آج 23 فروری ہے۔ عجیب موسم ہے۔ نہ خزاں ختم ہوئی ہے نہ بہار شروع اور نہ ہی سردی زوروں پر ہے۔ آج کا دن بہت اہمیت کا حامل ہے۔ آج شہر کے سب سے بڑے سرکاری سکول میں ایک تقریب منعقد ہو رہی ہے۔ یہ تقریب اس مہینہ اور اس تاریخ کو ہر سال منعقد ہوتی ہے۔ اور عام طور پر اسے دسویں جماعت کی الوداعی تقریب کہتے ہیں۔
خزاں اور بہار گلے مل رہی ہیں۔ درخت تیزی کے ساتھ اپنے لباس بدل رہے ہی۔ خاکستری، بھورا اور نقرئی رنگ کا لباس سبز خلعت میں بدل رہا ہے۔ درختوں کے سوکھے ہوئے پتے ہواؤں میں اُڑ رہے ہیں۔اُڑتے ہوئے اور لڑھکتے ہوئے یہ پتے سونے کے سکے محسوس ہوتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں ادھر اُدھر بکھرے ہوئے ہیں۔ یہ سنہری رقص کئی دنوں سے جاری ہے۔ آج ہوا قدرے تیز ہے اور اس تیز ہوا میں درختوں کے یہ آنسُو کڑ، کڑ، کڑاک کی آوازیں بھی پیدا کر رہے ہیں۔
اسمبلی گراؤنڈ میں الوداعی تقریب جاری ہے۔ جوڈو کراٹے کے ماہر چند بچے کرتب پیش کر رہے ہیں۔ رنگین کرسیاں اور دریاں ماحول کو رنگین بنائے ہوئے ہیں۔ بچوں اور اساتذہ نے خوبصورت لباس تن زیب کر رکھے ہیں۔ ہر طرف مسرت رقصاں ہے لیکن کمروں سے دور ۔۔۔۔۔ گیلریوں سے دور۔۔۔۔۔ صرف گراؤنڈ میں۔ آج کمرے ویران پڑے ہیں۔ A سیکشن میں چند کرسیاں اور ڈیسک بے ترتیب پڑے ہوئے ہیں۔B سیکشن میں کچھ بھی نہیں۔ کرسیاں باہر گراؤنڈ میں اساتذہ کے بیٹھنے کے کام آرہی ہیں۔ کمرہ بالکل ویران اور خاموش ہے۔ C سیکشن میں فرنیچر اسی طرح بکھرا پڑا ہے جس طرح پہلے تھا۔ تیسرے ڈیسک پر ایک لڑکا بیٹھا ہے جس نے اپنا سر جھکایا ہوا ہے۔ اس کو باہر اسمبلی گراؤنڈ کی پارٹی، لڑکوں کے شور و غل اور خوبصورت لباس سے کوئی غرض نہیں۔ اس لڑکے نے یہاں 5 سال گزارے ہیں۔ 5 سال اس ادارے کے پھولوں کی خوشبو میں مہکتا رہا ہے۔ 5 سال اس نے اس کمرے اور اس سکول میں سانس لیا ہے۔ اب اس ادارے اور اس لڑکے میں کوئی فرق نہیں رہا۔ دونوں ایک دوسرے سے مانوس ہو چکے ہیں۔
ایک دوسرے کے راز و نیاز سے واقف ہیں۔ یہ دوستی زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہے۔ کمرے کی کھڑکیاں، روشن دان، تختہ سیاہ، گرد آلود فرش اور دروازہ سب اس کے دوست ہیں۔
اسمبلی گراؤنڈ میں کوئی لڑکا خوبصورت انداز میں گیت گا رہا ہے۔ کھڑکی سے باہر ہوا تیز ہوگئی ہے ۔ پتوں کی آواز اب شور میں بدل رہی ہے اور کڑ ، کڑ کی جگہ تڑ، تڑ، تڑ کی موسیقی رُوح میں اُتر رہی ہے لیکن کمرے میں سکون ہے۔خاموشی ہے اور پُرانی یادوں کا دھواں ہے۔
لڑکا اب دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا ہے۔ اس کا چہرہ مسجد کی طرف والے گراؤنڈ کی طرف ہے۔ دُور ہاسٹل کی سرخ عمارت آج پہلی دفعہ دھندلا رہی ہے۔ گراؤنڈ کی وسعت بہت بڑھ گئی ہے اتنی زیادہ کہ فٹ بال کا آخری پول نظر بھی نہیں آرہا۔ درخت اپنے سارے پتے گرا چکے ہیں جبکہ سبز رنگ کے چھوٹے چھوٹے مخملی پتے شاخوں پر ننھے منے کیڑوں کی طرح نظر آرہے ہیں۔
