(Last Updated On: )
قلب ویران برابر جیسے
ایک آسیب زدہ گھر جیسے
آنکھ ٹھہری سی ہے دروازے پر
کوئی دستک ہو وہاں پر جیسے
در شکن “درد”، رہ عمر رواں
سلوٹوں سے بھرا بستر جیسے
اس کا لہجہ ہوا قاتل گو کہ
ڈس گیا ہے زہر آور جیسے
لگ کے دیوار سے بیٹھے جونہی
گر گئی ہم پہ وہ آ کر جیسے
بے سبب زرد ہے صورت ان کی
جرم ثابت ہو انہی پر جیسے
پرسش حال فقط رب واحد
وقت کروا گیا باور جیسے
ڈھونڈتا پھرتا ہے ہر ایک اسے
کھو گئی ساجدہ انور جیسے