارہے ہے ۔۔۔
حور نے ہانیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا۔۔۔۔
لیکن تم نے تو کالج کی طرف سے جانا تھا تو کیا اورو کی اجازت ہے۔۔۔۔
ہانیہ نے دھیرے سے کہا۔۔۔۔
ارے میری پیاری بہینا اجازت ہے آپ بس تیاری کرے میں ایسا کرتی ہو حنان کو بھی بتا دیتی ہو۔۔۔۔
ہانیہ جو اپنے بالوں کو کیچر سے ازاد کرکے انھیں ٹھیک کر رہی تھی تو حنان کے ذکر پر اسکی طرف حیرانی سے دیکھنے لگی۔۔۔
کیا حنان بھی جائے گا۔۔۔۔
ہانیہ نے دھرکتے دل کے ساتھ اس سے پوچھا۔۔۔۔
جی اپی حنان بھی جائے گا ورنہ ماما نے ایسے کہا جانے دینا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
حور نے ہانیہ کو کہا۔۔جس کی نظریں موبائل پر تھی۔۔۔
ہمممممم اچھا۔۔۔۔۔
ہانیہ نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
ناجانے کیا بات تھی جو حنان کا نام سن کر ہانیہ کی دل کی دھرکن بے قرار ہوجاتی تھی۔۔۔
کیا یہ دل میں اسکی محبت کی دستک تھی اور اگر تھی تو کیا حنان بھی اس سے محبت کرتا تھا اور کیا رنگ لائے گی ہانیہ کی یہ محبت۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حور نے موبائل پر حنان کا نمبر ڈائیل کیا ۔۔کال پہلی ہی بیل پر اٹھالی گئی تھی۔۔۔
ہیلو حنان۔۔
حور نے بےتابی سے کہا۔۔۔
جی حور کیا حال ہے۔۔دوسری طرف حنان نے کہا جس کی نظریں لیپ ٹاپ کی سکرین پر تھی شاید وہ کسی کام میں مصروف تھا۔۔۔۔
حنان تم بزی تو نہیں تھے۔۔۔
حور نے حنان کے لہجے میں مصروفیت محسوس کی تو کہا۔۔۔
نہیں نہیں بس ایسے ہی کچھ کام تھا وہ کر رہا تھا۔۔۔تم بولو خیریت۔۔۔۔۔۔۔
حنان ہم کالج کی طرف سے پکنک پر جارہے ہے اور ماما اکیلے جانے نہیں دے رہی تو تم فری ہو تو کیا ہمارے ساتھ چلوگے۔۔۔ اور ہانیہ بھی چلےگی ہمارے ساتھ۔۔۔
حور نے ہانیہ کی طرف شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔جو اسکی اس ہنسی کو سمجھ گئ تھی۔۔۔۔
جی ٹھیک ہے کب جانا ہے۔۔
حنان نے اس سے جانے کا وقت پوچھا۔۔۔
کل صبح نکلنا ہے کالج کی وین جائے گی۔۔۔
حور نے بےتابی سے کہا۔۔۔۔
اوکے تم لوگ ریڈی رہینا میں آجاؤںگا۔۔۔
حنان نے حور سے کہا۔۔۔
ٹھینکس یار۔۔ چلو کل ملتے ہے میں بیگ پیک کرلو۔۔۔
حور نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کال بند کردی۔۔۔۔۔۔
یاااااااہووووووووووووو تو پھر کل ہم جارہے ہے۔۔۔
حور نے ہانیہ کو بازوں سے پکر کر گول گھماتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اوففففففففف آرام سے مجھے چکر ارہے ہے۔۔۔
ہانیہ نے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اوکے اوکے سوری چلو ریڈی ہوجاؤ اور ہاں وہ دریس رکھنا گلابی والی دونوں ایک ساتھ پہنے گے۔۔۔
حور تو اکثر جینز ہی پہنتی تھی لیکن ہانیہ کے کہینے پر اس نے بھی شلوار قمیض پہننا شروع کردی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن جب حور اور اور ہانیہ بازار شوپنگ کے لئے گئی تھی تو حور جینز خرید رہی تھی تو ہانیہ نے اسے روکا۔۔۔۔
یہ کیا ہے حور تم اب ایسے کپرے نہیں پہنو گی اوکے۔۔۔۔
لیکن آپی۔۔۔۔
بس حور میں نے کہا نا ۔۔
ہانیہ نے سختی سے منا کیا۔
۔اوفففففف ہانیہ اپی ایک ماما کم تھی کے آپ بھی اب لیکچر دے رہی ہے۔۔۔
حور نے منہ بناتے ہوئے کہا۔۔۔
اوکے ٹھیک ہے تمھاری مرضی اب کچھ نہیں بولوگی تمھیں۔۔۔
