بابا اکبرشاہ اس روز پنجایت میں گیا تھا۔ لوٹا تو ‘ہاں’ کر کے آیا تھا. ‘نہ’ بھی کیسے کرتا۔ اس کے سگے بھتیجے نے قتل کیا تھا۔ اب دلبر چاچا کی کوئی بیٹی تو تھی نہیں۔ سو قرعہ اس کی بیٹی شکیلا کے نام نکلا۔ شکیلا جو اس وقت اٹھارہ برس کی تھی اور میٹرک کا امتحان پاس کرکے آنکھوں میں سنہرے مستقبل کے خواب سجائے کالج میں داخل ہوئی تھی۔ اس کا رشتہ ساٹھ سال سے کچھ اوپر عمر کے شیر گل سے طے ہو گیا۔
اماں نے سنا تو بہت واویلا مچایا مگر اس کی کون سنتا۔ جب اس نے اکبرشاہ کے پاؤں پکڑے تو اس نے صاف کہہ دیا۔
“اگر میری بات نہیں مانتی تو میری طرف سے تو فارغ ہے. اپنے گھر چلی جا. ابھی اور اسی وقت!”
“اپنے گھر!!” اماں دیر تک گم صُم اس گھر کے درودیوار کو گھورتی رہی۔ “اپنا گھر! میرا اپنا گھر کونسا ہے؟” بےجان دیواریں اور دروازے بھلا اس کی بات کا کیا جواب دیتے! اس کے بعد سے اماں کو ایک چپ سی لگ گئی۔ شکیلا کا بھائی بہت چھوٹا تھا۔اسے تو ابھی ونی کا مطلب بھی اچھی طرح معلوم نہ تھا۔ مگر شکیلا۔۔۔۔۔ وہ بخوبی جانتی تھی کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ دبے دبے لفظوں میں اس نے بابا سے کہنے کی کوشش کی کہ ابھی اسے پڑھنے دیں۔ مگر بابا کی لال انگارہ سی آنکھوں اور گرج دار آواز نے اس کا حوصلہ پست کردیا۔
بابا اکبرشاہ مخلوقِ خدا کو ہر روگ کی دوا کے طور پر تعویذ بنا کر دیتا تھا۔ معلوم نہیں لوگوں کے دکھ درد دور ہوتے تھے یا نہیں مگر اس کے گھر کا چولہا خوب چلتا تھا۔ شکیلہ تو اس سمے بابا سے اپنی مشکل کے حل کے لیے کوئی تعویذ بھی طلب نہ کر سکی۔
شادی والے دن شکیلہ کی سہیلیوں نے زبردستی اس کا بناؤ سنگھار کیا۔ اس دن کے لیے اس نے نجانے کیا سپنے دیکھ رکھے تھے لیکن اس وقت وہ احساسات سے یکسر عاری تھی۔ وہ کب دلہن بنی اور کب رخصت ہوئی اسے مطلق خبر نہ ہوئی۔ اماں بھی بس اسے ٹکر ٹکر دیکھے جا رہی تھی۔ اسے بھی تو اپنا گھر بچانا تھا۔ دلبر چاچا کو اپنا بیٹا بچانا تھا۔ بابا کو اپنا خون کا رشتہ نبھانا تھا۔ نہ جانے کون کس کس کو بچا رہا تھا اور اس کشمکش میں کون زندہ درگور کیا جا رہا تھا؟ بے حسی کا ایک کھیل اس کے گرد جاری تھا. دلبر چاچا کا بیٹا اکمل مقتول کے لواحقین کو ایک لاکھ روپیہ اور ایک زندہ وجود پیش کر کے رہا ہو کر اپنے گھر آ چکا تھا۔
شکیلا سسرال پہنچا دی گئی۔ شیر گل کی دونوں شادی شدہ بیٹیاں اپنے سات عدد بچوں کے ساتھ اس کے پاس موجود تھیں۔
“اچھا اماں شکیلا! اب ہم تو اپنے گھر جاتے ہیں. تم سنبھالو یہ گھر۔”
اس سے دگنی عمر کی سیماں اور صغراں اس سے مخاطب تھیں۔
“اماں شکیلہ!!” سیماں کا شوہر حاکم معنی خیز انداز میں اس سے مخاطب تھا۔ “اب ہم کل آئیں گے۔’
شکیلہ اس کے دیکھنے کے بےباک انداز سے اندر ہی اندر کانپ سی گئی۔
شیر گل کو دیکھ کر اس کے دل میں کوئی ہلچل پیدا نہ ہوئی۔ جونہی وہ کمرے میں داخل ہوا ایک تلخ سا جملہ اس کی سماعتوں سے ٹکرایا۔
“تو ادھر بیٹھی کیا کر رہی ہے؟ چل آٹھ روٹی پانی لا!”
