یہ ابھی تک ہمارے ساتھ نہیں ہوا۔ لیکن یہ ہمارے سب کے ساتھ ہونا ہے۔ ہر روز دنیا میں 160,000 لوگ مرتے ہیں۔ ہر سال میں چھ کروڑ۔ یہ بہت سی اموات ہیں لیکن دوسری طرف سے دیکھا جائے 100 میں سے صرف 0.7۔ کسی بھی دوسرے جاندار کے مقابلے میں ہم خود کو زندہ رکھنے میں بہت ماہر ہیں۔
بڑھاپا موت کا یقینی طریقہ ہے۔ امریکہ میں اموات کے ریکارڈ میں 1951 میں “بڑھاپے” کو وجہ کے طور پر نکال دیا گیا تھا۔ کیونکہ موت کا سبب کوئی عارضہ ہی بنتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم میں سے اکثر کے لئے موت ایک ناقابلِ تصور اور خوفناک شے ہے۔ جینی ڈسکی کو آخری سٹیج کا کینسر تھا۔ انہوں نے اپنے آخری ایام میں 2016 میں مضامین لکھے ہیں جس میں اپنی کیفیت کو بہت پراثر انداز میں بیان کرتے ہیں۔ “اس عفریت کے نوکیلے پنجے مجھ میں گڑ چکے ہیں۔ یہ اندر سے مجھے کھرچ اور نوچ رہا ہے”۔ لیکن ہم کسی حد تک اس خوف کے خلاف دفاعی میکانزم رکھتے ہیں۔
سن 2014 میں ہونے والی تحقیق کے مطابق بسترِ مرگ پر اپنے آخری ایام گزارنے والے پچاس سے ساٹھ فیصد لوگ اپنے آنے والے وقت کے بارے میں بہت پرسکون ہوتے ہیں اور اس بارے میں بڑی شدت کے اچھے خواب دیکھتے ہیں۔ ایک اور الگ سٹڈی بتاتی ہے کہ دماغ میں آخری وقت میں کیمیکلز کا سیلاب آتا ہے، جو بڑے زبردست تجربات کا سبب بنتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیادہ تر لوگ اپنے آخری ایک سے دو روز میں کھانے پینے کی خواہش چھوڑ دیتے ہیں۔ کئی کی قوتِ گویائی بھی چلی جاتی ہے۔ جب کھانسنے اور نگلنے کی صلاحیت چلی جائے تو ناگوار ایک آواز آنے لگتی ہے جسے death rattle کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ مریض کے لئے تکلیف دہ نہیں ہوتی۔
تاہم، ایک اور تجربہ ہے جسے agonal breathing کہا جاتا ہے۔ دل کے فیل ہو جانے کے سبب مریض کو اتنی آکسیجن نہیں مل رہی ہوتی جتنی درکار ہوتی ہے اور وہ زیادہ ہوا اندر لے جانے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ یہ چند سیکنڈ ہی رہتا ہے لیکن کئی بار چالیس منٹ تک بھی چلا جاتا ہے۔ سانس کا ایسے اکھڑ جانا مریض اور اس کے عزیزوں کے لئے تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم موت کے بارے میں غیرمعمولی حساسیت رکھتے ہیں۔ اور اس ناگزیر گھڑی کو ٹالنے کی ہر ممکن کوشش میں ہوتے ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ پر مرتے لوگوں کے بلاوجہ علاج کا مسئلہ روٹین ہے۔ کینسر کے مریضوں کی ایک تعداد کی آخری وقت کے قریب تک کیموتھراپی کی جاتی ہے۔ اس وقت کے بہت بعد تک، جب امید باقی نہیں بچتی۔ تین الگ سٹڈیز بتاتی ہیں کہ اپنی زندگی کے آخری ہفتوں میں تکلیف رفع کرنے کیلئے مریض کو palliative care دینا کیموتھراپی کے مقابلے میں کہیں زیادہ بہتر ہے۔ نہ صرف زندگی کے معیار کیلئے بلکہ مقدار کیلئے بھی۔
بلاسبب اور غیرضروری امید کئی بار غلط فیصلوں کا سبب بنتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موت جلد اپنا اظہار کر دیتی ہے۔ جلد کی سطح سے خون کا نکاس ہو جاتا ہے۔ یہ لاش کا سفید پڑ جانا ہے۔ بغیر حرکت کے بے جان پڑے جسم کو مردہ کے طور پر پہچاننا مشکل نہیں۔
ٹشو کا گلنا فوری طور پر شروع ہو جاتا ہے۔ اسی لئے اگر کسی نے اعضا کو عطیہ کیا ہو تو ان کو فوری طور پر نکالنا ہوتا ہے۔ گریویٹی کے مطالبے پر جسم کے نچلے حصوں میں خون اکٹھا ہونے لگتا ہے۔ یہاں پر جلد جامنی ہو جاتی ہے۔ اس عمل کو livor mortis کہا جاتا ہے۔
اندرونی خلیات پھٹ جاتے ہیں۔ ان سے انزائم باہر گر جاتے ہیں اور خود کو ہضم کرنے لگتے ہیں۔ یہ autolysis کا عمل ہے۔
کئی اعضا زیادہ دیر تک کام کرتے ہیں۔ جگر الکوحل کو دیر تک ہضم کرتا رہتا ہے۔ حالانہ اب اس کا کچھ بھی مصرف نہیں۔
