حترم قارئین! انگریز لکھاری جناب George Orwell کے ناول Animal farm کا اردو ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ شہرہ آفاق ناول کئی ممالک کے تعلیمی نصاب کا حصہ بھی حصہ ہے۔ اس کے دس ابواب ہیں اور ہر بار ایک باب کا اردو ترجمہ دیا جایا کرے گا۔ مدیر اعلیٰ
***
کاہ کی کٹی ہوئی فصل ڈھوتے ڈھوتے انہیں دانتوں پسینہ آگیا تھا بہرحال انہیں اپنی محنت کا پھل یوں ملا کہ اس مرتبہ فصل ان کی توقع سے کہیں بڑھ کر ہوئی تھی۔
چونکہ ان کاموں میں استعمال ہونے والے آلات اور اوزار محض انسانوں کے استعمال کیلئے بنائے گئے تھے چنانچہ یہ ایک بہت بڑا المیہ تھا کہ کوئی بھی جانور ان کا استعمال نہ جانتا تھاکیونکہ انہیں اس مقصد کیلئے دونوں پچھلے پیروں پر مسلسل کھڑا رہنا پڑتا تھا لیکن سؤر اس قدر ذہین واقع ہوئے تھے کہ ہر ایک مشکل کا حل بہر حال نکال ہی لیتے تھے ۔ جہاں تک گھوڑوں کا تعلق تھا تو وہ چونکہ کھیتوں کے چپہ چپہ سے واقف تھے ، چنانچہ وہ باربرداری اور سمیٹنے کے کام کو جونزؔ اور اس کے ملازموں سے کہیں بڑھ کر سرانجام دے سکتے تھے۔سؤر خود تو کوئی کام نہ کرسکتے تھے لیکن چونکہ سمجھدار اور دیگر جانوروں میں سب سے زیادہ علم رکھتے تھے اس لئے ہر کام کے سلسلہ میں دوسروں کوہدایات دینے کی قدرتی صلاحتیوں اور قائدانہ اختیارات کے مالک تھے۔باکسرؔ اور کلوورؔ جو اب لگام جیسی ہر ایک زنجیر کی قید سے آزاد ہو چکے تھے اس لئے خود کو چھکڑے میں جوت کر مسلسل کھیت کے چکر لگاتے رہتے جبکہ ایک سؤر نگرانی کی غرض سے ہمیشہ ان کے پیچھے پیچھے ہوتا اور صورتِ حال کو بھانپ کر کبھی ’’واہ واہ‘‘اور کبھی کسی اور طریق پر انہیں شاباش دے کر کام پر ابھارتا۔ چھوٹے سے چھوٹے جانور نے بھی کاہ کی فصل کاٹنے اور ڈھونے تک خوب ہاتھ بٹایا حتیٰ کہ بطخوں اور مرغیوں نے بھی بھری دوپہر میں کاہ کے چھوٹے چھوٹے لچھے اپنی چونچوں میں دبا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کئے نتیجۃًانہوں نے کٹائی کا کام جونزؔ اور اس کے ساتھیوں کی نسبت تیزی سے کرتے ہوئے دو دن قبل ہی ختم کر لیا مزید برآں یہ کہ باڑہ پر اب تک ہونے والی یہ سب سے بڑی کٹائی تھی۔ کیونکہ مرغیوں اور بطخوں کی تیزنظروں کی وجہ سے ساری فصل اٹھا لی گئی اور ایک چھوٹا سا تنکا بھی ضائع نہیں ہوا تھا چنانچہ اب کسی بھی جانور کو پیٹ بھرنے کیلئے ایک لقمہ چرانے کی بھی ضرورت نہ تھی، ہر ایک کو پیٹ بھر کھانا نصیب ہوا تھا۔