اس دن کے بعد سے اسے یوں لگا کہ وہ فقط مٹی کا ایک ڈھیر ہو جسے ایک چاک سے اٹھا کر دوسرے چاک پر چڑھا دیا گیا ہو۔ شب و روز اذیت جھیلتے اور انجانے سانچوں میں ڈھلتے دو برس بیت گئے اور وہ ایک بچے کی ماں بن گئی۔ فہد کو پا کر اس کی روح کو کچھ قرار نصیب ہوا اور زندگی میں یکسوئی پیدا ہو گئی۔
شیر گل نہ صرف نشہ کرتا تھا بلکہ معاشرتی بے راہ روی کا بھی شکار تھا۔ شکیلہ نے جب بھی دبی دبی زبان میں اسے سمجھانے کی کوشش کی، شیر گل نے اسے روئی کی طرح دھنک ڈالا اور وہ کئی روز تک زخموں سے اٹھنے والی ٹیسوں کے سبب آنسو بہاتی رہی۔ اب تو وہ سیماں کے شوہر حاکم کی بدتمیزیوں کی شکایت بھی شیر گل سے نہ کرتی تھی کہ جواب میں ہمیشہ کی طرح گالیاں اور مار ہی سہنی پڑتی۔
اس نے شیر گل کی منت سماجت کرکے کسی نہ کسی طرح پرائیویٹ ایف اے کر لیا تھا۔ وہ کسی سکول میں نوکری کرنا چاہتی تھی مگر اسے اجازت نہ ملی۔ اسے تو پڑوس میں جانے کی بھی اجازت نہ تھی۔ نہ ہی کوئی پڑوسن اس کے پاس آ سکتی تھی۔ ونی کی بھینٹ چڑھی مظلوم شکیلا کی زندگی سے کسی کو کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔ صبح سے شام تک گھر کے کام اور راتیں کسی صلیب پر گزرتیں۔ ہر رات ایک نئی گرہ اس کی روح میں لگ جاتی۔
ایک مرتبہ چھپتی چھپاتی وہ بابا اکبرشاہ کے پاس پہنچ گئی۔ وہ مریدنیوں کو خوشگوار زندگی کے لیے تعویذ دم کر کے دے رہا تھا۔ بچوں کو بیماریوں سے چھٹکارے کے لیے پھونکیں مار رہا تھا۔ اپنی باری آنے پر شکیلا صرف اتنا ہی کہہ پائی۔
“بابا میرے حصے کا تعویذ کب بنے گا؟”
برقع میں لپٹی شکیلا کو پہچان کر بھی اکبر شاہ نے آنکھ اٹھا کر اس کی جانب نہ دیکھا۔ نہ ہی اس کی بات کو درخواعتنا سمجھا۔ مریدنی کا گھر بسا رہے۔ اکبرشاہ کے گھر کا چولہا جلتا رہے۔ شکیلا کا کیا ہے وہ تو ایک جنسِ بےمایہ ہے۔
اگر وہ عذاب میں ہے تو کیا ہوا! اس کی اماں تو اپنے گھر میں ہے۔ دلبر چاچا کا بیٹا اکمل شادی کرکے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزار رہا ہے۔ اسے تو شاید یاد بھی نہیں ہوگا کہ کون اس کے جرم کی سزا کاٹ رہا ہے؟ کون اپنی زندگی کے شب و روز سولی پر بتا رہا ہے؟ کم مائیگی کا احساس لئے وہ چپ چاپ واپس آگئی.
