ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں ۔زمانہ بڑی تیز رفتاری سے ترقی کررہا ہے ۔ کمپیوٹر کا دور ہے ۔بچے مٹی کے کھلونے نہیں ویڈیو گیم پسند کرتے ہیں ۔ایسے ترقی یافتہ دور میں فقیر کیوں پیچھے رہیں ؟ وہ بھی بھیک مانگنے کے نئے نئے گر استعمال کررہے ہیں ۔
میٹروپولیٹن شہروں میں اونچی اونچی عمارتیں ہوتی ہیں ۔بیچارہ فقیر کہاں سیڑھیاں چڑھنے کی زحمت گوارہ کرے ! لہٰذا وہ میگا فون کا استعمال کررہا ہے ۔اپنا مدعا میگا فون پر بیان کرکے وہ جھولی پسارتا ہے اور اونچی عمارتوں سے اس پر ریزگاری کی بارش ہوتی ہے ۔کچھ فقیر بھیک لینے گروپ کی شکل میں نکلتے ہیں ،ان میں ایک اندھا ہوتا ہے باقی مسٹنڈے۔وہ اندھے کو ڈھال بناکر اپنا مطلب نکالتے ہیں۔
آج کل کے فقیر ماہر نفسیات ہوتے ہیں ۔چھوٹے چھوٹے بچوں کو افیم کی گولی کھلا کر ریلوے پل یا ریلوے پلیٹ فارم پر بیٹھ جاتے ہیں کہ مجھ پر نہیں تو کم از کم اس نونہال پر رحم کھاکر بھیک دے دو !! ۔۔۔
بچہ ایک ایک مسافر کو اپنا پیٹ دکھاتا ہے ،رحم دل انسان ایک دو روپے اس کی ہتھیلی پر رکھ دیتے ہیں ۔بچہ پورے ڈبے کا کلکشن ماں کے حوالے کردیتا ہے ،اگلے اسٹیشن پر دونوں ڈبہ بدل دیتے ہیں ۔کچھ فقیر معذوریت کا مظاہرہ کرکے پیسے بٹورتے ہیں ۔اگر ہاتھ کٹا ہوا ہے تو آستین اوپر چڑھا کر کٹے ہوئے ہاتھ کی نمائش کرتے ہیں ۔اگر پیر سے معذور ہیں تو پائینچے اوپر چڑھا لیتے ہیں ۔اگر جسم جھلسا ہوا یا کٹا پھٹا ہے تو شرٹ سے بے نیاز چوراہے پر کھڑے ہوجاتے ہیں گویا یہ معذوریت ان کی روزی روٹی کا ذریعہ بن جاتی ہے ۔
آج کا فقیر ذہین اور ترقی یافتہ ہے ۔میں جس راستے سے گزر کر ریلوے اسٹیشن پہنچتا ہوں وہاں ریلوے ٹریک کے متوازی چھوٹی سی دیوار بنی ہوئی ہے جس پر لائن سے فقیر بٹھتے ہیں ۔صبح سویرے انہیں کوئی دقت نہیں ہوتی۔۔۔مگر جیسے جیسے سورج اوپر چڑھتا ہے انہیں دھوپ کی تمازت ستاتی ہے ۔اس سے بچنے کے لیے وہ چھاتا کھول کر بیٹھنے لگے ہیں ۔آپ بھلے سے دھوپ میں کھڑے ہو کر بھیک دو مگر صاحب ! ہم تو سایہ میں بڑے ٹھاٹ سے بھیک مانگیں گے ۔کچھ فقیر جو زیادہ دیر کھڑے نہیں رہ سکتے وہ اپنے ساتھ گھر سے کرسی لے کر آتے ہیں اور بڑی شان سے کرسی پر بیٹھ کر بھیک مانگتے ہیں ۔۔میں انہیں شاہی فقیر کہتا ہوں ۔
بعض فقیر عالمی منظر نامے اور سیاست پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں ۔۔آپ چونکیے مت !یہ حقیقت ہے ۔۔میں نے اسی منڈیر پر دوپہر کے اوقات میں جب مسافروں کی آمد ورفت کم ہوجاتی ہے ،فقیروں کو اخبار پڑھتے اور سیاسی بحث کرتے دیکھا ۔۔۔بے شک آزاد ہندوستان کے آزاد شہری کے بنیادی حقوق کو کوئی سلب نہیں کرسکتا !!۔۔وہ بھیک مانگ کر اخبار خرید سکتا ہے ۔۔۔پان گٹکا کھا سکتا ہے ۔۔۔۔افیم اور چرس کے دم لگا سکتا ہے ۔ ۔۔
کرلا ریلوے اسٹیشن کے ایک پل پر راہ دری کے بیچوں بیچ ایک لحیم شحیم بھکاری رونی صورت بنا کر بھیک مانگتا ہے ۔اس کے چہرے مہرے ظاہر ہوتا ہے گویا اس پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہوں ۔ہمیشہ اپنا دامن پھیلائے رکھتا ہے جو سدا خالی رہتا ہے ۔اس کی وجہ ؟یہ ہے کہ دامن میں جو بھی ریزگاری آتی ہے وہ فوراً جیب میں منتقل ہو جاتی ہے !!