خلیات کے مرنے کا ریٹ بھی الگ ہے۔ دماغ کے خلیات فٹافٹ چلے جاتے ہیں۔ تین سے چار منٹ میں۔ لیکن عضلات اور جلد کے خلیے گھنٹوں تک رہ سکتے ہیں۔ شاید پورا دن ہی۔ عضلات کا اکڑنا rigor mortis کہلاتا ہے اور یہ موت کے آدھ گھنٹے سے چار گھنٹوں کے درمیان آ جاتا ہے۔ یہ چہرے سے شروع ہو کر نیچے کی طرف جاتا ہے اور ایک دن تک رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موت کئی سطح پر ہے۔ فرد کی موت کے بعد فرد کے اجزا کی موت آنے لگتی ہے۔ پھیپھڑوں اور دل جیسے اعضا چار گھنٹے جبکہ جگر اور پتہ کو چوبیس گھنٹے تک وجود کے بغیر زندہ رہ سکتے ہیں۔ آجکل فرد کی موت کا معلوم کرنے کا سب سے قابلِ اعتبار طریقہ دماغی خلیات سے اس کا پتا لگانا ہے کیونکہ یہ بہت جلد مر جاتے ہیں۔
اور یہ ہمیں ایک سوال کی طرف لے چلتا ہے۔ موت کیا ہے؟ اس قدیم سوال کا ٹھیک جواب ہمیں اب بھی معلوم نہیں۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ جب زندگی اپنا اظہار ہر طریقے سے بند کر دے۔ ہم اسے بس علامات کے ذریعے ہی پہچانتے ہیں۔ ہمیں بس یہی پتا ہے کہ خلیہ ہو، یا عضو یا فرد ۔۔۔ وجود کے ہر حصے پر زندگی سے موت کی transition یکطرفہ ٹکٹ ہے۔ کبھی واپس نہیں پلٹتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرد کے اعضا ایک ایک کر کے جا رہے ہیں۔ نظام بند ہو رہے ہیں۔ لیکن لاش میں زندگی ابھی موجود ہے لیکن یہ “آپ” کی زندگی نہیں۔ جو بیکٹیریا پیچھے چھوڑے ہیں اور جن نئے کی آمد ہوئی ہے، ان کی زندگی جاری ہے۔ آنتوں کے بیکٹیریا جسم کو کھاتے وقت کئی طرح کی گیس پیدا کر رہے ہیں۔ میتھین، امونیا، ہائیڈروجن سلفائیڈ اور کئی مرکبات جیسا کہ cadaverine اور putrescine۔ ان سے محسوس ہونے والی بدبو دو سے تین روز میں ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے۔ موسم گرم ہو تو اس سے کم وقت میں۔ اور پھر آہستہ آہستہ یہ کم ہونے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ کوئی گوشت باقی نہیں رہتا اور کوئی بدبو بھی نہیں۔
اور اگر لاش گلیشئیر یا کوئلے والی دلدل میں گر جائے یا بہت خشک ہو، تو یہ عمل رک جاتا ہے۔ یہاں بیکٹیریا بچ نہیں پاتے اور جسم کو خراب نہیں کرتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک عام غلط فہمی ہے کہ مرنے کے بعد ناخن اور بال بڑھتے رہتے ہیں۔ نہیں، ایسا نہیں۔ مرنے کے بعد کچھ بھی نہیں بڑھتا۔ گلوکوز کی آمد رک جانے کے بعد کچھ بھی مزید نہیں بڑھ سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مل ملا کر سات ارب ارب ایٹم تھے۔ کوئی بھی ہم سے خاص نہیں تھا۔ آتے جاتے رہے تھے۔ مسلسل تعمیرِ نو جاری رہی تھی۔ ماحول اور بدن میں مادہ تبادلہ کرتا رہا تھا۔ زندگی کے دورانیے کے درمیان آتے جاتے یہ ایٹم اس وجود میں رقصاں تھے۔
ہمیں معلوم نہیں کہ اتنے عرصے تک انہیں کیا پڑی تھی کہ ملکر ہمیں شکل دیں۔ ہمیں اس دنیا کو محسوس کرنے جیسے انتہائی نایاب اور انمول تحفے سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی۔ موت اس نظام کا بند ہو جانا ہے۔
چونکہ یہ انجام لازم ہے اور دستیاب وقت محدود۔ اس لئے تاریخِ انسانی کا ایک قدیم اور سب سے بڑا سوال یہ رہا ہے کہ زندگی کی اس مہلت اور اس میں میسر وقت کا بہترین استعمال کیا ہے؟ صرف اس وقت کو زیادہ سے زیادہ کھینچنے کی کوشش سے بڑھ کر کیا کیا جا سکتا ہے؟
موت ایک اچھی اور بامعنی زندگی کا ایک بڑا محرک رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کوئی مرنے کے بعد آخری رسومات میں جلانے جانے کا انتخاب کرے تو باقیات کا وزن دو سے تین کلوگرام کا ہو گا۔ وہ لوگ جو تابوت میں دفن کئے جاتے ہیں، ان کو گلنے سڑنے میں زیادہ وقت لگے گا۔ ایک اندازے کے مطابق یہ چالیس سے پچاس سال کا وقت ہے۔
قبر پر سوگواران آتے رہیں گے۔ ایک اوسط قبر پر پسماندگان کے آنے کی اوسط پندرہ سال ہے۔ اور رفتہ رفتہ، جسم کے گلنے سڑنے کے ساتھ ہی ساتھ ہم زندہ رہنے والوں کی یادوں سے محو ہو جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم مستقبل کے بارے میں نہیں جانتے۔ اس کے بارے میں اندازے لگا سکتے ہیں۔ لیکن ایک چیز جو مکمل یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں، وہ یہ کہ زیادہ سے زیادہ چند مزید دہائیوں تک ہمارے اپنے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا۔۔
لیکن یہ جب تک رہا، کیا یہ سب شاندار نہیں تھا؟
۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...