کاغذ کی گرانی
ہندوستان میں جتنے کارخانے کاغذ بنانے کے ہیں وہ رات دن بچاری کلوں کو چلاتے ہیں۔ پل بھر کا آرام نہیں لینے دیتے۔
گھاس اور گودڑ ڈھونڈتے پھرتے ہیں جن سے کاغذ بنایا جاتا ہے۔ اس پر بھی پوری نہیں پڑتی۔ کاغذ کا بہاؤ دن بدن گھڑی بہ گھڑی، منٹ بہ منٹ، سکنڈ بہ سکنڈ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ غریب اخبار والے، رسالے والے اور سب کاغذ چھاپ کر قومی، ملکی اور شکمی خدمت خدمت کرنے والے حواس باختہ ہیں۔ بٹوے سے روپے نوٹ نکال نکال کر دے رہے ہیں اور کاغذی بس نہیں کرتے۔ کہتے ہیں اورلاؤ۔ کوئی کہے لالہ صاحب میاں جی کے دل پر ہاتھ رکھ کر تو دیکھو وہ کمبخت دھڑک رہا ہے اور کاغذ کی گرانی سے سہما جاتا ہے۔ کاغذ کا بھاؤ یہی رہا، یعنی اس کی تیزی بڑھتی رہی تو اخباروں اور رسالوں کا چھاپنا دوبھر ہو جائے گا اورضرورت جو ایجاد کی ماں کہلاتی ہے، حسب ذیل ایجادیں کرائے گی۔
ہر وفت اخبار کا ایک ایجنٹ ہر شہر میں مقرر ہو گا، جس کو خبریں اور مضامین خط میں لکھ کر بھیج دیئے جائیں گے۔ وہ سب خریداروں کے پاس جاجا کر مضامین اور خبریں سنا دیا کرے گا۔کپڑے پر اخبار چھپیں گے۔
کونسلوں میں آنریبل ممبر سوال کر کے گورنمنٹ سے یہ حق حاصل کریں گے کہ گاؤں کے چوکیدار، پٹواری، پوسٹ ماسٹر، اسکول ماسٹر، ڈاکٹر حکیم، وید، امام، پیر روزانہ ڈپٹی کمشنر بہادر کے ہاں حاضر ہوں اور ان سے تازہ خبریں اور مضامین حاصل کر کے پبلک کو سنائیں اور جس قدر اخبارات اور رسالے ہیں ان کے مالکوں کو جنگ کے کرسھیٹ سے راشن مل جایا کرے۔
دواؤں کی گرانی
ولایت کی بعض دوائیں اس قدر گراں ہو گئی ہیں جس کے سننے سے بخار چڑھ آئے۔ ایک روپیہ قیمت کے عوض بعض دوائیں چالیس روپے تک پہنچ گئی ہیں۔ ولایت پر حصر نہیں، ہندوستان کی یونانی ویدک ادویات کا بھی یہی عالم ہے۔ مشہور دواخانہ ہندوستانی دہلی نے بھی سوائی ڈیوڑی اور بعض دواؤں کی دوگنی تگنی قیمت کر دی ہے۔ ایسی حالت میں سوائے اس کے کچھ چارہ نہیں کہ ملک کے نامور حکیم وید ڈاکٹر جمع ہو کر علم مسرییزم سیکھ لیں اور اس کے ذریعے امراض کا علاج کریں یا وحشیانہ معالجات کا رواج جاری کیا جائے اور وہ داغنا خون نکلنا ہے، کیونکہ ہرزمانہ میں تہذیب و وحشت کا اسی طرح سےمقابلہ ہوتا آیا ہے۔ کبھی تہذیب کا غلبہ ہوتا ہے، کبھی وحشت کا۔
کپڑے کی گرانی
روئی کت رہی ہے۔ سوت بنا جا رہا ہے۔ کلف تھانوں سے گلے مل رہی ہے۔ اس پربھی غل ہے کہ کپڑے کا بھاؤ چڑھتا جاتا ہے۔ غریب لوگ ایسا مہنگا لباس نہیں خرید سکتے۔ کیا مضائقہ ہے آدمی برہنہ پیدا ہوتا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ فطرتی اور نیچرل لباس برہنگی ہے۔ نیچر انسان کو ہمیشہ اصلیت کی طرف لاتی ہے۔ پس رفتہ رفتہ وہ مجبور ہو جائے گا اور اپنے مصنوعی لباسوں کو جو باعث تکلیف ہیں خیرباد کہہ دے گا۔ یہ حالت اسی وقت کاپیش خیمہ ہے۔