وہ لڑکا صبح سے دسویں C کے کمرے میں بیٹھا ہے اور غالباً اسی کمرے اور اسی ڈیسک پر اُس نے پانچ سال گزارے ہیں۔ یہ پانچ سال پانچ صدیوں کے برابر ہیں۔ ان پانچ سالوں میں اُس نے کئی دوست بنائے جو سارے باہر اسمبلی گراؤنڈ میں خوشیاں منا رہے ہیں۔ لڑکے کی نظر چھت کی طرف اُٹھی ہوئی ہے۔ یہ چھت بہت مضبوط ہے اور کئی سالوں سے اس پر خراش نہیں آئی لیکن آج یہ چھت پہلے جیسا نہیں رہا۔۔ آج یہ چھت کچھ اجنبی سا ہے۔یوں لگ رہا ہے کہ تھوڑی دیر بعد یہ دھڑام سے گر جائے گا۔ نہیں بلکہ یہ چھت آسمان کی طرف پرواز کر جائے گا۔ لڑکے کا چہرہ سانولا ہے جس پر سبزہ نمودار ہو رہا ہے۔ آنکھوں میں چمک ہے لیکن آج اس چمک میں نمی بھی موجود ہے۔
آج بڑا عجیب دن ہے۔ موسم کی طرح آج ہر چیز کی جسامت اور قد و قامت بدل گئی ہے۔ مسجد کے سامنے والا گراؤنڈ وسیع ہو گیا ہے جبکہ کمرہ تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ ڈیسک بھی بہت چھوٹا ہوتا جا رہا ہے۔ لڑکا ڈیسک پر بڑی مشکل سے بیٹھا ہے حالانکہ گزشتہ پانچ سال سے یہ ڈیسک اُس کے لیے کافی تھا۔ آج ڈیسک کو کیا ہو گیا ہے۔ کیا یہ تقاضائے فطرت ہے یا کوئی اور چیز۔
گزشتہ پانچ سالوں کا ایک ایک لمحہ اُس لڑکے کے ذہن میں ہتھوڑے برسا رہاہے ہر ضرب ایک آنسو کا پیش خیمہ بن رہی ہے ڈیسک پر آنسوٹپ ٹپ گِر رہے ہیں۔ چند قطرے اس کی قمیض کو بھی نم آلود کر گئے ہیں۔ اُسکے ذہن میں ایک فلم چل رہی ہے۔ فلم کا ایک ایک منظر صاف و شفاف آئینے ی طرح اس کی آنکھوں کے آگے گھوم رہا ہے۔ یک منظر میں وہ پہلے دن اپنے والد کے ساتھ سکول میں داخل ہو رہا ہے۔ اس کے دونوں بازوں کے بٹن غائب ہیں اور وہ حیرت بھری نظروں سے سکول کی پر شکوہ عمارت کو تک رہا ہے۔
دوسرا منظر گرمیوں کے موسم کا ہے۔ اُن کی جماعت شیشم کے درخت تلے بیٹھی ہے۔ استاد محترم کلاس کو احسان دانش کی نظم سے قبل اس کی حیرت انگریز زندگی اور جہد مسلسل کے واقعات بتا رہے ہیں۔ ماحول پُر سکون ہے۔ شمال کی طرف دور کہیں ایک ٹریکٹر کھیتوں میں کام کر رہا ہے۔ ٹریکٹر پر پرانا بھارتی گیت ماحول کو اداس اور رومانوی کر رہے ہیں۔ زندگی بہت پُر سکون ہے۔ دور دور تک دکھوں اور غموں کے آثار نہیں۔ اُس کا پہلی جماعت کا پرانا ساتھی اُس کے ساتھ بیٹھا احسان دانش کے اشعار لکھ رہا ہے۔
