تخلیقِ کائنات کے ساتھ ہی محبت کا وجود خلق ہوا ۔ ربِ کائنات نے اپنے محبوب کے عشق میں کل کائنات خلق فر مائی اور اپنا صحیفہ اپنے محبوب کی مدح سرائی میں اتارا ۔ عشق کے معتبر اور پاکیزہ احساس کو ناقص العقل آدمی نے نہ جانے کس زُمرے میں لے لیا اور اس کی تعر یف بھی اپنی لا علمی کی کسوٹی پر کر نے لگ گیا۔ ہر بندے نے اپنے فہم و فکر کی بنا پر اس کا معیار مقرر کیا ۔ کبھی اس کو دو حصوں میں بانٹ دیا مجازی و حقیقی! تو کبھی اس کو جنون و پاگل پن کا نام دے ڈالا جبکہ یہ صرف اپنی اپنی بنائی گئی مساجد ہیں حقیقت تو اس کے بر عکس ہی ہے جب کائنات میں جو وجود اتارا گیا تو اس کی جبلت میں یہ بات داخل تھی۔ کا ئنات کی فطری اصولوں میں سے ایک اصول یہ رہا ہے اپنے ماحول اور گردو نواح سے انسیت اور مانوسیت ہو تی ہے ۔ چا ہے کو ئی بھی مخلوق ہے کائنات میں! اور جب آدمی اس جذبے سے ایک قدم اور آگے شدت آمیز جذبے سے گزرتا ہے جو خاص الخاص اس کو اپنی مخالف جنس کی جانب راغب کر تا ہے اسے پیار، نر م دلی، احساس، ہمدردی، چاہت کا جذبہ کہتے ہیں اس جذبے میں وقتی جذ باتیت اور جنون بھی پایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اکثر یت مرد و خواتین میں بچپن سے لے کر تا دم مرگ بھی یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ نہا یت کم مقدار میں لوگ ہوتے ہیں جو مستقل مزاج واقع ہوتے اور اس جذبے کو شوق نہیں بناتے ۔ یہ پیار ہی ہے جو اک ماں اپنی اولاد سے بھی کر تی ہے۔ اس سے اگلا مر تبہ محبت کا ہے یہ جذبہ ان خاص بندوں کو ودیعت ہوتا ہے جو متقی ہوتے ہیں اور نبی ، ولی و قلندر بنتے ہیں یہ عنایت صاحب ایمان لوگوں پہ ہوتی ہے جو زندگی کے کسی ایک اسرار سے آشنا ہو جاتے ہیں ۔ اور دنیا ان کی نظر میں بے وُقعت ہو جاتی ہے ۔پھر من و تو کا فاصلہ مٹ جاتا ہے اور جب یہ محبت اپنی اگلی منزل کی جانب بڑھتی ہے تو مُؤدت کا روپ دھارتی ہے اور جب یہ مؤدت اپنی آخری منزل یعنی عشق پہ پہنچتی ہے تو آخر ی مرسل آقائے دو جہاں ﷺ کی ہستی ملتی ہے جو عشق کا حقیقی مفہوم سمجھا گئے جہاں صرف محبوب کی ہستی ہی شمار ہوتی ہے سر تسلیم و رضا کو جھکتا ہے اور زبان اسی کےحکم پہ بولتی ہے ۔ اس میں طہارت و عطرت کی مہک ملتی ہے ۔ اے غافل و کم فہم آدمی تو اپنے وجود و ہستی کی شناس تو آج تلک نہ کر پایا اور تو چلا آخری منزل کا حقدار بننے وہ بھی کم مائیگی دنیا کے صلے میں ۔۔۔۔۔۔ ہر مکتبِ فکر اور مذہب نے اپنے طور سے تعریف کی مگر اس بات پہ سبھی متفق ملتے ہیں کہ عشق ایک لافانی قوت کا نام ہے ۔ اس کے معنی و مفہوم سمجھنے کے لیے بھی بنیادی شعور ہو نا لازم ہے ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...