زبان جب اور جس طرح بھی پیدا ہوئی ہو اس میں ذرا بھی شک نہیں کی جب انسان نے اتنی ترقی کر لی کہ اسے جماعتی زندگی میں اظہار خیال کی ضرورت پیش آئی اور اشارے یا معمولی آوازیں اس کے ذہنی پیچیدگی کا ساتھ نہ دے سکے اس وقت زبان وجود میں آئی اور آہستہ آہستہ ترقی کرتی گئی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زبان اور خیال میں کیا تعلق ہے؟ پہلے زبان وجود میں آئی یا خیال ؟ گوماہرین علم النفس نے بھی اس مسائل پر بڑی بڑی کتابیں لکھ ڈالی ہیں تا کہ اسے بھی ایسا ہی پیچیدہ سوال بنا دیا جائے جیسا کہ کہ مرغی پہلے تھی یا انڈہ؟؟ لیکن زیادہ تر علماء کا رجحان اس جانب ہے کہ خیال کو زبان کے مقابلے میں اولیت حاصل ہے۔
عام انسانی زندگی اور اس کے سماجی مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں تمدن اور خیال کے پیچیدہ ہونے کے ساتھ ساتھ زبان بھی نئی وسعتیں حاصل کرتی ہے ان کا اظہار کبھی نئے الفاظ اور مرکبات شامل کرکے کیا جاتا ہے کبھی کبھی معنی میں تغیرات کرکے نموئے لسان میں جو عناصر کا کام کرتے ہیں ان سب کا شمار یا تجزیہ ممکن نہیں ہے کیونکہ اس پر ماحول، طرز تمدن، جسمانی اور دماغی مشاغلِ تعلیم اور آداب و عادات کے علاوہ دوسرے خارجی اسباب بھی زیادہ اثر ڈالتے ہیں۔ طبی اور جغرافیائی اثرات، نسلی اختلاط، ہمسایہ ملکوں سے سیاسی اور اقتصادی تعلقات، فن اور آداب کے اثرات یعنی سب کام کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے تناسب کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ تعلیم اور قومی اتحاد کے جذبہ کے ماتحت بھی زبانوں پر زبردست اثر پڑتا ہے۔ یہ اثر کبھی زبانوں اور بولیوں کی یکسانی اور اتحاد کی شکل میں رونما ہوتا ہے توکبھی اختلاف کی شکل میں۔ قومیت کا احساس بین الاقوامی تصورات اپنی قدیم تہذیب کو زندہ کرنے کے منصوبے اکثریت اور اقلیت کے منا قشے سب ایک دوسرے سے دست وگر بیاں ہو کر زبان کے مسئلہ کو اس قدر پیچیدہ بنا دیتے ہیں کہ ان کے تغیرات کا سائنسی تجزیہ اگر ناممکن نہیں تو تقریباً محال ضرور ہو جاتا ہے۔
ماہرین لسانیات نے ایسے عناصر اور اسباب پر غور کیا ہے جن سے زبان میں صوتی یا معنوی تغیر برپاہوتا ہے اور جن سماجی، سیاسی اور اقتصادی حالات سے زبان کی نشوونما میں فرق پیدا ہوتا ہے یعنی وہ کون سی طاقتیں اور عوامل ہیں جن کے عمل اور ردعمل سے کبھی کوئی زبان تیزی سے ترقی کی منازل طے کر لیتی ہے تو کبھی اس کی باڑھ رک جاتی ہے۔ ہر زبان کے ارتقا اور زوال کو اس کے مخصوص لسانی تاریخی اور سماجی پس منظر میں دیکھنا چاہیے کیونکہ میکانیکی نقطۂ نظر اس سلسلہ میں اکثر مفید نہیں ہوتا ۔
لسانیات کے مطالعے میں دو طریقے عام طور پر رائج ہے جنہیں تاریخی یا تقابلی اور توضیحی یا تجزیاتی طریقے کہا گیا ہے۔ اوّل الذکر میں زبان کی تبدیلی کے ارتقائی عمل کو دیکھا جا تا ہے اور آخر الذکر میں صَوری، ہیئتی اور صَوتی تبدیلیوں کو لسانیات کا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ لسانیات کا درست علم ان دونوں کو پیش نظر رکھ کر ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ علم اللسان کا مطالعہ مختلف شعبہ جات میں تقسیم ہو چکا ہے جن میں خاص خاص صوتیات الفاظ کی ساخت، معنویات، صَرف ونَحو، علم اللغات اور ان کی دیگر شاخیں ہیں جن پر الگ الگ درجنوں کتابیں حیطۂ تحریر میں لائی جا چکی ہیں۔
آپ کا اپنا
احمدمنیبؔ
یکم مارچ2022 ء
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...