ایمان کی گرانی
ہندوستان والے ہندوستان والوں پر ڈاکے ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ملک کی خدمت کے واسطے روپیہ جمع کرتے ہیں، مگر اس اقتصادی مسئلہ پر غور نہیں کرتے کہ امن میں ایمان ارزاں ہوتا ہے اور بےامنی میں گراں۔ انہوں نے جنس ایمان کو فساد مچا کر مہنگا کر دیا ہے۔ ایمان ہی ہاتھ نہ آیا تو ملک کی ترقی کس کام آئے گی۔
مذاہب نے غدر، فساد، ڈاکہ زنی کو بہت معیوب قرار دیا ہے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں اپنے دین دھرم کی جڑ کاٹتے ہیں۔ یہ کھیتی نہ رہی تو ایمان اوربھی مہنگا ہو جائے گا۔
خوشی کی گرانی
ساری زندگی کی بنیاد اطمینان اورخوشی پر ہے۔ آج کل یہ ساری دنیا میں گراں پائی جاتی ہے۔ سونے کی گنّی پر چند آنے بڑھ گئے ہیں اور خوشی کی نیند پر کروڑوں اشرفیوں کا اضافہ ہوگیا۔ بچے ہر قوم کے ہمیشہ خوش رہتے ہیں اورکسی غم کو پاس نہیں آنے دیتے مگر اس وقت نے لاکھوں بچوں کی خوشی بھی چھین لی۔ لڑائی میں ان کے باپ مارے گئے۔ تب بھی وقت نے ان کو خوشی نہ دی۔ یہ وقت چھوٹی قیامت ہے جہاں ماں باپ بچوں کو اور بچے ماں باپ کو اپنےغم میں بھول گئے ہیں۔
غم کی ارزانی
غم بہت سستا ہوگیا۔ محرم آنے سے پہلے اس کو خرید کر گھروں میں بھر لینا چاہئے۔ عاشق مزاج تلاشِ غم میں سرگرداں پھرتے تھے۔ آج بازار بھر میں یہ جنس اتنی ارزاں ہے، جس کی کچھ حد نہیں۔ کوئی ان کوخبردے دے۔
غم اورفکرسنگدل آدمیوں کا قدرتی علاج ہے۔ بڑے بڑے سرکش فرعون غمِ دہر کے آگے سرنگوں ہو جاتے ہیں۔ آج کل غم اتنا سستا ہے کہ شاید دنیا سے کبرونخوت دور ہونے کا وقت آیا ہے۔
غم کی ارزانی
ہر چیز کی گرانی نے حیا فروش فرقہ کی ارزانی کر دی ہے۔ یہ خطرناک ارزانی ہے۔ حکومت، سوسائٹی، اہل شریعت کو اس طرف جلدی متوجہ ہونا چاہئے ورنہ ارزانی پرست ہندوستان اس ڈاکو جماعت کے جال میں کثرت سے پھنس جائے گا۔
مکرودغا کی ارزانی
ایمان کی گرانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان میں مکر و دغا کا مول گھٹ گیا۔ مکاری کو پالیسی اورعقلمندی کہتے ہیں اور ادنٰی درجے والے بھی جو ہمیشہ کھرے ہوا کرتے تھے قریبی منافق بنتے جاتے ہیں۔ اس پرطرہ یہ کہ اس کو جائز اور شان ہوشمندی سمجھتے ہیں۔ یہ ادنٰی اصلاح اور روک تھام کے قابل ہے ایسا نہ ہو تو مرض بےدوا اور لاعلاج ہو جائے گا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...