استعمال
شہر کے ایک معروف اسکول کے درجہ چہارم میں مطالعہ سماج کے استاد نصابی کتاب’’ہمارا سماج کانواں باب‘‘ ’’ہندوستان کی معدنیات‘‘ پڑھارہے تھے۔ پورا سبق پڑھانے کے بعد یہ جاننے کے لئے کہ بچوں نے غور سے سبق پڑھا یا نہیں،انہوں نے آخر میں دیئے گئے مشقی سوالات میں سے پہلا سوال کیا۔
’’ دیکھو بچو، پہلاسوال ہے۔۔۔۔پٹرولیم ، لوہا اور کوئلہ میں سے ہر ایک کے پانچ پانچ استعمال بتاؤ۔۔۔۔سب سے پہلے پٹرولیم یعنی پٹرول۔۔۔۔چلو پٹرول کے پانچ استعمال بتاؤ۔‘‘
’’پٹرول سے کاریں،موٹریں چلائی جاتی ہیں۔‘‘ ایک بچے نے بتایا۔
’’ ہوائی جہاز چلایا جاتا ہے۔‘‘ دوسرے نے کہا۔
’’ پٹرول کا استعمال انجن میں ہوتا ہے۔‘‘تیسرے بچے کا جواب تھا۔
’’شاباش !۔۔۔۔اور دو استعمال ؟ ‘‘ استاد نے حوصلہ دیا۔
اچانک پیچھے کی بنچ سے ایک بچے کی آواز آئی۔’’سر، پٹرول سے دشمن کے گھروں میں آگ لگائی جاتی ہے۔‘‘
***
عصری پیغمبر
وہ شہر کے معروف چوراہے پر کھڑا ہوگیا اور چیخ چیخ کر کہنے لگا۔
’’لوگو! ۔۔۔۔رک جاؤ۔۔۔۔کدھر جارہے ہو؟۔۔۔۔چل کیوں رہے ہو؟۔۔۔۔چلنا توزندگی کی دلیل ہے ۔۔۔۔اور زندگی میں سوائے پریشانیوں اور دکھوں کے کیا رکھاہے؟۔۔۔۔رک جاؤ ۔۔۔۔کہ رک جانا موت کی علامت ہے۔۔۔۔اور موت سارے دکھوں سے نجات پانے کا واحد ذریعہ ہے۔۔۔۔رک جاؤ۔۔۔۔رک جاؤ۔۔۔۔‘‘
لوگ اس کی باتوں سے متاثرہوکر رک گئے،لیکن وہ چلنے لگا۔
مجمع میں سے ایک سامع نے استعجاب بھرے لہجے میں کہا۔’’ ہم آپ کے پیغام پر تو رک گئے،لیکن آپ چلے جا رہے ہیں۔‘‘’’اے نا فہم انسان، میں ہی رک گیا تو رکنے کا پیغام کون دے گا؟‘‘
***
تبدیلی
مولانا معین الدین موٹر سائیکل پر سوار میرے سامنے سے گزر گئے۔ مجھے ان کی موجودہ حالت دیکھ کر بہت حیرت ہوئی۔ان کی موجودہ حالت جاننے کا تجسس میرے دل میں پیداہوگیا۔ مولانا کے متعلق تفصیل اور صحیح معلومات ڈاکٹر آفاق سے مل سکتی ہے۔ کیونکہ وہ اکثر ڈاکٹر آفاق کے یہاں بغرض علاج آیا کرتے ہیں۔ میرا تجسس اتنا بڑھا کہ میں اسی وقت ان کے یہاں پہنچ گیا۔ کلینک میں اتفاق سے اس وقت کوئی مریض نہیں تھا۔ وہ کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھے۔ مجھے دیکھتے ہیں کتاب کو میز پر رکھ کر پوری طرح میری جانب متوجہ ہوئے۔میں نے ان سے کہا۔’’ ڈاکٹر صاحب، یہ مولانا معین الدین میں تو بڑی تبدیلی آگئی ہے۔۔۔۔کچھ دنوں پہلے تک وہ پرانی دھرانی سائیکل پر گھوم گھوم کر ٹیوشن پڑھاتے تھے۔۔۔۔تھوڑی دیر قبل میں نے انہیں اچھی وضع قطع میں اور نئی موٹر سائیکل پر جاتے دیکھا۔۔۔۔‘‘
ڈاکٹر آفاق نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔’’ ان کے بارے میں نئی بات آپ کو معلوم نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں تو۔۔۔۔کیا نئی بات ہے؟‘‘ میرا تجسس اور بالیدہ ہوگیا۔
آفاق بولے۔’’ چھ مہینے ہوئے۔۔۔۔انہوں نے اپناایک مدرسہ قائم کر لیا ہے۔‘‘
***
زاویہ ءنگاہ
باپ کی موت پر جب میں بہت رورہا تھا تو محلے کے لوگ سمجھانے لگے تھے۔ ’’ بیٹا!۔۔۔صبر کرو۔۔۔ایک نہ ایک دن سبھی کو اس دنیا سے جانا ہے۔۔۔رہنے کے لئے کوئی نہیں آتا۔۔۔۔تمھارا رونا مرحوم کے حق میں اچھا نہیں ہے۔۔۔۔۔تم روؤگے تو مرحوم کو قبر کی سختیاں جھیلنی پڑی گی۔‘‘اور تب میں خاموش ہوگیا تھا۔
پھر جب دو برس بعد میری ماں چل بسی تو میں یہ سوچ کر بالکل نہیںرویا کہ میرے آنسوؤ ں کی وجہ سے میری ماں کو قبر کا عذاب جھیلنا پڑے گا تب محلے کی عورتیں ایک دوسرے سے کہنے لگیں۔’’ توبہ ہے۔۔۔۔باپ کی موت پر کیسا بلک بلک کر رو رہا تھا ۔۔۔۔ماں کی موت کا تو اسے کوئی غم نہیں۔۔۔۔واقعی شادی کے بعد دیدے کاپانی مر جاتا ہے۔‘‘