موسم گرما کے دوران باڑہ پر گھڑی کی سوئیوں کی طرح سب کام وقت پر بخیرو خوبی انجام پاتے رہے۔ یہ ایسی غیرمتوقع اور غیر معمولی کامیابی تھی کہ تمام جانوروں کی خوشی کاکوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ حلق سے نیچے اترنے والا ایک ایک لقمہ ان کیلئے بے انتہا خوشیوں کا پیش خیمہ تھا۔کیونکہ اب یہ سارا غلہ ان کے اپنے ہاتھ کی کمائی اورحقیقتاً ان کی ملکیت تھا،نہ کہ پہلے کی طرح کسی ظالم آقا کی طرف سے ملنے والی محض کوئی معمولی نوعیت کی خیرات۔انسان جیسی طفیلی مخلوق کے منظر سے ہٹتے ہی اب ہر جانور کو سکھ کا سانس اور پیٹ بھر کھانا نصیب ہونے لگا تھا۔ اب ان کو پہلے سےبڑھ کر فرصت کے لمحات بھی میسر آنے لگے تھے ہر چند کہ وہ ان لمحات سے خوشی کشید کر لینے کے طریقوں سے بکلی نابلد تھے لہٰذا انہیں کچھ مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا تھامثلاً: سال کے اواخر میں جب انہوں نے چنے کی فصل کاٹی تو اس کو چھانٹنے کیلئے وہی پرانا طریق اپنانا پڑا تھا اور چنوں کے چھلکے پھونکیں مار مار کر اڑانا پڑے تھے۔کیونکہ وہاں گاہنے والی مشین موجود نہ تھی۔ بہر حال سؤروں کی عقلمندی اور باکسر ؔ کے مضبوط اعصاب کی بدولت یہ کٹھن کام بھی بخوبی انجا م پذیر ہو گیا تھا۔باکسر ؔ خصوصاً سب کی آنکھوں کا تارا بنا ہوا تھا، جونزؔ کے دور میں بھی وہ بے حد محنتی تھا اور اب تو یوں لگتا تھا جیسے اس کے بدن میں تین گھوڑوںکے برابر طاقت بھرگئی ہو، بعض اوقات تو وہ سارے کام کا بوجھ اکیلا اپنے توانا کندھوں پر اٹھاتاہوا دکھائی دیتا۔صبح سے شام تک وہ انتھک محنت کرتا اور اکثر ایسے مواقع اور جگہ پر بھی باربرداری میں مصروف دکھائی دیتا جہاں کام سخت محنت طلب ہوتا۔ اس نے ایک مرغ کے ساتھ یہ معاہدہ کر رکھا تھا کہ وہ بانگ دے کر اسے باقی جانوروں سے آدھا گھنٹہ پہلے ہی جگا دیا کرے۔یوں وہ بیداری اور کام کے باقاعدہ آغاز سے پہلے پہلے زیادہ اہم نظر آنے کاموں کو رضاکارانہ طور پر ہی نمٹا دیا کرتا تھا۔کسی بھی مسئلہ یا رکاوٹ کی صورت میں اس کا نعرہ یہی ہوتا تھا کہ ’’میں پہلے سے بھی بڑھ کر محنت کروں گا‘‘اور اب تو یہ جواب اس کی زندگی کے ایک لازوال اصول کی حیثیت اختیا ر کر چکا تھا۔تاہم ہر جانور اپنی اپنی استطاعت کے مطابق کام کرتا تھا مثلاً:مرغیوں اور بطخوں نے تقریباً بانوے کلو گرام فصل کو ضائع ہونے سے اس طرح بچایا کہ دوران ِکٹائی ادھر ادھر بکھرجانے والے دانے اکٹھے کر لئے، اب نہ تو کسی جانور کو کھانے کیلئے کچھ چرانے کی ضرورت پڑتی اور نہ ہی کوئی جانور مہیا کردہ غذا کی مقدار پر شاکی ہوتا، سب لڑائی جھگڑے اور حسد سرے سے ختم ہو چکے تھے نیز سب مل جل کر اور دل لگا کر محنت کر رہے تھے اور کوئی بھی کام چور نہیں رہا تھا ۔ صرف مولیؔ صبح جلدی بیدار ہونے میں ذرا سستی دکھاتی تھی اور پھر دوران کار سم میں پتھر پھنس جانے کا بہانہ بنا کر کام چھوڑ بیٹھتی۔ اس کے علاوہ بلی کے کام کرنے کے ڈھنگ بھی عجیب و غریب تھے۔جلد ہی سب نے محسوس کیا کہ کام کے اوقات میں بلی ہمیشہ کہیں غائب ہو جاتی اور پھر گھنٹوں
