جھوٹی تعریف سے لگتا ہے بہت ڈر ” مونا”
میٹھی باتوں نے ہی شیشے میں اتارا ہے بہت
ایلزبتھ کورین مونا
اصل نام : ایلزبتھ
تخلص: مونا
تاریخ پیدائش :18 اکتوبر 1949ء
جائے ولادت:حیدر آباد، تلنگانہ
پتا:93, Methodist Colony
۔ Opp.Kunwar Rani Flats
۔ Begumpet,Hyderabad-500016
مونا کی مادری زبان ملیا لم ہے۔ ہندی، اردو، تیلگو اورانگریزی پر عبور ہے۔ انگریزی اوراردو میں شاعری کرتی ہیں اور نثر بھی لکھتی ہیں۔ انھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے فاصلاتی کورس کے ذریعہ اردو لکھنا اور پڑھنا سیکھی۔ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی حیدر آباد سے تحسین غزل کا کورس کیا۔ غزل کہنے کی بنیادی تعلیم کمل پرساد کمل سے لی۔ علم عروض بمبئ میں آرپی شرما مہرش سے سیکھا۔ انھوں نے 2019 میں بہ زبان انگریزی غزل کی تفہیم اورعروض سے متعلق ایک کتاب شائع کی۔ ”The Art and Science of Ghazal“ جس کا اجراء جشن ریختہ میں ہوا تھا اور جشن کے خواتین کے مشاعرے میں بھی مونا شامل تھیں۔
اردو مطبوعات: کہکشاں، غزل انتھالوجی (یوپی اور آندھرا پردیس اردو اکادمی سے انعام یافتہ)۔ محبت کے سائے (تلنگانہ اردو اکادمی سے انعام یافتہ)۔ ذوق جستجو اور قوس قزح۔ دیگر زبانوں کی مطبوعات : Beyond Images(انگریزی شاعری)۔ سپنے مروشتل میں (ہندی شاعری)۔ حسن غزل (منتخب غزلیں دیوناگری اور رومن خط میں بمع انگریزی ترجمہ) اور ایک کتاب ملیالم زبان میں ہے۔
مونا نے اردو اور ہندی سے انگریزی میں کچھ شاعروں کے تراجم بھی کیے ہیں۔ مریم غزالہ کی ہندی اور اردو نظموں کا ترجمہ”mirror of soul“ ڈاکٹر رام برایا کی ہندی نظمیں ”Termor“۔ نصرت محی الدین کی نظمیں”waiting a new season“اور ڈاکٹر اہلیہ مسرا کی نظمیں’ شوس سے شبد تک‘۔
ان کی انگریزی نظموں کی کتاب کا فرنچ زبان میں ترجمہ سپرتک سین نے اور تامل میں این وی سبرامنیم نے کیا ہے اور اس کتاب میں پن اور انک سے اسکیچز کھٹمنڈو نیپال کے سوشیل تھاپا نے بنائے ہیں۔ ملیالم کے مصنف آر کے پراکاداو کے افسانچوں کا اردو ترجمہ اور کرامت علی کرامت کی اردو شاعری کا انگریزی ترجمہ زیر ترتیب ہے۔
مونا نے ریزرو بینک آف انڈیا، بمبئ کی منیجر کی ملازمت سے قبل از وقت ریٹائر منٹ لے کر خود کو علم و ادب کے لیے وقف کردیا ہے۔ حیدر آباد میں سکونت پذیر ہیں۔ ان کی شاعری اور مضامین رسائل اور الٹرونک میڈیا میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ مختلف زباانوں کی ادبی انجمنوں میں سرگرم رہتی ہیں۔ ادبی فیسٹیولز اور مشاعروں میں حصہ لیتی ہیں۔ ملٹی لینگول ادبی گروپ ساہتیہ سنگم انٹرنیشنل کی سکریڑی ہیں۔
غزل
۔۔۔۔۔
ڈوبنے والے کو تنکے کا سہارا ہے بہت
رات تاریک سہی ایک ستارا ہے بہت
درد اٹھتا ہے جگر میں کسی طوفاں کی طرح
تب تری یادوں کے دامن کا کنارہ ہے بہت
ظلم جس نے کئے وہ شخص بنا ہے منصف
ظلم پر ظلم نے مظلوم کو مارا ہے بہت
راہ دشوار ہے پگ پگ پہ ہیں کانٹے لیکن
راہ رو کے لئے منزل کا اشارہ ہے بہت
اس کو پانے کی تمنا ہی رہی جیون بھر
دور سے ہم نے مسرت کو نہارا ہے بہت
فاصلے بڑھتے گئے عمر بھی ڈھلتی ہی گئی
وصل کا خواب لئے وقت گزارا ہے بہت
ہونٹ خاموش تھے اک آہ بھی ہم بھر نہ سکے
بارہا دل نے مگر تم کو پکارا ہے بہت
جھوٹی تعریف سے لگتا ہے بہت ڈر موناؔ
میٹھی باتوں نے ہی شیشے میں اتارا ہے بہت
غزل
۔۔۔۔۔
اے غم دل یہ ماجرا کیا ہے
درد الفت سے واسطہ کیا ہے
رہنے دو ان حسین وعدوں کو
جھوٹے وعدے ہیں سب نیا کیا ہے
جام و مینا کو چھوڑ کر دیکھو
چشم ساقی کا یہ نشہ کیا ہے
شعلۂ غم کو اور بھڑکائے
کون سمجھے کہ یہ ہوا کیا ہے
چھن گیا ہے سکون بھی میرا
عاشقی نے مجھے دیا کیا ہے
چارہ گر کوئی بھی نہ جان سکا
موت اور عشق کی دوا کیا ہے
کیا بھروسہ ہے زندگانی کا
جانے تقدیر میں لکھا کیا ہے
چشم پر نم مگر لبوں پہ ہنسی
دل میں موناؔ ترے چھپا کیا ہے