سقراط کی درس گاہ کا صرف ایک اصول تھا، اور وہ تھا برداشت، یہ لوگ ایک دوسرے کے خیالات تحمل کے ساتھ سُنتے تھے، یہ بڑے سے بڑے اختلاف پر بھی ایک دوسرے سے الجھتے نہیں تھے۔ سقراط کی درسگاہ کا اصول تھا اس کا جو شاگرد ایک خاص حد سے اونچی آواز میں بات کرتا یا پھر دوسرے کو گالی دے دیتا یا دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرتا یا ہاتھا پائی کی کوشش کرتا اس طالب علم کو فوراً درس گاہ سے نکال دیا جاتا تھا۔
سقراط کا کہنا تھا برداشت کسی بھی معاشرے کی روح ہوتی ہے۔ اسی لیے جب معاشرےمیں قوتِ برداشت کا فقدان ہونا شروع ہو جاتا ہے تو باہمی گفتگو یعنی مکالمہ کم ہوجاتا ہے اور جب مکالمہ کم ہوتا ہے تو معاشرے میں وحشت بڑھ جاتی ہے۔
سقراط کا کہنا ہے کہ اختلاف، دلائل اور منطق پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگوں کا کام ہے۔ یہ فن جب تک پڑھے لکھے، عالم اور فاضل لوگوں کے پاس رہتا ہے اُس وقت تک معاشرہ ترقی کرتا ہے ۔۔ لیکن جب مکالمہ یا اختلاف جاہل لوگوں کے ہاتھ آجاتا ہے تو پھر معاشرہ انارکی کا شکار ہوجاتا ہے ۔۔
سقراط کہتا ہے ۔۔
”کوئی عالم اُس وقت تک عالم نہیں ہوسکتا جب تک اس میں برداشت نہ آجائے۔ وہ جب تک ہاتھ اور بات میں فرق نہ رکھے۔ “
پس ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی طورپر برداشت کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور ہر وقت ایک دوسرے کے ہر قسم کے جذبات کا خیال رکھیں اور شفقت و رافت کے پر ہر ایک کے لیے پھیلائے رکھیں۔ اپنا اور اپنوں کا ہر دم خیال رکھیے۔ اللہ آپ کے ساتھ ہو۔ آمین
آپ کا اپنا
احمدمنیبؔ
یکم فروری 2022ء
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...