میرا عقیدہ ہے کہ کوئی بھی تحریک اکائی سے شروع ہوتی ہے اور اسے شروع کرنے کا مقصد پہلے سے جاری مثبت نوعیت کی تحریکات کی نفی نہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ متعلقہ معاملات ، موضوعات اور تحریکات کے شانہ بہ شانہ چل کر اُن کے ارتقائی مراحل کی رفتار میں تیزی لائی جائے۔ اس اعتبار سے ہر ایک تحریک دوسری تحریک کے لیے مضبوطی کا باعث ہونی چاہیے نہ کہ اسے کمزور کرنے کا۔ اس طرح اگر سب مل کر ارتقائی مراحل میں حسد کی بجائے مسابقت کی روح پیداکریں تو ہر ذہن میں جنم لینے والی نئی تحریک صحت مند ارتقا کا باعث بن سکتی ہے۔ مشاورت کے عمل کا بھی یہی مطلب ہے کہ کسی ایک ذہن میں جب کسی عمل کے متعلق کوئی یا تصور اُبھرتا ہے جو ایک خواب کا درجہ رکھتا ہے تو پھر کئی ایک ذہن مل کر اس پر غور و خوض کریں اور مشاورت کر کے نئی جہتوں کا تعین کر کے ارتقا کی رفتار میں خاطر خواہ اضافہ کر سکیں۔ یہی حال ایک نسل سے دوسرے نسل کو معاملات منتقل کرنے کا ہوتا ہے۔ بہترین معاشرت کے بہترین اصول بہ منزلہ امانت ہیں جنہیں ایک نسل اپنی آئندہ نسل کے سپرد کرتی ہے۔گویا ایسے والدین جو ایک حسنِ انتطام کے تحت زندگی گزارتے ہیں اور پھر نسلِ انسانی سے تعلق رکھنے والے اپنے تمام مُفوّضہ معاملات پوری ذمہ داری کے ساتھ اگلی نسل کو تفویض کر کے خدا کے حضور حاضر ہو جاتے ہیں تو جہاں ایک طرف ان کی روح عالمِ برزخ میں بھی سکون اور قرار پکڑتی ہے اور وہ نفسِ مطمئنہ لے کر اپنے خالق و مالک کے حضور حاضر ہو جاتے ہیں اور انہیں کوئی پچھتاوا نہیں ہوتا وہیں دوسری طرف اِس جہانِ فانی میں اُن کی تربیت یافتہ نسلیں معاملات زندگی کو اُن کی فراہم کردہ مضبوط بنیادوں پر ان سے بہتر رنگ میں آگے بڑھاتی اور نیک نامی کا باعث بنتی ہیں۔ پس ہمیں ہر دو اعتبار سے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہر اخلاقی عمل کی امانت اگر ہمارے بزرگ ہمارے سپرد کر گئے ہیں تو ہم نے اس کی ترقی میں کتنا حصہ ڈالا ہے؟کیا ہم نے اخلاقِ سیئہ یعنی برے اخلاق کو ختم کرنے اور اخلاق حسنہ یعنی اچھے اخلاق کو رواج دینے میں مثبت کردار ادا کیا ہے؟ اور کیا ہم آئندہ نسلوں کی تربیت میں مثبت کردار ادا کر رہے ہیں؟ اگرجواب ہاں میں ہے تو حساب یقیناً آسان ہوگا۔
اپنا خیال رکھیں۔ اللہ آپ کے ساتھ ہو۔ آمین
آپ کا اپنا
)احمدمنیبؔ(
)یکم اپریل 2022 ء(