غائب رہنے کے بعد کھانے کے وقت یا پھر شام کے اوقات میں اچانک نمودار ہو کر ایسا اظہار کرتی جیسے کسی بے حداہم کام میں مصروف رہی ہو نیز ایسے ایسے عذر تراشتی اور محبتبھری ایسی ایسی آوازیں نکالتی کہ اس کی نیک نیتی پر کسی کو شبہ نہ ہو پاتا۔ایک صرف بوڑھے بینجمنؔ میں بغاوت کے دن سے اب تک کوئی تبدیلی دکھائی نہ دی تھی۔وہ اپنا کام اپنے جبلی گدھا پن اور سست روی سے سرانجام دیتا چلا آرہا تھا جیسا کہ جونزؔ کے دور میں کیا کرتا تھا۔وہ نہ تو کام چور تھا اور نہ ہی اپنے حصہ سے زیادہ کام کرنے میں پیش پیش تھا۔وہ ایسا حال مست مآل مست تھا کہ اس نے تو بغاوت اور اس کے نتائج کے بارہ میں بھی کسی قسم کا کوئی اظہار ِ خیال نہیں کیا تھا۔جب بھی اس سے یہ پوچھا جاتا کہ جونزؔ کے ظلم و ستم سے رہائی کے بعد وہ کیا محسوس کر رہا ہے؟ تو وہ بیزاری سے یہی جواب دیتا کہ ’’گدھوںکی عمر ہمیشہ لمبی ہوتی ہے، اور تم نے کبھی کسی گدھے کو مرا ہوا نہیں دیکھا ہوگا۔‘‘ اُس کے اِس جواب پر دوسرے جانوروں کے پاس خاموش ہو جانے کے علاوہ بھلا اورکیا چارہ ہوتا؟
اتوار کو کوئی کام نہ ہوتا تھا اس لئے ناشتہ معمول سے ہٹ کر ایک گھنٹہ تاخیر سے کیا جاتا اور اس کے بعد ہفتہ وارانہ تقریب منائی جاتی، جس میں سب سے پہلے سنوبالؔ کا تیار کردہ جھنڈا لہرایا جاتا۔ جھنڈا کیا تھا، مسز جونزؔ کے کمرہ سے ملنے والا ایک پرانا سبز رنگ کا میزپوش ، جس پر سنو بالؔ نے سفید روغن کی مدد سے سم اور سینگ بنا دئیے تھے یہی جھنڈا ہر اتوار کی صبح لہرایا جاتا تھا۔ سنوبال ؔ نے اس کی وضاحت یوں کی کہ سبز رنگ برطانیہ ؔکے کھیتوں کا نمائندہ ہے جبکہ سُم اور سینگ مستقبل میں جانوروں کی جمہوری ریاست کے قیام کے غماز ہیں، جس کا قیام نسلِ انسانی کی مکمل شکست کی صورت میں ہونا مقدرتھا۔پرچم کشائی کے بعد تمام جانور بڑے صحن میں اجلاسِ عام کیلئے جمع ہوتے۔ جس میں گزشتہ ہفتہ کے منافع کے بارہ میں حساب کتاب پیش کیا جاتا اور آئندہ ہفتہ بھر میں انجام دئیے جانے والے تمام کاموں کی منصوبہ بندی کی جاتی اور مختلف قراردادیں پیش کر کے ان پر بحث کی جاتی،یہ قراردادیں بالعموم سؤروں کی طرف سے پیش کی جاتیںباقی تمام جانوروں کو یہ تو معلوم تھا کہ حقِ رائے دہی کیسے استعمال کرنا ہے لیکن قرارداد کیسے پیش کرنی ہے اس بات کا تو ان کے فرشتوں کو بھی علم نہ تھا۔