ایک اور منظر سردیوں کے موسم کا ہے۔ آج پانچواں پیریڈ ڈرل کا ہے لیکن اُن کا پی ٹی آج چھٹی پر ہے۔ لڑکے گرپوں کی شکل میں فٹ بال گراؤنڈ میں بیٹھے ہیں۔ رات خوب پالا پڑا تھا اور اور لحاف بھی اُس کو گرم رکھنے میں ناکام رہے تھے لیکن اب سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ مشرق کی طرف نہر کے ساتھ مالٹوں کے باغ میں درختوں پر بور اُتر آیا ہے۔ مالٹوں کے بور کی میٹھی میٹھی مہک اُس کے دل و دماغ میں اُتر رہی ہے لیکن اُس کا ہاتھ درد کر رہا ہے۔ آج پہلے پریڈ میں بلا وجہ بولنے پر ریاضی کے ٹیچر نے اُس کو آٹھ ڈنڈے مارے تھے اور ڈنڈوں کے یہ نشان شاید کئی دن اُس کی ہاتھ کی لکیروں کے ساتھی بنے رہے۔
لڑکا کمرے میں ابھی تک موجود ہے ۔ باہر اسمبلی گراؤنڈ میں تقریب زوروں پر ہے۔ سکول کا ایک سینئر ٹیچر الوداعی تقریر کر رہا ہے۔ لیکن اُس کی آواز کی لہریں ہوا کے ساتھ سفر کر رہی ہیں۔ کبھی یہ آواز اتنی توانا محسوس ہوتی ہے جیسے کوئی ساتھ والے کمرے میں بول رہا ہو اور کبھی یہ اتنی کمزور ہو جاتی ہے جیسے کسی دور دراز گاؤں کی مسجد میں کسی جانور کی گمشدگی کا اعلان ہو رہا ہو۔ لڑکا کمرے سے باہر نکلنے کی تیاری کر رہاہے
کیونکہ باہر الوداعی تقریب اختتام کے قریب ہے۔ سربراہ ادارہ کو الواداعی کلمات کہنے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ یہ کلمات رسمی ہوں گے اور ان میں اپنی اور ادارہ کی تاریخ و تعریف کے ساتھ ساتھ آئندہ امتحانات کے لیے پندونصائح کے دفاتر کھولے جائیں گے۔عموماً رسمی تقاریر جذبات سے عاری ہوتی ہیں۔
کمرے میں اندھیرا چھا رہا ہے۔ اُسے اس حالت میں کمرے سے نکلنا ہوگا۔ اندھیرے کی حالت میں۔۔۔۔ افسردگی کی حالت میں۔۔۔۔۔۔ مایوسی کی حالت میں۔ اندھیرا بڑھ رہا ہے لیکن بنچ پر ناخنوں سے کھدا ہوا اُس کا نام واضح طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔ اندھیرا بڑھ رہا ہے لیکن بنچ کے ساتھ دیوار پر سیاہی کے دھبے واضح ہیں۔ اندھیرا بڑھ رہا ہے لیکن فرش کی ایک ایک اینٹ صاف نظر آرہی ہے۔
اسمبلی گراؤنڈ کی تقریب ختم ہو گئی ہے۔ لڑکوں میں مٹھائی تقسیم کیا جا رہی ہے۔ زہر ناک مٹھائی جس کی تلخی مرتے دم تک قائم رہے گی۔
کمرے کا ایک در کھلا ہو اہے جبکہ دوسرا تھوڑی دیر قبل ہی ہوا کے تیز جھونکے نے بند کر دیا تھا۔ لڑکا کمرے سے باہر نکل رہا ہے
الوداع ۔۔۔۔۔۔ میرے ہمنشیں، الوداع ۔۔۔۔۔۔۔۔ الوداع! میری نشست۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے ڈیسک ۔۔۔۔۔۔ الوداع کمرے کی فضا۔۔۔۔ بلیک بوڈ۔۔۔۔۔ فرش کی اینٹیں۔۔۔۔۔۔۔ الوداع۔
ہمارا تمہارا ساتھ پانچ سال کا تھا۔ یہ پانچ سال کی دوستی تھی۔ یہ پانچ سال کی چاندنی تھی۔ یہ پانچ سال اب ختم ہو گئے ہیں۔ اب ہمیشہ کی جدائی ہے۔
گیلری میں خشک پتے اور کاغذ اُڑ رہے ہیں۔ باہر درختوں کی خشک ٹہنیاں تیز ہوا سے لرزاں ہیں۔ لڑکے اور سٹاف کب کے گھر جا چکے ہیں ۔سکول ویران ہے لیکن آنسوؤں کی ایک خشک لڑی نے زمین پرآڑھی ترچھی لکیریں بنا دی ہیں جن کے اوپر خزاں رسیدہ خشک پتوں کا رقص جاری ہے۔