وقت گزرتا گیا. وقت جو کہنے کو تو سب کا ہے مگر حقیقتاً کسی کا بھی نہیں ہے۔ شکیلا نے بھی کسی حد تک وقت سے سمجھوتا کر لیا تھا۔ فہد اب بڑا ہو رہا تھا۔ اس کے اخراجات بھی پڑھ رہے تھے۔ اس نے اسکول جانا شروع کر دیا تھا۔ یونی فارم، کتابوں، کاپیوں اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے لیے پیسہ درکار تھا۔ وہ کہاں سے یہ سب اخراجات پورے کرتی؟ سلائی کڑھائی کے معمولی کاموں سے اتنی بچت کہاں ہوتی تھی؟ شیر گل سے تقاضا کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ وہ تو نشے کے لیے اس سے ہی پیسے کا تقاضہ کرتا۔ اب تو شکیلا کی کمزور پڑتی ہڈیوں میں مزید مار سہنے کی بھی تاب نہ تھی۔
فہد چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے ترستا رہتا تھا۔ وہ کب تک اسے طفل تسلیاں دیتی۔ کبھی وہ جیب خرچ کا تقاضا کرتا، تو کبھی پھٹے جوتے تبدیل کرنے کی ضد کرتا۔ کبھی نئی یونیفارم کا مطالبہ کرتا تو کںھی پکنک پر جانے کا۔ شکیلا دل ہی دل میں اس کی حسرتوں پر ماتم کر کے رہ جاتی۔
اس دن تو انتہا ہی ہوگئی۔ فہد نے اپنے ہم جماعت کے پیسے چرا کر کے کینٹین سے چیزیں خرید کر کھا لیں۔ استانی نے شکیلا کو طلب کرلیا۔ اسے کھری کھری باتیں سنائیں۔ اس کی تربیت پر لعن طعن کی۔ وہ سر جھکا کر خاموشی سے سب کچھ سن کر گھر آگئی۔ شام کو پڑوسی بچے سے شیر گل کو خبر ہوئی تو اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ فہد کو بری طرح مارنا شروع کر دیا۔ یوں وہ ساری چوٹیں جو دس برس سے شکیلہ برداشت کر رہی تھی اب ایک وراثت کی طرح فہد کے نازک وجود تک منتقل ہو چکی تھیں۔
اس رات وہ لمحہ بھر بھی سو نہ سکی۔ صبح تک شرمندگی، خوف، حسرت، مار اور تشنہ گام آرزوئیں فہد پر شدید بخار کی صورت میں حملہ آور ہوئیں۔ وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں بار بار شکیلہ کو پکار رہا تھا۔ معافیاں مانگ رہا تھا۔ چیخ رہا تھا۔ شکیلا کا کلیجہ کٹ رہا تھا۔ شیر گل کو تو مطلق پروا نہ تھی۔ صبح شکیلا ہی اسے لیے سرکاری ہسپتال چلی آئی۔ وہاں وہ کبھی ڈاکٹروں کی منتیں کرتی، کبھی نرسوں کی، کبھی لیب کے چکر لگاتی۔ شکیلہ کو کچھ بھی گراں نہ گزر رہا تھا کہ اس وقت اس کے بیٹے کی زندگی کا سوال تھا۔ فہد مسلسل اسی حالت میں بڑبڑا رہا تھا۔
ایک بےبسی اور بے کلی شکیلہ کی روح میں دور تک اتر گئی۔ رگِ جاں میں ایک غبار سا اٹھا جس نے اس کے وجود کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ وہ کسی فیصلہ کن نتیجہ تک پہنچنا چاہ رہی تھی۔
شیر گل ایک بار بھی فہد کا حال معلوم کرنے ہسپتال نہ آیا۔ اسے نشے سے فرصت ملتی تو کچھ کرتا۔ بالآخر تین روز بعد فہد کی حالت بہتر ہوئی، اسے ہسپتال سے چھٹی ملی تو وہ گھر واپس آئی۔ شیر گل نے تین دن گھر سے باہر رہنے کے جرم میں دونوں کی دھنائی کردی۔ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی تھی۔ آخری مار!” شکیلہ نے سوچا۔ وہ ایک اٹل فیصلہ کر چکی تھی۔ اس کی تو بری بھلی گزر چکی تھی لیکن وہ فہد کو چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے لیے مزید ترستا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ زندگی کی مسرتوں سے اپنے بیٹے کے لیے لیے کچھ نہ کچھ کشید کرنے کے لیے اسے ہی کچھ کرنا تھا۔
اگلے روز وہ اپنا مختصر سا سامان اور فہد کو لے کر دارالامان پہنچ گئی۔ بابا اکبر شاہ کو خبر ہوئی۔ وہ آیا تو شکیلہ اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکی۔ دس سال کے رکے ہوئے اشک ایک ہی بار بہنا چاہتے تھے۔ فہد کے پورے جسم پر نیل دیکھ کر شاید زندگی میں پہلی بار بابا کا دل اس کے لیے نرم ہوا اور اس نے جاکر شیر گل کے پاؤں پکڑ لیے۔ شیر گل نے شکیلہ کو طلاق دے دی۔ دس سال بعد اس کا ناکردہ گناہ معاف ہو گیا۔ اس کی عمر قید کٹ گئی۔