قرار دادوںپر اُٹھنے والی ان بحثوں میں سب سے فعال کردار نپولینؔ اور سنو بالؔ کا ہی تھا ان دونوں کی آپس میں گرما گرم بحث ہوتی اور یہ بات ہر ایک کو معلوم ہو چکی تھی کہ وہ دونوں ایک بات پر کبھی متفق نہ ہوئے تھے اور آپس میںایک دوسرے کی ہمیشہ مخالفت کیا کرتے تھے۔یوں ان میں ہمیشہ ٹھنی رہتی۔ حتیٰ کہ جب اتفاق رائے سے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جانے اور کام نہ کر سکنے والے جانوروں کے بارہ میںیہ قرارداد منظور کر لی گئی کہ ان کیلئے باغیچہ کے عقب میں ایک چراگاہ بطور دارالامان بنا دی جائے تو اس بات پر بھی شدو مد سے یہ بحث اٹھ کھڑی ہوئی کہ جانوروں کی کام چھوڑکرآرام کرنے کی عمر کی مناسب حد کیا مقرر کی جائے؟ یہ اجلاس عام ہمیشہ’’برطانیہ ؔکے جانور‘‘نامی گیت کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچتا تھااور سہ پہر کا وقت جانوروں کی تفریح کیلئے مخصوص کر دیاگیا تھا۔
گھوڑوں کے سازوسامان والے کمرہ کو سؤروں نے اپنا دفتر بنا لیا تھا جہاں وہ شام کے وقت رہائشی عمارت سے لائی گئی کتب کی مدد سے مختلف فن کاروں اور کاریگروں مثلاً لوہار، بڑھئی وغیرہ کے فنون سیکھتے۔سنو بالؔ دیگر جانوروں کو منظم کرنے کیلئے مختلف کمیٹیاں تشکیل دینے میں مشغول ہو گیااس نے بڑی جانفشانی سے یہ کمیٹیاں یوں تشکیل دیں:
1: مرغیوں کیلئے: انجمن پیداوار انڈہ جات،
2: گائے بھینسوں کیلئے: انجمن برائے صفائی ٔ دُم ،
3: جنگلی جانوروں کیلئے: انجمن برائے ابتدائی تعلیم، بالخصوص چوہوںاور خرگوشوں کی تربیت کیلئے،نیز
4: ترویج علم و آگہی کیلئے : دیگر کئی جماعتیں۔
وائے افسوس ! ان تمام انجمنوں اور جماعتوں کو یکسر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ہوا یوں کہ جنگلی جانوروں کی تربیت کی کوشش اس لئے دم توڑ گئی کہ انہوں نے جلد ہی اپنے پرانے طور طریقے اپنانا شروع کر دئیے اور جب بھی ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا جاتا تو وہ اس سے ناجائز فائدہ اٹھانے لگ جاتے بلی نے جب ابتدائی تعلیم کی جماعت میں شمولیت اختیار کی تو ابتداً تو وہ اس کی بے حد سرگرم رکن رہی لیکن ایک دن دیکھنے میں آیا کہ چھت پر اپنی پہنچ سے دور بیٹھی چڑیوں کو یوں پھسلا رہی تھی کہ اب چونکہ تمام جانور وں کے مابین مواخات قائم ہو چکی ہے لہٰذا اب کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں رہا چنانچہ اب کوئی بھی چڑیا اگر چاہے تو اس کے پنجہ پر بیٹھ کر کچھ دیر کیلئے سستا سکتی ہے۔ لیکن چڑیاں بہت سمجھدار معلوم ہوتی تھیں انہوں نے بلی کی اس پیشکش کو شکریہ کے ساتھ رد کر دیا۔