ہانیہ نے ناراض ہوتے ہوئے کہا اور جا کر ایک کرسی پر بیٹھ گئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔
یہ دیکھیے اپی یہ کیسا ہے ۔۔
حور نے ایک گلابی کلر کی فراک اسکو دیکھاتے ہوئے کہا۔۔۔
ہمممم اچھا ہے ہانیہ نے ناراضگی سے کہا۔۔۔۔۔
تویہ ایک اپکے لیے اور میرے لئے۔۔۔
ہانیہ جو ناراضگی سے سر جھکائے بیٹھی تھی۔تو حور کی بات پر حیرانی سے اسکی طرف دیکھا۔۔۔
سچی۔۔۔ہانیہ نے مسکراہتے ہوئے کہا۔۔۔
موچیییییی ۔۔۔حور نے اس کے گلے لگتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیا ہوگیا یہ تم پہنو گی سچی میں۔۔۔۔
جب حور نے کپرے نکال کر حنا بیگم کو دیکھائے تو انہوں نے حیران ہوتے ہوئے کہا انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کے حور اب سیدھے سادھے کپڑے پہننے کے لیے راضی ہوگئ۔۔۔
ماما یہ اپی کے کہنے پر لئے ہے میں نے۔۔
حور نے ہانیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
شکریہ بیٹا تمھاری وجہ سے میری بیٹی سیدھی راہ پر چلنے لگی۔۔۔
حنا بیگم نے ہانیہ کا چہرا اپنے ہاتھ میں لے کر اسکا ماتھا چومتے ہوئے کہا جسے دیکھ کر ہانیہ کی آنکھیں نم ہوگئ۔۔۔
کیا بات ہے بیٹا کیوں رو رہی ہو۔۔
انتی میری ماما ہوتی وہ بھی اپکی طرح پیار کرنے والی ہوتی مجھے کبھی اپنی ماں کا پیار نہیں ملا لیکن اپکو دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا ہے کے ماں اپکے جسے ہی ہوگی۔۔۔
ہانیہ نے روتے ہوئے کہا۔۔۔
نہیں میری جان ایسے نہیں روتے تم بھی تو میری بیٹی کی طرح ہو میری حور کی طرح اور آج کے بعد تم بھی مجھے ماما کہوگی اوکے۔۔۔۔۔
ہانیہ کو دیکھ کر حنا بیگم کی آنکھیں بَھی نم ہوگئ۔۔
اوففففف بس کرے یہ رونا چلے ماما کچھ کھانے کو دے دو بھوک لگی یے مجھے۔۔
حور جب ان دونوں کی باتوں سے بور ہوئی تو اس نے بات بدلی۔۔۔اور وہ کچن میں انکے لئے کچھ کھانے کے لئے لینے چلی گئ اور وہ دونوں بھی کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حور بی بی یہ پھول کوئی آپکے لئے دے کر گیا یے۔۔
حور جب ہانیہ سے باتیں کر رہی تھی تو گھر کا ملازم ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لیتے ہوئے اندر آیا اور اسکی طرف بڑھاتے ہوئے بولا ۔۔
جی آپ جائے حور نے پھولوں کا گلداستہ لیتے ہوئے کہا۔۔۔
یہ کون بھیج سکتا یے ۔۔۔۔حور نے بہت حیرانی سے ان سرخ پھولوں کے گلداستے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔۔۔
تم اس کارڈ میں دیکھو شاید کچھ لکھا ہو۔۔۔
ہانیہ نے گلدستے پر لگے کارڈ کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔
حور نے کارڈ کو پھولوں کی گرفت سے نکالا اور کھول کر پرھنے لگی۔۔۔اس پر کچھ اشعار لیکھے تھے۔۔۔۔۔۔
وہ وقت کا کھیل تھا جو بیت گیا…!
اب ہم کھیلیں گے اور وقت دیکھے گا…!🔥۔۔
تمہیں دیکھا ۔۔تمھیں چاہا تم سے ہی پیار کر بیٹھے۔۔
سنو پتھر دل والوں یہ چاہت کچھ اور ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
حور کارڈ پر لکھی گئی شاعری کو بہت غور سے پرھ رہی تھی۔۔۔ جس کے اخر میں آر ایچRh لکھا تھا۔
یہ کون ہو سکتا ہے ۔
حور نے حیرانی سے کہا۔
خیر جو بھی ہو مجھے کیا ۔
حور نے لاپرواہی سے کہا۔۔چلو اپی مجھے تو نیند ارہی ہے میں سونے لگی ہو۔۔
حور نے پھولوں کو ایک سائڈ پر رکھا اور لیٹ گئ۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...