بابا اسے اور فہد کو اپنے گھر لے آیا۔ اماں پہلے سے بھی زیادہ چپ تھی۔ البتہ بھائی نے بہت حوصلہ دیا۔ مگر اب مشقتوں کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوگیا۔ شکیلہ کا حوصلہ کڑی چٹان کی طرح تھا۔ اس نے قریبی پرائیویٹ سکول میں معمولی تنخواہ پر نوکری کر لی۔ شام کو محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی۔ بھابی کے سارے کام کرتی مبادہ وہ ناراض نہ ہو جائے۔ کپڑوں کی سلائی کڑھائی کرتی۔ شادی بیاہ کے موقع پر بڑے گھروں کے کام کرتی۔ غرض محنت کا کوئی ایسا کام نہ تھا جو اس نے نہ کیا ہو۔ رات جب وہ بستر پر لیٹتی تو اس کا جوڑ جوڑ درد کرتا مگر وہ ذہنی طور پر بہت پرسکون تھی اور ہر صبح ایک نئے عزم اور ہمت کے ساتھ دن کی ابتدا کرتی۔ فہد کو وہ زندگی کی ہر ضرورت فراہم کر رہی تھی اور اسے انگریزی اسکول میں داخل کروا دیا تھا۔
سال پر سال گزرتے چلے گئے. فہد اب میٹرک میں تھا. وہ اس سے زیادہ بات چیت نہ کرتا تھا۔ ایک دن شکیلہ نے اس سے وجہ پوچھی تو وہ بولا۔
“اماں! سب بچوں کے باپ ان کے ساتھ رہتے ہیں. میرا ابا ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہتا؟ اماں تم نے اسے کیوں چھوڑ دیا؟”
شکیلہ کو ایک شدید ذہنی جھٹکا لگا۔
جس کے آفٹر شاک وہ ہفتوں تک محسوس کرتی رہی مگر وہ فہد سے کچھ نہ کہہ پائی۔ ذہنی کوفت اور احساس کمتری سے بچانے کے لیے اس نے شیر گل کا ذکر دانستہ کبھی فہد سے نہ کیا تھا۔ اس وقت بھی وہ اسے یہ بھی نہ کہہ سکی کہ وہ تو صرف اس کی خاطر وہ دوزخ چھوڑ کر آئی تھی۔ صرف اس کی خاطر۔۔۔ ورنہ اس نے تو زندگی سے سمجھوتا کر ہی لیا تھا۔
اس کے باوجود اس کے پائے استقامت میں لرزش نہ آئی۔ ابھی تو وہ صرف امیدوں کی اداس اور ویران رہ گزر پر تھی منزلیں تو ہنوز کوسوں دور تھیں۔
چودہ سال بعد فہد انجینئر بن گیا تو شکیلہ نے چاہا کہ اب اس کا گھر بسایا جائے۔ اس دن اس نے دلار سے فہد سے کہا۔
“اب میں تمہارے لئے ایک پیاری سی دلہن لانا چاہتی ہوں۔ اگر تمہاری کوئی مرضی ہو تو بتا دو۔”
“مرضی!”
فہد تلخی سے بولا
“اماں! میں ہرگز شادی نہیں کروں گا۔”
اس نے دو ٹوک کہہ دیا
“کیوں؟”
شکیلہ نے جواب طلب نظروں سے اسے دیکھا۔
“اماں! وہ مجھے چھوڑ جائے گی. تم نے بھی تو ابا کو چھوڑ دیا تھا نا! اماں کیا تو میری خاطر بھی اس کے ساتھ گزارا نہیں کرسکتی تھی۔ اماں! صرف میری خاطر!!”
شکیلہ کا تمام وجود زلزلوں کی زد میں تھا۔امید کس سرسراتا سا ریشمی آنچل جسے تھامے نجانے کب سے وہ آس کی اک کانٹوں بھری ڈگر پر ننگے پاؤں چل رہی تھی چند جملوں سے ہی تار تار ہو گیا۔
“اماں! عورتیں بھروسے کے قابل نہیں ہوتیں۔ کیا پتہ کب چھوڑ جائیں!”
فہد اپنی ہی دھن میں بول رہا تھا۔
شکیلہ کے عزم کی وہ کڑی چٹان آج ریت کی مانند ہوا کے دوش پر تھی۔ اس کے کانوں میں تو بس ایک ہی جملے کی تکرار تھی۔
“اماں! میری خاطر۔۔۔۔ اماں! میری خاطر”
اس کی جستجو کے گالوں پر یکایک زردی چھا گئی جس نے اس کے وجود سمیت اطراف کے ہر منظر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
“فہد! تمہاری خاطر… تمہاری خاطر”
گرتے گرتے اس کے لبوں سے بےربط سے چند جملے ادا ہوئے۔ ان چھوئی منزلوں کو پانے کی کوشش میں اس کے ہاتھ ہوا میں لہرائے اور قویٰ اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔
شام کو محلے کی مسجد سے اکبر شاہ کی بیٹی کی موت کا اعلان ہو رہا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...