البتہ پڑھائی لکھائی سیکھنے کی کلاس بڑی حد تک کامیابی سے چل رہی تھی، جس کے نتیجہ میں موسمِ خزاں کے آغاز تک باڑہ پر موجود تمام جانور کسی نہ کسی حد تک پڑھنا لکھنا سیکھ گئے تھے۔جہاں تک سؤروں کا تعلق تھا تو وہ تو پڑھنا لکھنا خوب جان چکے تھے،کتوں نے بھی بآسانی لکھنا پڑھناسیکھ لیا تھالیکن انہیں سات احکام پڑھنے سے زیادہ کسی اور بات میں دلچسپی ہی نہیں تھی۔میوریلؔ نامی بکری کتوں کی نسبت زیادہ سیکھ چکی تھی اور بعض اوقات تو وہ شام کے وقت کوڑے کے ڈھیر سے اخبار کے کچھ ٹکڑے اٹھا کر لے آتی اور سب کو خبریں پڑھ پڑھ کر سناتی ۔ گو بینجمنؔ بھی سؤروں کی طرح خوب لکھنا پڑھنا جانتا تھا لیکن اس نے کبھی اپنی اس صلاحیت سے نہ تو فائدہ اٹھایا تھا اور نہ ہی اس کا کبھی عملی اظہار کیا تھا ۔ کیونکہ اس کے علم کے مطابق کوئی چیز بھی ایسی نہیں تھی جو پڑھے جانے کے قابل ہو۔کلوورؔ نے تمام حروف تہجی سیکھ تو لئے تھے لیکن ان کی ترتیب اکثر بھول جاتی تھی جبکہ باکسرؔ حروف تہجی ’’ڈی‘‘سے آگے نہ پڑھ سکا، وہ اپنے بڑے سم کی مدد سے اے، بی، سی ، ڈی لکھتا اور پھر اپنے کان پیچھے موڑ کر ان پر غور کرتا رہتابعض اوقات ڈی سے اگلا ہجہ سوچتے سوچتے ماتھے پر آجانے والی ایک سرکش لٹ کو جھٹکتا لیکن ہجہ یاد کرنے میں ناکام ہی رہتا ۔متعدد مواقع پر اُس نے ای،ایف ، جی ، ایچ لکھنے اور ادا کرنے سیکھ بھی لئے لیکن جیسے ہی انہیں دہراتا اسے یوں لگتا کہ اب اے ، بی ، سی، اورڈی اس کے ذہن سے کلیۃً محو ہو چکے ہیں۔ روزروز کی اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کیلئے اس نے بالآخر یہی فیصلہ کیا کہ وہ انہی چار حروف پر اکتفا کرے گا اور انہیں مستحضر رکھنے کیلئے روزانہ دو ایک بار ضرور لکھا کرے گا۔مولیؔ نے سوائے اپنے نام کے کچھ اور سیکھنے سے صاف انکار کر دیا تھا۔وہ درخت کی باریک باریک ٹہنیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے جوڑ کر اپنا نام لکھتی ، ان پر دوایک پھول سجاتی اور پھر خود ستائشی کے انداز میں اس کا طواف کرتی۔
ان کے علاوہ کوئی بھی جانور’’اے‘‘سے آگے نہ پڑھ سکا تھا بھیڑوں، مرغیوں اوربطخوں جیسے نسبتاًکند ذہن جانور تو سات احکام کو بھی زبانی یاد نہ کر پائے تھے۔