کچھ فقیر بڑی شان وشوکت کی زندگی گزارتے ہیں ۔ممبرا مہاراشٹر کا ایک بھکاری روزانہ اسی
روپے کا ناشتہ کرتا ہے ۔اس سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کی ماہانہ آمدنی کیا ہوگی!!۔میں جس بینک سے تنخواہ نکالتا ہوں اس بینک میں بعض فقیروں کے کھاتے کھلے ہوئے ہیں ،جہاں وہ یومیہ آمدنی جمع کرتے ہیں ۔ایک بار ایک فقیر نے اپنا سرمایہ جمع کیا تو کلرک نے ازراہِ مذاق کہا ،۔۔،،آج بہت رقم جمع کر رہے ہو ؟۔کیا بات ہے ؟؟
،،آج تہوار ہے ۔۔ لہٰذا اور دنوں کے مقابل زیادہ بھیک مل گئی ،،
بھک منگے نباض اتنے ہوتے ہیں کہ ایسی آوازیں اور درد بھرے فقرے نکالیں گے کہ آپ جیب سے پیسہ نکالنے پر مجبور ہو جائیں گے ۔ٹرین میں وہ نغمے گائیں گے جو آپ کو بھیک دینے پر آمادہ کردیں ۔جیسے ،
غریبوں کی سنو وہ تمھاری سنے گا
تم ایک پیسہ دوگے وہ دس لاکھ دے گا
میں نے دس لاکھ کے لالچ میں کئی بار بھیک دی مگر نہ فقیر کی دعا قبول ہوئی نہ میری مراد پوری ہوئی ۔ ہارمونیم اور کنجری لے کر بھک منگے ٹرین میں گھس آتے ہیں اور مسافروں کے کان کھاتے ہیں ۔دوپہر کے وقت جب بھیڑ کم ہوتی ہے ۔۔فقیروں کی جھڑی لگ جاتی ہے ۔۔سچ ہے ۔۔ممبئی شہر بھوکا اٹھاتا ہے بھوکا سلاتا نہیں !!!
ممبئی شہر میں بھکاریوں کا ایک ریکٹ ہے جو صبح سویرے معذور افراد کو پبلک مقامات پر کاروں سے ڈال کر چلا جاتا ہے اور رات میں انھیں بھیک سمیت اٹھا لاتا ہے اور پھر سرمائے کا بٹوارہ ہوتا ہے ۔ ۔۔۔کس کس کے حصے اس میں شامل ہوتے ہیں یہ ایک الگ بحث ہے !!!
ایک بار میں ٹرین میں وطن سے واپس ہورہا تھا ۔۔۔بغل میں بیٹھے ہوئے شخص سے میں نے دعا سلام کے بعد اس کی مشغولیت کے بارے میں پوچھا ،۔ اس نے بڑے فخر سے کہا ،۔۔ ،،میں دادر اسٹیشن پر بھیک مانگتا ہوں ،،
،،ہائیں !– میں نے حیرت کہا ،،تم بھیک مانگتے ہو ۔۔اور فرسٹ کلاس میں سفر کررہے ہو ؟؟؟
،،صاب۔۔۔گاؤں میں میری دس ایکڑ زمین ہے ۔۔۔شہر میں پانچ پلاٹ ہیں ۔۔۔بچے کانونٹ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔۔۔اور میری بیوی گہنوں سے لدی رہتی ہے !!،،
اس سے آگے میں کچھ پوچھنے کی ہمت نہ کر سکا۔۔۔کیونکہ میرے لڑکے کی ٹیکنیکل کالج کی فیس بھرنے کے لیے میری بیوی نے اپنے سارے زیورات فروخت کر دیے تھے !!!