“صاحب دو دن سے روٹی نہیں کھائی تھوڑے پیسے دے دو”
“چل ہٹ پرے ہو میری گاڑی گندی کرنی ہے کیا”
“نہیں صاحب میرے بچے گھر میں بھوک سے تڑپ رہے ہیں چار دن سے کچھ نہیں کھایا کچھ پیسے دے دو بہت بھوک لگی ہے”
“ارے دفع ہو مر جاؤ تاکہ ملک سے تھوڑی غریبی کم ہو جائے بدبودار کہیں کی میرے پرفیوم کی مہک سے بھی تیز تیرے پسینے کی بو ہے”
“ارے صاحب ابھی تو آپ تقریر کر رہے تھے غریبوں کی حمایت میں کتنی اچھی باتیں کتنی میٹھی زبان میں کررہے تھے مجھے لگا آپ میری مدد کریں گے”
“منحوس عورت زبان چلاتی ہے ” اور پھر سیٹھ صاحب نے ایک زوردار تھپڑ اس عورت کے منہ پر دے مارا اور گاڑی آگے بڑھائی
مینو کب سے سب کچھ سن رہی تھی نصیباں کے قریب آئی اور کہا “کیوں روتی ہے چل آنسو پونچھ میرے ساتھ چل”
” کہاں ”
“روٹی نہیں کھانی”
“اپنی خیر ہے چار دن سے بچے بھوک سے بلکہ رہے ہیں کہیں کام نہیں مل رہا ادھار بھی کوئی دینے کو تیار نہیں”
“بس میرے ساتھ چل”
“اچھا چل”
مینو نصیباں کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے آئی کچھ پیسے اور کھانا دیا اور کہا “شام سات بجے نہا دھو کر میرے پاس آجانا”
نصیباں نے عجیب سے نظروں سے مینو کی طرف دیکھا اور روبوٹ کے سے انداز میں “ٹھیک ہے” کہہ کر چل دی
بچوں کو کئی دن بعد کھانا کھاتا دیکھ کر اسے بہت خوشی ہوئی تھی پھر شام کے 7 بجنے سے پہلے نہا دھو کر تیار ہوگئی اوربچوں کو کہا کے کنڈی اندر نہ لگالیں وہ دیر سے گھر آئے گی باہر سے تالا لگاکر جارہی ہےاور پھر مینو کے گھر پہنچی
ٹھک ٹھک ٹھک
“کون ہے”
نصیباں”
“آئی”
“ہاں اب بول”
“ارے یہ کیا سرخی نہیں لگائی”
اور طاق پر سے سرخی اٹھا کر اس کے ہونٹوں پر لگائی اور کہا
“اب چل جیسا میں کہوں ویسا ہی کرنا”
“ٹھیک ہے”
نصیباں کو اپنے ساتھ لے کر سگنل کی طرف روانہ ہوگئی
یہ اس کا روزانہ کا معمول تھا وہاں پہنچ کر پلسیے کو سو روپے تھمائے اور نصیباں سے مخاطب ہوئی جو بھی گاڑی قریب آکر رکے 5000 روپے دو گھنٹے کے بولنا میں نے جو جگہ بتائی وہاں لے جانا پیسے پہلے لے لینا پھر۔۔۔۔۔۔۔۔
“اجھا جیسا تم کہو”
اور پھر ایک گاڑی ان دونوں کے قریب آکر رکی گاڑی میں سے خوشبو کی تیز لپٹیں آرہی تھیں
مینو نے اس سے بات کی اور پھر نصیباں کو گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا
اور نصیباں اس کے اشارے پر گاڑی میں بیٹھ گئی
اور بابو جی کو دیکھ کر حیران رہ گئی لیکن وہ سیٹھ اسے پہچان نہ پایا تھا
مینو نے جو جگہ بتائی تھی وہیں لے کر گئی
پیسے پہلے ہی لے لیے اور وہاں موجود آدمی کو پانچ سو روپے دیئے پھر وہ دونوں اندر چلے گئے
واپسی پر صاحب نے اسے رکنے کا اشارہ کیا اور اپنی جیب سے دو کرارے 1000 روپے کے نوٹ نکال کر اسے تھماتے ہوئے بولا “آج تم نے مجھے بہت خوشی کیا اس لئے یہ میری طرف سے بخشش”
اور نصیباں اس موٹے سیٹھ سے پیسے لیتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ بےغیرت شرابی کتنا بھوکا ہے صبح مجھ سے بو آرہی تھی اور اب ۔۔۔۔۔ منحوس کو خبر بھی نا ہو پائی کہ اس کی شراب میں تھوک ملاکر اس کتے کنجر کو پلاتی رہی ۔ہونہہ اور پھر وہ فرش پر تھوکنے ہوئے سگنل کی جانب بڑھ گئی۔