کافی غوروخوض کے بعد سنو بالؔ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان سات احکام کا مخفف یہ محاورہ رائج کردیا جائے کہ ’’چار ٹانگوں والا اچھا دو ٹانگوں والا گندا‘‘ اس کا کہنا تھا کہ دراصل یہی اصول حیوانیت کی جان ،لب لباب اور روحِ رواںہے اور اس کے ساتھ مضبوطی سے چمٹ جانے والا ہی بدانسانی اثرات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔پہلے پہل تو پرندوں نے اس پر اعتراض کیا کیونکہ ان کی بھی دو ہی ٹانگیں تھیں، لیکن سنو بالؔ نے ان کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس زمرہ میں نہیں آتے اس نے مزید کہا کہ ’’بھائیو! کسی بھی پرندہ کا پر تو اس کی قوت سائقہ کا مظہر ہے نہ کہ کام انجام دینے والا عضو لہٰذا اسے بھی ٹانگ کی ہی اہمیت حاصل ہونی چاہئے۔ جبکہ انسان کی امتیازی علامت اس کا ہاتھ ہے اور ہاتھ ایسا عضو ہے جس سے وہ سارے فساد پھیلاتا ہے۔‘‘
گو سنو بال ؔ کی یہ باتیں پرندوں کے سروں کے اوپر سے گزر گئیںلیکن انہوں نے اُس کی اِس وضاحت کو تسلیم ضرور کر لیااور تمام نسبتاً ادنیٰ درجہ کے جانوروں نے اس محاورہ کو زبانی یاد کرنا شروع کر دیا۔ باڑہ کی دیوار کے آخری سرے پر سات احکام سے تھوڑا سا اوپر جلی حروف میں کندہ کر دیا گیا کہ:’’ چار ٹانگوںوالا اچھا دو ٹانگوں والا گندا‘‘ بھیڑوں کو یہ محاورہ اتنا پسند آیا تھا کہ کھیتوں میں لیٹے لیٹے وہ اکثر یہی محاورہ ممیاتی رہتیں کہ :’’چار ٹانگوں والا اچھا دو ٹانگوں والاگندا۔‘‘ ’’ چار ٹانگوں والا اچھا دوٹانگوں والا گندا۔‘‘وہ تھکے بغیر اس محاورہ کو لگاتار دہراتی چلی جاتی تھیں۔
نپولین ؔ نے سنو بال ؔ کی تشکیل دی ہوئی انجمنوں میں کسی خاص دلچسپی کا اظہار نہ کیا تھا بلکہ اس کے مطابق پختہ عمر کو پہنچ جانے والے، عاقل بالغ جانوروں کیلئے کچھ کرنے سے بہتر تھا کہ چھوٹے جانوروں کی تعلیم و تربیت پر وقت صرف کیا جاتا۔ اسی لئے جیسیؔ اور بلیوبیلؔ کے نو، نومولود پلوں نے جیسے ہی ماں کا دودھ چھوڑا ،نپولینؔ نے یہ کہہ کرکہ اب وہ ان کی تعلیم و تربیت کا ذمہ دار ہے، انہیں گھیرا اور ایک بلند چبوترہ پر لے گیا۔اس چبوترہ پر وہ بچے ایسے الگ تھلگ ہوگئے تھے کہ دیگر جانوروں کو ان کے ہونے تک کا احساس مٹ گیا تھا،وہ انہیں فراموش کر چکے تھے، اس پرطرہ یہ کہ اس چبوترہ پراس سیڑھی کے بغیر جانا ممکن نہیں تھا جو گھوڑوں کے سازوسامان والے کمرہ میں پڑی ہوئی تھی۔
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ دودھ کے اچانک غائب ہو جانے کا بھید دیگر جانوروں پر یہ کھلا کہ دودھ روزانہ سؤروں کی خوراک میں ملا یا جا رہا تھا۔اب نیا انکشاف یہ ہوا کہ سیب کا پہلا پھل پکنے کو تیار تھا چنانچہ ٹپکے کا جو پھل باغیچہ کی گھاس پر گرا پڑا تھا اس کے بارہ میں سبھی جانوروں کاموقف اور سیدھا سا داحل یہ تھا کہ اسے سب جانوروں میں برابر تقسیم کر دیا جائے لیکن ایک دن اچانک یہ حکم جاری ہوا کہ ٹپکے کا سارا پھل اکٹھا کر کے سؤروں کیلئے گھوڑوں کے سازوسامان والے کمرہ یعنی دفتر میں لاکر ڈال دیا جائے۔ اس بات پر نپولین ؔ اور سنو بال ؔ سمیت سارے سؤر مکمل متفق تھے ۔ گو بعض جانوروں نے اعتراض اٹھانے کی کوشش کی لیکن ان کی کچھ پیش نہ گئی۔سؤروں کی طرف سے سقیلرؔ کو کچھ ضروری وضاحتیں سمجھا کر دیگر جانوروں کو مطمئن کرنے کی غرض سے بھجوایا گیا۔
وہ جانوروں کے پاس جاتے ہی اپنی بات میں زور پیدا کرنے کی غرض سے چیختے ہوئے بولا: ’’ بھائیو ! امید ہے کہ آپ لوگ کم از کم یہ تو ہر گز نہیں سوچ رہے ہو ںگے کہ ہم سؤر یہ سب کچھ کسی خود غرضی یا امتیازی سلوک کی بناء پر کر رہے ہیں، نہیں بالکل نہیں! بلکہ ہم میں سے اکثر تو دودھ اور سیب سرے سے پسند ہی نہیں کرتے حتیٰ کہ میں بھی، لیکن مجبوری یہ ہے کہ از رُوئے سائنس اِن چیزوں سے صحت برقرار رہتی ہے نیز دودھ اور سیب میں ایسے قدرتی اجزاء موجود ہیں جو ایک سؤر کی اچھی نشوونما کیلئے ازحد ضروری ہیں اور ہمیں چونکہ انتہائی کٹھن اور تھکا دینے والا دماغی کام کرنا ہوتا ہے اس لئے بھی اور اس لئے بھی کہ باڑہ کے نظم و نسق کاسارا بار ہمارے نازک کندھوں پر ہے اور ہم آپ سب کی فلاح و بہبود کی خاطر دن رات سوچتے رہتے ہیں یوں ہمیں اس قسم کی غذا کی زیادہ ضرورت رہتی ہے، اس اعتبار سے اگرآپ لوگ غور کریں تو یہ آپ لوگ ہی ہیں جن کی خاطر ہمیں یہ غذا کھانا پڑرہی ہے۔ اگر ہم یہ فرض پورا نہیں کر پاتے تواس کے جو بھیانک نتائج نکلیں گے کیا آپ ان کا اندازہ کر سکتے ہیں؟ بھائیو! ان کا سیدھا سادانتیجہ یہ ہو گا کہ جونزؔ واپس آدھمکے گا ، میں سچ کہہ رہا ہوں، بھائیو!کہ وہ ہماری یہ حالت دیکھ کر واپس آجائے گا اورآپ میں سے کون ہے جو جونزؔ کی واپسی پسند کرے گا؟‘‘آخری فقرہ سقیلرؔ نے اداکاری سے کام لیتے ہوئے بڑی لجاجت سے ، اِدھر اُدھراچھلتے اور تیزی سے اپنی دم ہلاتے ہوئے چیخ چیخ کر ادا کیا۔
اور واقعتا اس کا یہ حربہ کامیاب رہا تھا، چونکہ جونز ؔ کی واپسی کسی کو بھی گوارا نہ تھی چنانچہ سبھی نے چپ سادھ لی اور اب تو سؤروں کی صحت برقرار رکھنے والا معاملہ بھی جس انداز سے پیش کیا گیا تھا وہ کچھ کم اہم نہیں رہا تھا اس لئے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسی بھی مزید بحث کے بغیر تمام جانوروں نے اس بات پر اتفاق کر لیا کہ سارے کا سارا دودھ سؤرہی استعمال کیا کریں گے اور سیب کا ٹپکے کا پھل کیا اس کے بعد پک کر تیار ہونے والا سارا پھل بھی صرف اور صرف اُنہی کیلئے محفوظ کر لیا جائے گا۔
جاری ہے
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...